امانت گشکوری: ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے تفصیلی رائے جاری کر دی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 48 صفحات پر مشتمل "تفصیلی رائے" تحریر کی۔
پاکستان کے صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے طویل عرصہ پہلے فائل کئے گئے ریفرنس کی سماعت کے بعد عدالت نے مختصر رائے دے دی تھی، اب کئی ہفتے بعد سپریم کورٹ کی مکمل تحریری رائے میں کہا گیا ہے کہ شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھایا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جب کیس چلا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی، ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف جب کیس چلایا گیا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا،ملک اور عدالتیں اس وقت مارشل لا کی قید میں تھیں۔ آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے ججز کی عدالتیں عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں.
ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی انھوں نے کی جن کی ذمہ داری ان کا تحفظ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
مکمل رائے میں کہا گیا ہے کہ آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے ججز کی عدالتیں عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ آمر ضیا الحق کو ہوا۔ ذوالفقار بھٹو کو رہا کردیا جاتا تو وہ ضیا الحق کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے۔
سپریم کورٹ نے اپنے رائے میں کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف شواہد ہی موجود نہیں تھے۔ قتل کا الزام ایف ایس ایف نامی فورس کے ذریعے لگایا گیا تھا۔
ایف آئی اے نے بھٹو کیس کی فائل ملنے سے پہلے ہی تحقیقات کا آغاز کر دیا تھا۔ پولیس تفتیش مکمل کر چکی ہو تو ایف آئی اے کو فائل دوبارہ کھولنے کا اختیار نہیں۔ بھٹو کیس کی تفتیش دوبارہ کرنے کا کوئی عدالتی حکم موجود نہیں تھا۔
بھٹو کیس کا ہائیکورٹ نے خود ٹرائل کرکے قانون کی کئی شقوں کو غیر موثر کر دیا۔مکمل رائے میں مزید کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی انھوں نے کی جن کی ذمہ داری ان کا تحفظ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف شواہد ہی موجود نہیں تھے۔ قتل کا الزام ایف ایس ایف نامی فورس کے ذریعے لگایا گیا تھا۔ وقوعہ میں استعمال ہوئی گولی کا خول ایف ایس ایف کے ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں عدالتوں نے ذوالفقار بھٹو کی پارلیمنٹ میں تقاریر کو بھی اپنے فیصلوں میں جواز بنایا۔ پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر کو کسی ممبر کیخلاف عدالت میں استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ تحریری رائے میں اضافی نوٹ دیں گے۔