پی ایم ایس افسران کا احتجاج جاری‎

8 Nov, 2020 | 11:32 AM

قیصر کھوکھر

قیصر کھوکھر: پنجاب سول سیکرٹریٹ میں پی ایم ایس افسران کا احتجاج جاری ہے اور وہ چیف سیکرٹری پنجاب جواد رفیق ملک کے خلاف بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھ رہے ہیں۔ ان پی ایم ایس افسران کا مطالبہ ہے کہ چیف سیکرٹری جواد رفیق ملک کو تبدیل کیا جائے کیونکہ وہ ڈی ایم جی لابی کا حصہ بن گئے ہیں۔

اس احتجاج میں سینئر پی ایم ایس افسران بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جبکہ سینئر پی ایم ایس افسران کا کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی ہے۔ پی ایم ایس افسران جو اس وقت پنجاب حکومت میں سیکرٹری تعینات ہیں ان کا یہ موقف ہے کہ چیف سیکرٹری اچھا کام کر رہے ہیں جبکہ پی ایم ایس افسران کے دیگر مطالبات منظور کئے جائیں۔

سینئر پی ایم ایس افسران کا کہنا ہے کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں پی ایم ایس افسران کو ممبران کی تعیناتی میں نمائندگی دی جائے اور پنجاب کا پبلک سروس کمیشن ہے اور پنجاب کیلئے افسران بھرتی کئے جاتے ہیں لیکن اس میں پنجاب کا کوئی افسر اس وقت ممبر نہیں ۔

پی ایم ایس افسران کا یہ مطالبہ بھی انتہائی جائز ہے کہ پنجاب سے ڈیپوٹیشن میں تعینات تمام نان کیڈر افسران کو واپس اسلام آباد بھیجا جائے تاکہ پی ایم ایس افسران کو ان کی جگہ پر تعینات کیا جا سکے۔ اور پی ایم ایس افسران کی اگلے گریڈ میں ترقی کا عمل بھی تیز تر ہو سکے۔

اس وقت بیسیوں نان کیڈر افسران کیڈر اسامیوں پر تعینات ہیں یہ پوسٹل سروس، ریلوے سروس، آڈٹ اینڈ اکاونٹ گروپ، او ایم جی اور دیگر وفاقی سروس کے افسران ہیں، جو پنجاب میں ڈیپوٹیشن پر تعینات ہیں اور کئی کئی سالوں سے پنجاب میں براجمان ہیں۔ پی ایم ایس افسران کو جی او آر ون میں ڈی ایم جی افسران کے برابر گھر ملنا چاہئے جو کہ نہیں مل پا رہے ہیں۔ یہ امتیازی سلوک ختم کیا جائے۔

سیکرٹری، کمشنر اور ڈی سی کی تعیناتی میں پی ایم ایس افسران کو کوٹھے کے مطابق تعینات کیا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ ہونا چاہئے کہ فوری طور پر چیف سیکرٹری اور وزیر اعلی پی ایم ایس افسران کو ملنے کا وقت دیں اور ان کی بات سنیں اور ان کے تمام جائز مطالبات منظور کریں۔ جب تک چیف سیکرٹری اور وزیر اعلی پی ایم ایس افسران کو سامنے نہیں بٹھائیں گے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا اور احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

پی ایم ایس ایسوسی ایشن کے کئی مطالبات انتہائی جائز ہیں جنہیں منظور ہونا چاہئے ۔ اضلاع میں ڈی سی کی تعیناتی میں پی ایم ایس افسران کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور ڈی ایم جی افسران کو چن چن کر ڈی سی لگایا جاتا ہے گریڈ انیس تک پہنچنے تک تمام ڈی ایم جی افسران ایک یا دو اضلاع کے ڈی سی رہ چکے ہوتے ہیں لیکن پی ایم ایس افسران گریڈ بیس تک بھی چلے جاتے ہیں لیکن وہ ڈی سی نہیں لگ پاتے ہیں۔

حتی کہ حکومت نے ٹیکنیکل محکموں کے سیکرٹری بھی ڈی ایم جی افسران کو لگا رکھا ہے ،جن میں محکمہ آبپاشی، محکمہ سی اینڈ ڈبلیو اور محکمہ ہاوسنگ انجینئرنگ کے محکمے ہیں لیکن ان محکموں کا سیکرٹری کسی انجینئر کو ہونا چاہئے لیکن وہاں پر بھی ڈی ایم جی افسران سیکرٹری ہیں۔

محکمہ ہائر ایجوکیشن اور محکمہ سکولز ایجوکیشن ، خاص طور پر ایجوکیشن سیکٹر کے محکمے ہیں، لیکن وہاں پر بھی سیکرٹری ڈی ایم جی افسر ہیں ،صرف محکمہ قانون میں سیکرٹری ایک ریٹائرڈ سیشن جج کو لگا یا گیا ہے۔ محکمہ ہیلتھ کے دونوں محکموں کا سیکرٹری کسی ڈاکٹر کو لگانے کی بجائے ڈی ایم جی افسرسیکرٹری لگائے گئے ہیں۔

اس طرح حکومت ڈی ایم جی افسران کو تو مسلسل نواز رہی ہے، لیکن پی ایم ایس افسران کو ان تمام حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ صرف چار یا پانچ محکموں کے سیکرٹری پی ایم ایس افسران ہیں، وہ محکمے بھی کھڈے لائن کے محکمے سمجھے جاتے ہیں۔ تمام اچھے اور بہترین محکمے، جن میں محکمہ خزانہ، محکمہ بلدیات، محکمہ پرائمری ہیلتھ، محکمہ سپیشلائزڈ ہیلتھ، محکمہ سروسز، محکمہ ہائر ایجوکیشن ، محکمہ سکولز ایجوکیشن، محکمہ لائیو سٹاک کے سیکرٹری ڈی ایم جی افسران تعینات ہیں۔

جبکہ سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو بھی ڈی ایم جی افسر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پی ایم ایس افسران اور ڈی ایم جی افسران کے ساتھ برابر کا سلوک کیا جائے اور فوری طور پر چیف سیکرٹری اور وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو پی ایم ایس ایسوسی ایشن کے ساتھ ایک اجلا س کرنا چاہئے تاکہ مل بیٹھ کر ہی ایشوز کو حل کیا جا سکتا ہے۔

پی ایم ایس افسران کے حالیہ احتجاج کے باعث بیوروکریسی میں یہ سوچ فروغ پا رہی ہے کہ بیوروکریسی امتیازی سلوک کا شکار ہے، اس امتیازی سلوک کے باعث افسران دل جمعی سے کام نہیں کرپاتے۔ حکومت کو سنجیدگی سے پی ایم ایس افسران کے مطالبات سننے اور انہیں حل کرنا ہوگا تاکہ بیوروکریسی بہترانداز میں پرفارم کرسکے اور ملک کو آوٹ پٹ مل سکے، اس سے حکومت کی گڈگورننس میں بھی اضافہ ہوگا۔ 

مزیدخبریں