سٹی42: کراچی میں کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ کے ڈی ایس پی علی رضا کو شہید کئے جانے کے واقعہ کی تفتیش میں پولیس کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی جس کے بعد کاؤنٹر ٹیررزم ڈیپارٹمنٹ نے خود اس قتل کی تحقیقات کرے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اب تک پولیس نے اس ہائی پرفائل کرائم کی تفتیش کے نام پر صرف سامنے موجود شواہد ہی جمع کئے اور مفروضوں پر مبنی ایک کہنانی جوڑی جس سے ملزموں کے متعلق کوئی اشارہ تک نہیں ملا۔ کراچی میں ڈی ایس پی کا قتل، پولیس تفتیش کامنی سے دو چار۔
ڈی ایس پی علی رضا پر چلائی گئی 9ایم ایم بلٹس کے 11 خول فرانزک لیبارٹری بھیج دیئے گئے۔
پولیس کی تفتیش کے مطابق اس حملے میں جاں بحق ہونے والے گارڈ وقار نے 2 دن پہلے شکیل کارپوریشن پر ملازمت کی تھی۔ کالعدم گروپ نے ڈی ایس پی علی رضا کو شہید کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔اسی کالعدم گروہ نے سہراب گوٹھ پر پولیس اہلکار کو قتل کیا تھا۔ تفتیش کرنے والی ٹیم نے س کالعدم تنظیم کے نیٹ ورک کے خلاف کارروائی تیز کردی گئی ہے۔
ڈی ایس پی علی رضا جس گاڑی میں سوار تھے وہ بولیٹ پروف تھی۔ ممکنہ طور پر دہشتگردوں نے علی رضا کا گاڑی سے اترنے کا انتظار کیا۔
ایک حملہ آور ہیلمٹ دوسرا ماسک اوڑھے ہوئے تھا۔ ممکنہ طور پر دہشتگرد شہید ڈی ایس پی کی گاڑی کا تعاقب کرتے ہوئے آئے تھے۔
حملہ آوروں کے پیچھے پیچھے چلنے واے مزید مشتبہ موٹر سائیکل سواروں کی موجودگی کے شواہد بھی ملے۔
تفتیش کاوں کو ڈی ایس پی علی رضا پر حملہ کے وقت اندھیرے کے باعث ملزموں کی شناخت میں مشکلات کا سامنا ہو رہا ہے۔ 24 گھنٹے میں پولیس کو واردات سے متعلق کوئی اہم سراغ نہ ملا۔ پولیس کی تفتیش آگے نہ بڑھ سکی۔ دستیاب سی سی ٹی وی فوٹیج بھی بیکار نکلی۔ پولیس کو تین سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ ملی تھی۔
دو کیمروں کی فوٹیج میں کچھ نظر نہیں آیا،
اب پولیس حکام نے بتایا ہے کہ ڈی ایس پی سی ٹی ڈی کے قتل کی تفتیش سی ٹی ڈی خود کرے گی۔
قریبی ہوٹل پر لگی سی سی ٹی وی کی فوٹیج میں دو موٹرسائیکل سوار نظر آئے۔ ہوٹل پر لگے کیمرے اچھے میگا پکسل کے نہیں نکلے۔
تب بھی ہوٹل سے حاصل فوٹیج پر پولیس کا فارنزک ڈپارٹمنٹ کام کررہا ہے۔
پولیس تفتیش کے مطابق علی رضا کا شکیل کارپوریشن میں آنا جانا معمول کی بات تھی۔ڈی ایس پی علی رضا کا بچپن شکیل کارپوریشن میں ہی گزرا تھا۔شکیل کارپوریشن نامی فلیٹس میں علی رضا کے بچپن کے دوست رہتے ہیں۔علی رضا فلیٹس میں رہنے والے بعض غریب گھرانوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ قتل سے پہلے عل ضا کی آمدورفت کی ریکی کی گئی۔
ریکی کیلئے آنے والے مختلف ہوسکتے ہیں۔ اب پویس حکام کہہ رہےہیں کہ وہ علاقے سے نکلنے والے تمام راستوں پر لگے کیمروں سے فوٹیج حاصل کررہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پولیس 24 گھنٹے میں ا وقتل کی ایف آئی آر تک درج نہیں کر سکی۔پولیس کا کہنا ہے کہ ایس ایچ او سی ٹی ڈی یا علی رضا کے بہنوئی مقدمے میں مدعی بنیں گے۔کالعدم تنظیموں کے جیل میں موجود کارکنوں سے بھی تفتیش ہو رہی ہے۔