آج کی خواتین کتنی مضبوط ...کتنی محفوظ

از:شکیلہ جلیل

8 Mar, 2025 | 02:22 PM

 قوانین کا جمعہ بازار لیکن عمل کون کرائے گا؟،پاکستان میں صنفی بنیاد پر تشدد میں تشویشناک اضافہ لیکن سزا کی شرح انتہائی مایوس کن ہے،ایس ایس ڈی او کی سالانہ رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں 32 ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے ۔
ریاست موجودہ قوانین کے نصف پر ہی عمل کرا سکے تو خواتین ملک کی کایا پلٹ سکتی ہیں،حکومتوں میں شعور بڑھا ہے کہ اپنی 50 فیصد آبادی کو ساتھ چلائے بغیرترقی وخوشحالی کی منزل آسان نہیں،خواتین کا عالمی دن صنفی مساوات کے فروغ کی اسٹریٹجک کوششوں کو تیز کرنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔

 آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ،یہ دن ہم خواتین کو یہ یاد دلاتا ہے کہ ہم بھی بطور انسان دوسرے انسانوں سے برابری کا حق رکھتی ہیں ،یہ دن اس عزم کیساتھ منایا جا تا ہے کہ دنیا میں ہم بغیر کسی تفریق کے اپنی زندگی گزار سکتی ہیں ،اگر اسلام کی رو سے دیکھا جا ئے تو 14سو سال قبل ہمارے مذہب نے ہمیں تمام حقوق دئیے اور نبی پاکؐ نے ان حقوق کے بارے میں بتا یا بھی ،اسلام کے نقطہ نظر سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے جس قدر جامع اور واضح احکامات موجود ہیں وہ کسی اور مذہب میں نہیں لیکن اس کے باوجود معاشرتی زندگی میں خواتین سمیت تمام افراد کے حقوق کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے جس پر عمل درآمد نہ ہونے سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کا تحفظ ایک بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکاہے۔

