سٹی42: سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کا فیصلہ سناتے ہوئے تاحیات نااہلی ختم کر دی جس کے ساتھ ہی سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی بھی ختم ہوگئی۔
کیس کا فیصلہ چھ ایک کی اکثریت سے سنایا گیا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست ہے، نااہلی تب تک برقرار رہے گی جب تک ڈیکلریشن موجود رہے گی جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی،جسٹس منصورعلی شاہ، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی نےاکثریتی فیصلہ سُنایا جس کے بعد سیاست دانوں کی تاحیات نااہلی ختم ہوگئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ پورا پاکستان 5 سال نااہلی کے مدت کے قانون سے خوش ہے،5 جینٹلمین کی دانش 326 کی پارلیمان پر کیسے غالب آسکتی ہے، پارلیمنٹ کے فیصلے کو حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، آئین میں کہاں لکھا ہے کہ نااہلی کی سزا تاحیات ہو گی، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ جب موڈ میں ہوں تو تاحیات نااہل کردیں اور جب موڈ نہیں ہے تو نااہلی ختم کر دیں،پارلیمنٹ نے مدت نہیں لکھی تو نا اہلی تاحیات کیوں؟ تاحیات نااہل کرنااسلام کیخلاف ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون آچکا ہے اور نااہلی 5 سال کی ہوچکی ہے تو تاحیات والی بات کیسے قائم رہےگی؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کیس میں آئین کی تشریح غلط کی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال تک ہے، نااہلی کی مدت کے قانون کو جانچنے کی ضرورت نہیں، ائین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح عدالتی ڈیکلریشن کے ذریعے آئین کو ریڈ اِن کرنا ہے، ڈیکلریشن دینے کے حوالے سے قانون کا کوئی پراسس موجود نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ کورٹ آف لا کیا ہے، آرٹیکل 62 ون ایف واضح نہیں کرتا کہ ڈیکلریشن کس نے دینی ہے، آرٹیکل 62 ون ایف میں درج نہیں کہ نااہلی کی مدت کتنی ہوگی؟ ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح کرے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کا طریقہ کار کیا ہوگا۔
فیصلے کے متن کے مطابق ایسا کوئی قانون نہیں جو واضح کرے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کیا ہوگی؟ یہ بھی واضح نہیں کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی فیئر ٹرائل اور قانونی تقاضوں کے مطابق ہے یا نہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کا فیصلے سے اختلاف
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے ساتھی ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی تب تک کیلئے ہے جب تک کورٹ آف لا نے ڈیکلئیر کیا ہے، سمیع اللہ بلوچ فیصلہ درست ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونےکے بعد ضروری تھاکہ یہ فیصلہ فوری سنایا جاتا، وکلاء اور اٹارنی جنرل کے آنے کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی بینچ نے سماعت کی تھی، یہ فیصلہ 5 جنوری کو محفوظ کیا تھا۔