حافظ شہباز علی: پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیا نے کہا ہے کہ طویل عرصے بعد فکسنگ کے الزامات کو دوبارہ اچھالنا افسوس ناک ہے ،لوگوں کی اکثریت نے جسٹس قیوم کمیشن کی رپورٹ کو سمجھاہی نہیں ہے.
پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ توقیر ضیا نے ویڈیو لنک کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 20 سال پرانے فکسنگ کیس کو دوبارہ اچھالنا ملک اور ملکی کرکٹ کی بدنامی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، سابق چیئرمین نے کہا کہ جسٹس قیوم رپورٹ میرے چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے سے قبل حکومت کے پاس جاچکی تھی ،مئی2000 یہ رپورٹ حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی اور ہم نے اسے پبلک کردیا.
جنرل توقیر ضیا نے کہا کہ جسٹس قیوم رپورٹ کو کسی نےدرست طریقے سے پڑھا ہی نہیں ، سلیم ملک فرسٹریشن میں یہ سب کچھ کررہے ہیں انہیں جاب نہیں چاہئے تو اکیڈمی بنانے کی اجازت دی جائے.
سابق چیئرمین پی سی بی توقیر ضیا کا کہنا تھا کہ جسٹس قیوم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مشتاق احمد کے حوالے سے الگ سے ایک رپورٹ دی جائے گی مگر 20 سال بعد بھی وہ رپورٹ نہیں آئی . وسیم اکرم کے اور مشتاق احمد کے علاوہ کسی کو نوکری دینےسےمنع نہیں کیا . رپورٹ میں وقار یونس، انضمام الحق،سعید انور اور اکرم رضاکو صرف ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا اس کے علاوہ ان کے لیے کچھ نہںں لکھا گیا.
سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ کا کہنا تھا کہ سب کہتے ہیں کہ پاکستان بنگلہ دیش سے ہار نہیں سکتا مگر کوئی ثبوت نہیں دیتا، حالیہ اسکینڈلز میں اگر نیشنل کرائم ایجنسی رپورٹ نہ کرتی شرجیل وغیرہ پکڑے نہ جاتے، سابق چئیرمین توقیر ضیا نے سابق کرکٹرز سے کہا کہ فکسنگ کی باتیں چھوڑکر کرکٹ کی بات کریں یا پھر ٹھوس شواہد سامنے لائیں .