(علی رضا) عورت مارچ گزشتہ کئی روز سے زبان زد عام ہے, کچھ لوگ اس کے حق میں جبکہ اکثریت اس کے مخالف اپنی رائے رکھتے ہیں۔
مارچ کا مہینہ کیا آیا ,عورت مارچ,عورت کی آزادی، عورت اور مرد کے درمیان جیسے ایک لڑائی سی چھڑ گئی ہو۔ٹی وی چینلز پر پرائم ٹائم میں اسی موضوع کو زیر بحث اور ہر خاص وعام کو اسی پر بات کرتے دیکھا جارہا ہے۔ مختلف حلقے اس حوالے سے مختلف آرا رکھتے ہیں۔بیشتر خواتین بھی عورتوں کی جانب سے مخصوص نعروں کے ساتھ اس متوقع واک کی مخالف ہی نظرآئیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں ہر قانون قرآن وسنت کے تابع ہے وہاں پر مزہبی سکالرز اس ایشو پر اپنی خاص رائے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ مسئلہ خواتیں کا اور مارچ بھی خواتین کا لیکن مرد حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں جہاں دیکھیں مختلف طبقہ فکر کے مرد حضرات اپنی اپنی فلسفیانہ اور دانشورانہ رائے کا دوٹوک اظہار کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
نجی ٹی وی چینل پر معروف رائٹر خلیل الرحمان قمر اور عورتوں کے حوالے سے سرگرداں خاتوں کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کے بعد سے اب تک جہاں دیکھو یہ ایشو ہاٹ کیک بنا نظرآرہا ہے۔
ملکی سطح پر مخصوص نعروں کے ساتھ ایک خاص سوچ کی عکاسی کرتا عورت مارچ جس طرح زیر بحث ہے۔ اگراسی طرح ہم عورتوں کے حقوق اور ان کے معاشرتی مسائل کو صحیح معنوں میں زیر بحث لے آئیں تو یقینا بنت حوا کے لیے زندگی کی مشکلات کو آسانی میں بدلا جاسکتا ہے۔