ہم میں بہت سے ایسے ہوں گے جو کرفیو کو شائد بھول چکے ہیں، یاد ہے نا کہ جب کرفیو لگایا جاتا تھا تو کیا ہوتا تھا؟ کوئی گھر سے نکلنے نہیں پاتا تھا جو نکلا سمجھو مارا گیا۔ لاہور میں تو 65 کی جنگ اور 71 کی جنگ کے علاوہ تحریک ختم نبوتﷺ اور شیعہ سنی فسادات میں بھی ایسے کرفیو لگے جس میں روڈ پر دیکھے جانے پر ایک وارننگ کے بعد نا رکنے والوں کو گولی ماردینے تک کا آرڈر تھا، ذوالفقار علی بھٹو واحد سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہونے کے ساتھ ساتھ کرفیو لگانے کے حوالے سے بھی مشہور ہیں۔ اے آر ڈی کی سیاسی تحریک میں بھی ہم نے لاہور میں کرفیو کے نظارے دیکھے لیکن جیسے جیسے جمہوری قدریں معروف و مقبول ہوئیں ویسے ویسے یہ کرفیو والا معاملہ بھی کچھ کچھ ٹھنڈا ہوتا گیا۔ اب آج کل حکومتیں لاک ڈاؤن لگاتی ہے، یہ ایک طرح سے بھیک ہوتی ہے جو حکومت عوام سے مانگتی ہے کو جو عمل کرے اس کا بھی بھلا جو عمل نا کرے اس کا بھی بھلا لیکن اب اس بھیک کو ختم کرنے کی نوید آئی ہے پھر سے ہائیکورٹ میں کرفیو لگانے کی بات چل نکلی ہے۔ معاملہ ہے سموگ کا جس پر آج لاہور ہائیکورٹ میں اہم سماعت معزز جج جسٹس شاہد کریم نے کی، اس سماعت میں سموگ کے حوالے سے عدالت کے ریمارکس اور وکلاء کی بحث و تکرار پڑھنے کے قابل ہے، اس لیے یہاں ریمارکس اور وکلاء کی گفتگو کاپی کر رہا ہوں ۔
"لاہور ہائیکورٹ کے سموگ تدارک کے متعلق بڑے بڑے احکامات،ہائیکورٹ کا دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کا حکم،عدالت کا ٹریفک پولیس کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو فوری بند کرنے کا حکم،عدالت کا ڈولفن پولیس کو بھی دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بھی ٹریفک پولیس کے ساتھ ملکر کاروائی کا حکم، رات گیارہ بجے کے بعد ٹریفک والے پھیل جائیں جو گاڑی دھواں چھوڑتی نظر آئے اسے فوری بند کردیں ،عدالت کا سیکرٹری ٹرانسپورٹ کو لاری اڈوں پر دھواں چھوڑنے والی بسوں کو سیل کرنے کا بھی حکم،لاہور ہائیکورٹ کا مارکیٹیں رات آٹھ بجے بند کرنے کا بھی حکم‘‘
عدالت کا اتوار کے روز مارکیٹیں مکمل بند کرنے کا حکم،عدالت کا تمام پرائیویٹ دفاتر میں دو روز کے لئے ورک فراہم ہوم کرنے کا حکم،ایڈوکیٹ جنرل پنجاب، سی سی پی او سمیت دیگر متعلقہ افسران کے ساتھ میٹنگ کریں ،ایڈوکیٹ جنرل افسران کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند کرنے کے عدالتی حکم بارے آگاہ کریں۔ ایڈوکیٹ جنرل سموگ سے متعلقہ سرگرمیوں کو مانیٹر کریں گے،ڈولفن والے بے کار لوگ ہیں ، ایک دفعہ خود دیکھا کہ چند لڑکوں کو سڑک پر پکڑ کر کھڑے ہوئے تھے، مینار پاکستان کی طرف رات گیارہ بجے نکلا تو وہاں گاڑیاں بڑی تعداد میں کالا دھواں چھوڑتی نظر آئیں ، گیارہ بجے کے بعد گاڑیاں آتی ہیں کہ ان سے دھواں نکلتا ہے جس کی کوئی حد نہیں کاش افسران باہر نکل کر دیکھیں کہ کیا حالات ہیں، کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز اپنے اپنے اضلاع میں دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں، کیا ان افسران کی ذمہ داری نہیں کہ وہ باہر نکل کر دیکھیں کہ گاڑیاں کتنا دھواں دے رہی ہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں کہ لوگوں کا کاروبار بند کردیں گاڑیوں نے شہر میں آنا ہے، نہر کنارے ٹریفک کی بھرمار ہے، دھواں دینے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا کسی کو کوئی خیال نہیں ،دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہونا چاہئے۔
اس پر محکمہ وکیل میاں عرفان نے لقمہ دیا کہ ، موجودہ حالات میں رات دس بجے کے بعد کرفیو لگا دینا چاہیے کوئی بلا ضرورت باہر نہ نکلے جس پر جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ اس بارے حکومت فیصلہ کرے ، کیا آپ چاہتے ہیں کہ سارے فیصلے عدالت کرے اور لوگ اس پر تنقید کریں ،کیا حکومت اقدامات نہیں کرسکتی ؟ اور اس کے ساتھ ہی سماعت گیارہ نومبر تک کے لیے ملتوی کردی گئی، ہائیکورٹ میں ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے حمید اللہ ملک نے سموگ بارے حکومتی اقدامات پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت اقدامات میں غلطی ہے جس کی وجہ سے سموگ قابو نہیں آرہی،ممبر ماحولیاتی کمیشن نے عدالتی احکامات پر عملدرآمد بارے عمل درآمد رپورٹ پیش کی۔
یہ تھی آج کی سماعت لیکن پتہ نہیں کیوں ہماری ہر حکومت سموگ آنے کے بعد جاگتی ہے اس سے پہلے سب سوئے رہتے ہیں سموگ کے خاتمے کے لیے جسٹس شاہد کریم لمبے عرصے سے آواز اٹھارہے ہیں لیکن حکومت کے سر میں جوں بھی نہیں رینگ رہی، ہر سال کی ایک ہی پالیسی ہے کہ جب سموگ آئے جاگ جاؤ بھاگ دوڑ دکھاؤ اور سموگ کے جاتے ہی سب بھول جاؤ اس بار بھی شائد ایسا ہی ہو لیکن کوئی نہیں سوچ رہا کہ پانچ سال بعد کیا ہوگا ؟ آج پانچ سالہ پروگرام بنایا جائے، پانچ سال بعد چنگ چی کے چلنے پر پابندی لگائی جائے ، فیکٹریوں کو کاربن فری چمنیاں جس میں کاربن پانی میں شامل ہوتا ہے لگانے کا حکم صادر کیا جائے، تمام بھٹوں کو پانچ سال میں زیگ زیگ کرنے یا بڑی اینٹوں کی خودکار فیکٹریوں میں تبدیل کیا جائے ، الیکٹرک بائکس ، رکشے اور گاڑیوں کے لیے کوئی حد مقرر کی جائے چاہے پانچ نہیں تو سات یا دس سال لیکن اس کے بعد بڑے شہروں لاہور ، ملتان ، گوجرانوالہ ، پنڈی اور فیصل آباد میں ڈیزل پیٹرول گاڑیاں نہیں چلنی چاہئیں، یہ اقدامات آج کریں گے تو مستقبل محفوظ ہوگا وگرنہ ہر طرف دھواں ہی دھواں ہوگا کچھ نہیں بچے گا ۔
نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر