بنوں میں فوجی تنصیبات پر دہشتگردوں کے حملہ میں 5 سیکورٹی اہلکاروں سمیت 20 افراد جاں بحق اور چالیس کے قریب زخمی ہوئے، سیکورٹی ذرائع کے مطابق 15حملہ آوروں نے 3600 کلوگرام دھماکا خیز مواد سے بھری دوگاڑیاں کمپاؤنڈ سے ٹکرا کر دیوار منہدم کرنے کے بعد کینٹ میں داخل ہوکر فورسز کے خلاف مزاحمت شروع کر دی، جسے کند بنانے کی خاطر قریبی ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ضرار فورس طلب کرنا پڑی ، جس نے رات کی تاریکی میں گھنٹوں کی مساعی کے بعد تمام دہشتگردوں کو ہلاک کرکے علاقہ کلیئر کرا لیا ۔ یہ ملک میں رمضان شروع ہونے کے بعد سے تیسرا بڑا حملہ تھا ۔
گزشتہ تین سالوں میں افغان سرزمین پہ موجود مسلح تنظیموں کے ذریعے دہشتگردی کو بتدریج پاکستان کے طول و ارض میں منتقل گیا ، سال 2024 ، دہائی کا سب سے مہلک سال تھا ، جس میں نہ صرف سینکڑوں لوگ دہشتگردی کا شکار بنے بلکہ دفاعی اداروں اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہوئی بالخصوص سیکورٹی فورسیز اور سول اداروں کے مابین باہمی اعتماد کا فقدان قومی سلامتی کے لئے سنجیدہ خطرہ بن کر ابھرا ۔ چنانچہ سیکیورٹی فورسز جب تک پھر سے عوامی اعتماد کی بحالی اور سول اداروں کے ساتھ موثر کوارڈینشن قائم کرنے کی خاطر دو قدم پیچھے نہیں ہٹتی ، اُس وقت تک دہشتگردی و انتہا پسندی کا تدارک ممکن نہیں ہو گا ۔ حیرت انگیز طور پر ہماری ریاست نے متذکرہ معروضی عوامل سے قطع نظر کرتے ہوئے '' متشدد انتہا پسندی'' سے نمٹنے کے لئے پھر جس نئی پالیسی کی نقاب کشائی کی ، اس میں عسکری حکمت عملی کے علاوہ سکولوں کے نصاب میں تبدیلی ، مذہب اور سوشل میڈیا کی رسائی سمیت آلات کے غیر متوقع پیکج کے استعمال کو سکیورٹی فورسز کے تابع رکھا ، چنانچہ بہت سے تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ منصوبہ بھی بہت زیادہ آرزومندانہ ، تفصیلات کے لحاظ سے نازک اور فوجی طاقت کو بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے ہم آہنگ بنایا گیا ، اس لئے فوج کی مجموعی اجارہ داری اِس پر عمل درآمد کی خاطر سول اداروں کی شمولیت سمیت وسیع عوامی حمایت کا حصول دشوار بنا سکتی ہے ۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ متشدد انتہا پسندی کی روک تھام کی '' این پی وی ای'' پالیسی بھی '' نئی بوتل میں پرانی شراب '' کے مترادف ہے ۔ تازہ ترین پالیسی ، جو گزشتہ ہفتے عوامی آگاہی کے لیے پیش کی گئی، ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ، جب خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بڑھتی دہشتگردی کے ہمراہ دونوں صوبوں کی رائے عامہ بھی نہایت تیزی کے ساتھ ریاستی بیانیہ کے خلاف مزاحمت پہ کمربستہ ہے ۔ ملک میں زیادہ تر حملے اُس ٹی ٹی پی نے کئے ، جو نظریاتی طور پر افغان طالبان سے منسلک ہے ۔ ٹی ٹی پی 2007 میں اپنے ظہور کے بعد سے پاکستان کے خلاف مسلح بغاوت پہ آمادہ ہے ۔ ٹی ٹی پی کو نیوٹرلآئز کرنے کی خاطر ریاست نے ماضی میں درجن بھر فوجی آپریشنز کے علاوہ اسی طرح کے کئی انسداد انتہا پسندی فریم ورک متعارف کرائے ، ہاں مگر تازہ میکنزم میں اہم تبدیلی یہ ہے کہ نئی پالیسی'' متشدد انتہا پسندی'' کو روکنے کے لئے پورے معاشرے کی تطہیر کی حکمت عملی کو فروغ دیتی ہے ، جس میں غیر فعال ذرائع کا استعمال زیادہ ہو گا ۔ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے ہمیں سکھایا کہ صرف فوجی آپریشن پائیدار حکمت عملی نہیں کیونکہ حرکی کامیابیاں اکثر عارضی ہوتی ہیں، وہ دہشت گردی کے ڈرائیوروں اور بنیادی وجوہات کو ختم نہیں کر سکتیں یعنی دہشت گردی کے اسباب اور محرکات کو کبھی موثر طریقے سے دور نہیں کیا گیا ، یہی وجہ ہے کہ یہاں قلیل المدتی فوائد کے باوجود دہشت گردی بار بار سر اٹھاتی رہی ۔
