کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ میں نوجوانوں کا استحصال؛ ایک دکھی باپ کا کھلا خط

8 Jul, 2024 | 02:22 PM

سٹی42:  کرپٹو کرنسی کی ٹریڈنگ کے نام پر دنیا میں میں رنگ رنگ کے فراڈ اور سکینڈل سامنے آ رہے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی  کرپٹو کرنسی کی ٹرنڈنگ کے گرے ایریاز کے بارے میں عجیب عجیب کہانیاں سامنے آ رہی ہیں۔ ذمہ ار اداروں کے پاس یا تو ان کہانیوں کی تحقیق کرنے کی فرصت نہیں یا وہ کرپٹی کرنسی کے شعبہ کی ہر قیمت پر حوصلہ افزائی کرنے کی دھن میں جان بوجھ کر آنکھیں بند کئے رہتے ہیں۔ 

کراچی کے ایک شہری نے کرپٹو کرنسی ٹریڈنگ میں ایمبیشئیس نوجوانوں کے ساتھ نا انصافیوں اور مظالم کے ایک سلسلہ پر روشنی ڈالی ہے اور ملک کے اربابِ حل و عقد سے گزارش کی ہے کہ نوجوانوں کو اذیت ناک صورتحال سے بچانے کے لئے خدارا  اس صورتحال کی چھان بین کریں اور نوجوانوں کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کریں۔

اپنے ایک کھلے خط میں کراچی کے شہری نے  چیف آف آرمی اسٹاف،وزیراعظم شہباز شریف، وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ، گورنر سندھ کامران ٹیسوری، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور باعزت روزگار کے متلاشی جوان بچوں کے والدیں کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ  کرپٹو کرنسی کے بزنس میں بہت سے لوگ نوجوانوں کو بے رحمی کے ساتھ ایکسپلائٹ کر رہے ہیں اور نعض اوقات نوجوان مایوسی کے عالم میں خودکشی کی کوشش تک جانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ 
اس دکھی شہری نے اپنے بیٹے کے ساتھ  پیش آنے والے المناک واقعہ کے ذاتی تجربہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ آج کل نوجوان بچوں کو امیر بنانے کا لالچ دے کر  (کراچی کے ڈیفنس/کلفٹن جیسے علاقوں  میں عالی شان آفس بنا کر ان کو ایک مہینے تک اس میں ٹریڈ اور کرپٹو ٹریڈنگ وغیرہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ اس ایک مہینے میں ان بچوں کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ وی ائی پی لنچ، وی آئی پی ڈنر، گارڈ، سہولت کار، خدمت گار، فل اے سی ہال میں رکھا جاتا ہے۔

 بچوں کو گھیرنے کے لیے ان کے ایجنٹ گھومتے رہتے ہیں۔ ان کو اسٹارٹ میں ڈمی اکاؤنٹ بنا کر سکھاتے ہیں پھر جب وہ سیکھ جاتے ہیں تو ان کا بینک اکاؤنٹ اوپن کرواتے ہیں وہ بچہ تو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرتا ہے پھر اس بچے کی چیک بک سے چار یا پانچ بلینک چیک سائن کروا کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد ان بچوں کے اکاؤنٹ میں ڈالر جمع کروائے جاتے ہیں اور ان کو جو ٹریڈنگ کا کام سکھایا گیا ہوتا ہے اس ٹریننگ کو استعمال کرنے کا کہا جاتا ہے کہ جتنا بھی پرافٹ ہوگا 80 فیصد مالک کا اور 20 فیصد ان بچوں کا۔

اس ٹریڈنگ اکاؤنٹ کا مکمل کنٹرول مالک اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے جب تک نفع ہوتا رہتا ہے وہ اپنا نفع خود نکال لیتا ہے اور جب نقصان ہوتا ہے تو شروع شروع میں مالک کہتا ہے کہ کوئی بات نہیں میں اور پیسے ڈلوا دیتا ہوں کیونکہ اس کو تو اپنے نفع سے مطلب ہوتا ہے کیونکہ نقصان تو وہ بدمعاشی سے نکلوا ہی لیں گے ہم جیسے غریبوں سے۔

 اگر مالک چاہتا تو اس کو وہیں روک لیتا اور مزید نقصان سے بچاتا۔ جب نقصان سے گھبرا کر کوئی بچہ کام چھوڑنے کی بات کرتا ہے تو اس کے چیک میں اپنے نقصان کی رقم لکھ کر بلکہ اس سے کہیں زیادہ رقم لکھ کر، اس چیک کو بینک میں فیل کروا کر اس چیک پر اس بچے کے خلاف ایف ائی ار درج کروا دیتا ہے۔ اس بچے کے گھر والوں کو الگ تنگ کیا جاتا ہے اور ذہنی ٹارچر کیا جاتا ہے کہ اپنا گھر بیچو اور میرا پیسہ ادا کرو۔
پھر ایسے بچے یا تو خودکشیاں کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں یا پھر ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہتے ہیں۔ خدارا میں بھی اسی طرح کے ایک ظالم کا ستایا ہوا والد ہوں۔ 

یاد رکھیں کہ جب پولیس کی وین کسی شریف آدمی کے گھر کے باہر آتی ہے تو اس شریف آدمی کی آدھی موت تو وہیں ہو جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا پولیس کے ساتھ کچھ سادہ کپڑوں میں ملبوس لوگ بھی گھر پر آئے۔ مجھے زد و کوب کیا، تشدد کیا، میرے دوسرے بچوں کو مارا،  گھر کی عورتوں بہو بیٹیوں کو ہراساں کیا، گھر کا سارا سامان تہس نہس کر دیا۔

ارباب اختیار سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ خدارا اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان بچوں کو خودکشیاں کرنے سے بچائیں اور ان کے والدین کو اس ذہنی اذیت سے بچائیں اور اس غیر قانونی ٹریڈنگ کا کام کرنے والوں کو قانون کی گرفت میں لائیں۔ ان شاء الله جن ارباب اختیار نے اس کار خیر میں حصہ لیا میرا ایمان ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں ضرور سرخرو ہوں گے۔

 اگر کسی کے دل میں تھوڑی سی بھی ہمدردی ہو تو وہ اپنے نوجوان بچوں کی نگرانی بھی کریں اور اگر خدانخواستہ کوئی بچہ ان غلط لوگوں کے ہاتھوں پھنس چکا ہے تو اس کی مدد بھی کریں اور اس پوسٹ کو آگے شیئر کر کے دوسرے مظلوم والدین کی بھی دعاؤں کے حقدار بنیں۔

یہ جاننا مشکل ہے کہ کراچی کے اس دکھیا باپ نے جن ارباب اختیار کو مخاطب کر کے یہ کھلا خط لکھا ہے ان تک اس کی معروضات پہنچیں گی یا نہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ کرپٹو کرنسی کے ابھرتے ہوئے کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کی ناکافی کوششوں کے نتیجہ میں بہت سے پاکستانی استحصال کا شکار ہو رہے ہیں جسے روکنے کے لئے متعلقہ اداروں میں ارادہ کی کمی واضح دکھائی دیتی ہے۔ 

Or we may raise a question for concerned authorities if such a business is in progress

مزیدخبریں