 دنیا بھر میں خواتین اپنے حقوق اور برابری کے لئے مختلف تحریکیں چلا رہی ہیں ہر ملک اور معاشرے کے حساب سے خواتین کو مختلف قسم کے مسائل کا سامنا ہے اور وہ اس سے نکلنے کی جدوجہد جا ری رکھے ہو ئے ہیں ، خواتین کو جو مسئلہ پوری دنیا میں درپیش ہے وہ ان کے ساتھ امیتازی سلوک ہے ، جس میں گھریلو تشدد اور کام کی جگہ اور پبلک جگہوں پر ہراساں کیا جا نا بھی شامل ہے ،دنیا کا کوئی علاقہ ہو ، ترقی یافتہ معاشرہ ہویا پسماندہ ممالک ہوں اس طرح کے مسائل کی بازگشت ہر جگہ  سنی جا سکتی ہے ۔اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو معاشرے میں خواتین کے حوالے سے بہت مثبت تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے ،خواتین کے حقوق پر نہ صرف بات ہو رہی ہے بلکہ اس کے حوالے سے کئی قوانین بھی بن چکے ہیں اور کچھ اسمبلی کے ایوانوں میں زیر بحث ہیں ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ کافی ہیں ۔ نہیں ! یہ شروعات ہے اور ابھی ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہے ۔جہاں تک حکومتوں کاتعلق ہے تقریباً سبھی حکومتوں نے خواتین کو حقوق وانصاف دلانے کیلئے بڑھ چڑھ کربیان بازی کامظاہرہ کیا ہے ،ہر دور حکومت میں خواتین کے نام پر سیاست کی گئی ۔ ماضی میں خواتین کے لئے ویمن پولیس سٹیشن ،فرسٹ ویمن بینک ،ویمن کرائسز سنٹر،ویمن ڈویلپمنٹ پراجیکٹس سے لیکربے نظیرانکم سپورٹ پروگرام جیسے اقدامات یقینا قابل ستائش ہیں ،مگر کیا جو قوانین بنائے جا تے ہیں جو اقدامات اٹھائے جا تے ہیں ان کا اطلاق بھی ہو تا ہے؟ کیا پاکستان کے ہر کونے میں رہنے والی خواتین ان سے استفادہ کر سکتی ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب دینا اب وقت کی ضرورت ہے ۔
ہمارے معاشرے میں آج بھی اطاعت کرنا عورت کا فرض اور اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنا بغاوت اور جرم سمجھا جاتا ہے جس کی سزا ہاتھ پائوں توڑ دینے اور چہرہ بگاڑنے سے لے کر موت تک کچھ بھی ہو سکتا ہے یہی وہ سوچ ہے جس کی بناء پر ملک کے مختلف علاقوں میں بدکردار مرد کاروں کو قتل سے بچانے کے لئے اس کے خاندان کی کسی لڑکی کو کاری کے خاندان میں بیاہنا  قاتل کو معافی دلانے کے لئے اس کے خاندان کی تمام عورتوں کا ننگے سر  ننگے پائوں مقتول کے گھر جا کر معافی مانگنا،  دشمنی ختم کرنے کے لئے کمسن لڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے شادی اور انہیں ونی بنانا  اور زیادتی کا بدلہ لینے کے لئے ملزم کے خاندان کی عورتوں کے ساتھ شرمناک سلوک کرنا جیسے واقعات عام ہوتے ہیں اور ایسا کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
ظلم کی تمام شکلیں انسانیت کے خلاف جرم ہے۔جس کا کوئی اخلاقی مذہبی یا قانونی جواز نہیں ہے ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے جہاں کے مرد عورت کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور اس پر ہر قسم کا جبر کرنا اپنا فرض۔یہی وجہ ہے کہ جہاں خواتین کے حقوق کا شعور بڑھا ہے وہیں اس کے خلاف ہونے والی پرتشدد کاروائیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سسٹٰین ایبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او ) کی رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں ملک بھر میں صنفی بنیاد پر تشدد کے 32,617 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں 5339 جنسی زیادتی، 24439 اغوا ، 2238 گھریلو تشدد اور 547 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار کے باوجود، سزاؤں کی شرح تمام صوبوں میں نہایت کم ہے۔ ملک بھر میں جنسی زیادتی اور غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں سزا کی شرح صرف 0.5% ہے، جبکہ اغواء کے مقدمات میں یہ شرح محض 0.1% تک محدود ہے۔ گھریلو تشدد کے مقدمات میں سزا کی شرح نسبتاً زیادہ یعنی 1.3% ہے تاہم یہ بھی انصاف کی عدم فراہمی کو ظاہر کرتی ہے۔
پنجاب میں صنفی بنیاد پر تشدد کے سب سے زیادہ 26,753 کیسز رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 225 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رپورٹ ہوئے، مگر صرف 2 افراد کو سزا دی گئی۔ 4,641 ریپ کیسز درج ہوئے جن میں سزا کی شرح محض 0.4% رہی۔ 20,720 اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، لیکن صرف 16 کیسز میں سزائیں سنائی گئیں۔ گھریلو تشدد کے 1,167 کیسز میں صرف 3 مجرموں کو سزا دی گئی۔
خیبر پختونخوا میں 3,397 صنفی تشدد کے کیسز رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 134 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آئے، مگر صرف 2 سزائیں سنائی گئیں۔ 258 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، مگر صرف 1 مجرم کو سزا دی گئی۔ 943 اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں صرف 1 مقدمے میں سزا سنائی گئی۔ گھریلو تشدد کے 446 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔
سندھ میں 1,781 صنفی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 134 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات رونما ہوئے لیکن کسی بھی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ 243 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، مگر کوئی سزا نہیں ہوئی۔ 2,645 اغوا کے واقعات سامنے آئے، لیکن تمام کیسز میں ملزمان سزا سے بچ نکلے۔ گھریلو تشدد کے 375 کیسز رپورٹ ہوئے لیکن کسی بھی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔
بلوچستان میں 398 صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ صوبے میں 32 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات پیش آئے، لیکن صرف 1 مجرم کو سزا ہوئی۔ جنسی زیادتی کے 21 واقعات رپورٹ ہوئے مگر کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ 185 اغواء کے واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سے کسی کو بھی سزا نہیں سنائی گئی۔ گھریلو تشدد کے 160 واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں 25 مجرموں کو سزا دی گئی ، یہ گھریلو تشدد کے کیسز میں کسی بھی صوبے میں سب سے زیادہ سزا کی شرح ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد  میں 220 صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ 22 غیرت کے نام پر قتل کے واقعات سامنے آئے، مگر کسی بھی ملزم کو سزا نہیں دی گئی۔ 176 ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں صرف 7 مجرموں کو سزا دی گئی ، لیکن کسی میں بھی ملزم کو سزا نہیں سنائی گئی۔ گھریلو تشدد کے 22 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں کسی بھی مقدمے میں سزا نہیں سنائی گئی۔  ایس ایس ڈی او نے رپورٹ میں صنفی بنیاد پر تشدد کے بڑھتے ہوئے کیسز اور مجرموں کے خلاف کم سزائوں کی شرح کو اجاگر کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
یہاں پر قابل غور بات یہ ہے کہ خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد کو ختم کرنے کے لئے صرف قوانین بنا دینا ہی کافی نہیں  بلکہ ان قوانین کا ہر طرح کے نقائص سے پاک ہونا  موجودہ قوانین جن میں کسی بھی قسم کی ترامیم کی گنجائش موجود ہے انہیں بہتر بنانا اور ان پر باقاعدہ عمل درآمد کو یقینی بنانا ضروری ہے ایسے بہت سے قوانین ہیں جو مظلوم عورت کی داد رسی کی بجائے اس پر تشدد کرنے والے مردوں کے حق میں زیادہ ہیں۔

مزیدخبریں