واقفان حال کے مطابق ''متشدد انتہا پسند'' پالیسی پر کام 2019 میں شروع ہوا لیکن سیاسی عدم استحکام اسے 2024 تک مکمل کرنے کی راہ میں حائل ہو گیا ، اب دسمبر میں اِس پالیسی کی منظوری وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ سے لی گئی ۔ NPVE پالیسی کلیدی کارکردگی کے اشارئے کی سیریز کے ساتھ ، مختصر ، درمیانی اور طویل المدتی تاثیر کی پیمائش کرنے کے لئے ، پانچ پالیسی ایکشن پوائنٹ پہ منحصر ہو گی ۔ پہلی '' نظرثانی '' دوسری '' پہنچیں '' تیسری '' کم کریں '' چوتھی ''مضبوط کریں '' اور پانچویں '' دوبارہ مربوط '' ہوں ۔ پہلا پالیسی ایکشن ، نظرثانی ، یعنی نصاب میں اصلاحات ، اساتذہ اور مذہبی رہنماوں کی استعداد کار میں اضافہ پر توجہ مرکوز کرنا ۔ دوسری ''پہنچیں'' کا مقصد میڈیا اور سوشل میڈیا پر سخت گیر بیانیے کا مقابلہ کرتے ہوئے قومی وحدت کی ازسرنو تشکیل کے تصورکو فروغ دینا کیونکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے عہد میں ، سوشل میڈیا ، انتہا پسندانہ مواد کی وسیع اشاعت اور غلط معلومات کے ذریعے شدّت پسندی کی ترویج کا بڑا وسیلہ بن چکا ہے ، جسے ریگولیٹ کرنے کے لئے قانونی تشدد کی بجائے متبادل مواصلاتی حکمت عملی کو بروئے کار لایا جائے گا بلاشبہ رواداری ، باہمی قبولیت اور سماجی شمولیت کی ثقافت کو فروغ دینے کے لئے معاشرتی بہاو کو مربوط بنانے والے ٹولز ، جیسے سینما گھروں ، ڈراموں ، سرکس ، کارنوال ، روایتی میلوں ٹھیلوں اور قدیم چنڈو خانوں کی بحالی ازبس ضروری ہے ، جہاں مختلف زبانوں ، رنگ و نسل اور متضاد مذہبی عقائد رکھنے والے لوگ بھی باہم ملکر دکھوں سے لبریز اِس فانی زندگی کو جینے کے قابل بنا لیتے ہیں ۔ تیسرے '' کم کریں '' امن کے اقدامات اور مسلح بغاوت میں خواتین کے کردار کو روکنے کے لئے گھریلو صنعت کے فروغ اور سماجی عوامل میں خواتین کی بھرپور شمولیت کو یقینی بنانا شامل ہے۔ چوتھے ''مضبوطی'' فنون ، ثقافت اور سائنسی اختراعات کے ذریعے تعمیری رجحانات کا تشکیل بھی امن اور رواداری کو مربوط بنانے کا موثر ڈریعہ بن سکتی ہے ۔
حتمی پالیسی ایکشن یعنی ''دوبارہ انٹیگریٹ'' میں سابق جنگجوؤں اور تنازعات سے متاثرہ طبقات کے لئے ڈی ریڈیکلائزیشن ، بحالی اور مصالحتی پروگرام جیسے پیچیدہ اقدامات متعارف کرائے جائیں گے ۔ کسی ریاست کی اپنے شہریوں تئیں بنیادی ذمہ داری انہیں جان و مال اور عزت کے تحفظ کے علاوہ معاشرے کو ریگولیٹ کرنا ہوتی ہے۔ جن میں ایسے غیر متحرک اقدامات شامل ہوں، جو فطری طور پہ ہمدردانہ نقطہ نظر کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ اکثر اوقات ریاستی طاقت کا وسیع استعمال ضمنی نقصانات کا سبب بنکر غیر معمولی فتنہ انگیزی کا وسیلہ بنتا ہے ، جیسے پاکستان نے دو دہائیوں سے مسلح گروہوں سے نمٹنے کے لیے متعدد فوجی آپریشنز کا سہارا لیا جو کاونٹر پروڈیکٹیو ثابت ہوئے ۔ حیرت انگیز طور پر پہلے ٹی ٹی پی کو معاشرے میں اثر و رسوخ بڑھانے اور قدم جمانے کی مہلت دی گئی ، دہشتگردوں کے خاندانوں اور سہولتکاروں سے نمٹنے کی بجائے ایسی فوجی مہمات شروع کی گئیں جن میں مقامی آبادیوں کو نقل مکانی کی کلفتوں سے دوچار ہونا پڑا ، قبائلی علاقوں میں گھروں کا انہدام ، پسماندہ علاقوں میں کھیل کے میدانوں ، کالجز اور سکولز کی عمارتوں میں فورسیز کی جبری قیام گاہیں بنا کر تعلیمی اور تفریحی عمل میں رکاوٹیں ڈالی گئیں ، سیکیورٹی کے نام پہ شاہراہوں کی بندش اور نقل و حمل کی بنیادی آزادیاں محدود کرنے کے علاوہ روایتی میلوں ٹھیلوں اور خانقاہی نظام پہ مبنی تہذیبی عوامل کی بیخ کنی کر ڈالی ، دہشتگردوں کے ہاتھوں معاشرے کے نمایاں افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجہ میں سماجی عمل کی رخ گردانی نے سوسائٹی کے فطری نظم و ضبط کو پراگندہ کرکے ریاستی وجود کو کمزور کر دیا ، بلاشبہ ریاست معاشرے کو متشکل کرنے والے طبقات کے مابین مفاہمت کے عمل کو ریگولیٹ کرنے میں اپنے وجود کا جواز پیدا کرتی ہے ، آج ہمارا اصل مخمصہ یہی ہے کہ اب داخلی و خارجی عناصر ہمیں مجموعی سماجی نظم و ضبط کے تال میل میں ریاستی ڈھانچے کو دوبارہ مربوط بنانے کی مہلت نہیں دیں گے ۔