(قیصر کھوکھر) لاہور شہر کا حسن آج کل ماند پڑ گیا ہے اور لاہور شہر جو کبھی باغوں، سکولوں، کالجوں اور خوبصورتی کا شہر ہوتا تھا اب اس کے حسن پر گہن لگ گیا ہے اور سڑکوں پر ٹریفک کا رش، سڑکوں کا بلاک ہونا اور پی ایس ایل کے نام پر ٹریفک کو روک دینا اور شہر کی مشہور تجارتی سڑک فیروز پور روڈ کو کئی کئی گھنٹے تک کے لئے مکمل طور پر بند رکھنا یہ کہاں کا انصاف ہے۔
لاہور شہر کی سڑکیں بند رکھنے سے مال روڈ، مین بلیوارڈ گلبرگ، جیل روڈ، فیروز پور روڈ، وحدت روڈ، گارڈن ٹاﺅن، بھیکے وال موڑ، شیخ زایدہسپتال روڈ، کیمپس پل ، اکبر چوک، پیکو روڈ، کینال روڈ پر ٹریفک کئی کئی گھنٹے پھنس جاتی ہے۔ سکولوں اور کالجوں کے بچوں کو گھر پہنچنا مشکل تر ہو جاتا ہے اور مزدور اور دیہاڑی دار طبقہ کو روزانہ کی اجرت کمانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس سے سارا نظام ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ مال روڈ، ایوان وزیراعلیٰ، پنجاب اسمبلی، چیئرنگ کراس اور پنجاب سول سیکرٹریٹ کے باہر پہلے ہی سڑکیں دھرنوں کی وجہ سے بند ہوتی ہیں۔
ان بڑی سڑکوں اور اہم مقامات کے باہر ایپکا، کلرک، ٹیچرز، انجینئرز، سمیت تمام یونینز آئے روز مظاہرے کرتی ہیں اور ان مظاہروں کے دوران سڑکیں بلاک ہو جاتی ہیں اور ٹریفک کئی کئی گھنٹے رک جاتی ہے اور لاہور شہر دھرنوں کے شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کی بحالی بلا شبہ ایک خوش آئند قدم ہے لیکن اس فیصلے میں شہریوں کو اذیت سے تو نہیں گزارنا چاہئے اور شہریوں کے لئے یہ خوشی کا موقع ہونا چاہئے تاکہ لوگ خوشی خوشی اس فیسٹیول سے مستفید ہو سکیں اور پی ایس ایل کا کرکٹ میلہ لاہور کے لئے ایک قدرتی خوشی کا ایک ایونٹ بنے لیکن ہوایسے رہا ہے کہ اس موقع پر لوگ تنگ آ چکے ہیں اور جیسے ہی شام کے چار بجتے ہیں سڑکوں پر ٹریفک کا رش اور دباﺅ انتہائی بڑھ جاتا ہے اور کئی سڑکیں بغیر کسی وجہ کے بند کردی جاتی ہیں۔ اگر کرفیو لگا کر ہی کرکٹ میچ کرانا ہے تو یہ کام تو قبائلی علاقوں اور افغانستان میں بھی کیا جا سکتا ہے۔
کرکٹ اور دیگر کھیل عوام کے لئے شادمانی اور راحت کا باعث ہونا چاہئیں، ویسے بھی کرکٹ کا ہر کوئی شوقین نہیں ہوتا، کوئی کبڈی، کوئی فٹبال، والی بال یا ٹینس کا شوقین ہوتا ہے، بہت کم آبادی ہوگی جو صرف اور صرف کرکٹ کی شوقین ہوگی۔ اور ایک کرکٹ کے نام پر لاہور شہر کی ایک کروڑ بیس لاکھ آبادی کو یرغمال بنانا اور ساری سڑکیں بند کر دینا کہاں کا انصاف ہے ۔
حکومت وقت کو اس پر سوچنا ہوگا اور جب کرکٹ ٹیم جس سڑک سے گزرے اس سڑک کو پہلے پانچ منٹ کےلئے بند کردیا جائے اور جیسے ہی کرکٹ ٹیم گزر جائے اس سڑک کو ٹریفک کے لئے کھول دیا جائے اور کرکٹ اسٹیڈیم کو مکمل طور پر سکیورٹی حصار میں لے لیا جائے اور اس طرح کرکٹ اسٹیڈیم کے اندر اور باﺅنڈری وال کو سکیورٹی حصار میں رکھا جائے باقی شہر کو اوپن کر دیا جائے اور ساتھ ساتھ تمام سڑکوں اور بظاہر اور غائبانہ طور پر پولیس اور حساس اداروں کو الرٹ رکھا جائے اور اسٹیڈیم کے آس پاس کی سڑکوں پر سکیورٹی الرٹ رکھی جائے اور شہر کے داخلی اور خارجی راستوں پر ناکہ بندی سخت کی جائے اور چیکنگ کا سخت سسٹم رکھا جائے اور اسٹیڈیم کے آس پاس مشکوک افراد پر مکمل نظر رکھی جائے اور اس طرح شہریوں کو تکلیف بھی نہ ہو اور سڑکیں بھی بند نہ کی جائیں اور پر امن طریقہ سے کرکٹ میچ بھی کرایا جاسکے۔
ویسے بھی لاہور شہر میں سکیورٹی کے حالات قدرے بہتر ہیں اور کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ بھی نہیں ہوا، چھوٹا موٹا کرائم ضرور ہے لیکن یہ کرائم کرکٹ پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ حکومت کی جانب سے فیروز پور روڈ اور دیگر سڑکوں کو کرکٹ کے نام پر بند کرناعوام کے ساتھ زیادتی سے کم نہیں۔ ویسے بھی عام لوگ تو کرکٹ کو ٹی وی پر ہی دیکھتے ہیں اور کرکٹ کے کم شائقین قذافی اسٹیڈیم کرکٹ میچ دیکھنے آتے ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر ایک عام شہری کو تنگ نہیں کرنا چاہئے۔
لاہور کے عوام پُرامن اور محب وطن پاکستانی ہیں۔ سکیورٹی کے نام پر شہریوں، خواتین اور طلباءکو تنگ کرنے کا رجحان ختم اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا چاہئے اور عام شہریوں کے ساتھ مزدور طبقہ اپنی دیہاڑی پر نہیں جا سکتا اور کاروباری اور تاجر حضرات اس سکیورٹی سے سخت متاثر ہوتے ہیں اور ساری مارکیٹیں بند ہو جاتی ہیں۔ جس سے کاروبار زندگی بند ہو کر رہ جاتا ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام سڑکوں پر آ جائیں اور حکومت کےلئے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے ۔ اس لئے حکومت کو وہ وقت آنے سے پہلے ہی لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پلاننگ کرنا ہوگی۔