( بسام سلطان ) دنیا میں ہر ایک لاکھ میں سے 30 افراد برین ٹیومر کا شکار ہوتے ہیں، 8 جون دنیا بھرمیں برین ٹیومر کےعالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، اس کی علامات اور علاج کی تشخیص کے لیے کیا سہولیات موجود ہیں۔
برین ٹیومر کی سو سے زائد مختلف اقسام ہیں۔ دنیا میں ہر 1 لاکھ میں سے 30 افراد برین ٹیومر کا شکار ہوتے ہیں، مرض سے آگاہی کے لیے 8 جون کو برین ٹیومر کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
برین ٹیومر کی علامات
سر درد
سر درد کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اگر مسلسل سر درد رہے تو یہ برین ٹیومر کی نشانی ہو سکتی ہے لہذا فوری طور پر ٹیسٹ کروا جانیں چاہیئے۔
بے ہوشی کے دورے
اگر اچانک اور بغیر کسی وجہ کے غشی کے دورے پڑتے ہوں یا بے ہوشی جیسی حالت ہو جاتی ہو تو یہ بھی برین ٹیومر کی نشانی ہوسکتی ہے، ایسے میں فوری طور پر کسی اچھے نیورولوجسٹ سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔
چوںکہ خوشی اور غم کے جذبات کا کنٹرول بھی دماغ کے مخصوص حصوں میں ہوتا ہے اس لیے برین ٹیومر مریض میں ڈپریشن کی علامات پیدا کرنے کا سبب بھی ہوسکتا ہے۔
بولنے میں تکلیف کا سامنا
برین ٹیومر کے اثرات دماغ کے ان حصوں پر ہوجائیں جو قوت گویائی کے لیے مخصوص ہوں تو ایسے میں مریض کی قوت گویائی ختم ہو جاتی ہے، وہ الفاظ کی ادائیگی میں مشکل محسوس کرتا ہے اور زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔
قوت سماعت و بصارت میں کمی
بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اگر سننے یا دیکھنے میں دقت محسوس ہو یا کلی طور پر سماعت و بصارت چلی جائے تو اس کی ایک وجہ برین ٹیومر بھی ہو سکتی ہے۔
ایسی صورت میں برین ٹیومر دماغ کے اس حصے کو نقصان پہنچاتا ہے جو سماعت اور بصارت کو کنٹرول کرتے ہیں اور ٹیومر کے باعث اپنا کردار ادا کرنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔
یہ علامات کسی اور مرض کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہیں لیکن بہتر ہے کہ ان علامتوں کے نمودار ہوتے ہی فوری طور پر اپنے معالج سے مشورہ کریں اور ضروری ٹیسٹ کروائیں.
تشخیصی سہولیات
چیف ایگزیکٹو پنز پروفیسر خالد محمود کا کہنا ہے کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں جدید تشخیصی سہولیات اور طریقہ علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں 22 کروڑ کی آبادی کے لیے صرف 350 نیورو سرجنز موجود ہیں۔
نیورو نیویگیشن کے ذریعے ٹیومر کا پتہ لگا کر انڈوسکوپی کے ذریعے کھوپڑی کو نقصان پہنچائے بغیرعلاج کیا جارہا ہے۔ آنکھ یا ناک کے راستہ انڈوسکوپی کی جاتی ہے۔
چیف ایگزیکٹو پنز نے بتایا کہ 60 فیصد سے زائد ٹیومر کا علاج سرجری کے ذریعے ممکن ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو آگاہی فراہم ہو تاکہ وہ بروقت ہسپتال کا رخ کریں۔