سٹی42: پاکستان کی تاریخ کےسبھی عام انتخابات کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا کہ یہ پاکستانیوں کی تقدیر کا ایک فیصلہ کن موڑ ہیں ایسے ہی آج 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے متعلق بھی کہا سنا جاتا رہا ہے۔ آج ہونے والے الیکشن میں بے یقینی بظاہر سب سے بڑا فیکٹر دکھائی دیتی رہی تاہم عوام کی نبض پر ہاتھ رکھنے والوں اور اقتدار کی غلام گردشوں میں جھانکنے کی صلاحیت رکھنے والوں کے لئے اس بظاہر بے یقینی کے پردے سے طلوع ہونے والے نتائج غیر متوقع نہیں ہوں گے۔
بے یقینی کی سموک سکرین صبح گیارہ بجے تک
ایک اندازہ یہ ہے کہ آج ہونے والے انتخابات کے آغاز میں ہی بے یقینی کی سموک سکرین ہٹنا شروع ہو جائے گی اور آج صبح گیارہ بجے تک سب کچھ واضح ہو چکا ہو گا۔ پی ٹی آئی کے ساتھ اب تک جڑے ہوئے لوگ اور پاکستان سے باہر بانی پی ٹی آئی کے حامیوں کا یہ توقع کرنا کہ آج پاکستان میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت زیادہ یعنی ستر فیصد تک یا اس سے بھی زیادہ جا سکتا ہے محض ایک خواہش دکھائی دیتا ہے۔ حقیقت کیا ہے، وہ تمام شہری جو سوشل پلیٹ فارمز پر اپنی رائے کا اظہار کرنے کے لئے نہیں آتے اور جو سوشل پلیٹ فارمز پر مفت بانٹی جا رہی عقل بھی حاصل کرنے نہیں آتے وہ درحقیقت کیا سوچتے ہیں اور کیا چاہتے ہیں، یہ چند گھنٹے میں سامنے آ جائے گا۔
مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی اصل سٹیک ہولڈر
آج عام انتخابات میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی چاروں صوبوں میں اپنے اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار سابق کِنگز پارٹی پی ٹی آئی کے بکھرے ہوئے سپورٹ بیس میں سے اپنا اپنا حصہ سمیٹنے کے لئے میدان میں ہیں۔ جبکہ پی ٹی آئی سے وابستگی رکھنے والے آج پولنگ ڈے تک یہ نہیں جانتے کہ اگر وہ کسی معجزہ سے الیکشن جیت ہی گئے تو وہ کیا کریں گے یا کیا کر سکیں گے۔
سیاسی پنڈتوں میں سے ایک سرخیل نے جنہیں سب سے زیادہ باخبر اور ٹھنڈے دل سے پیشینگوئی کرنے والا سمجھا جاتا رہا ہے آج کے الیکشن میں مسلم لیگ نون کو تمام صوبوں سے100ے 110 تک نشستیں حاصل کر پانے اور پیپلز پارٹی کے پچاس سے ساٹھ تک نشستیں حاصل کرنے کی پیشین گوئی کر رکھی ہے تاہم زمینی حقائق کے بدلاؤ کو بے لاگ تجزیہ کے ترازو میں تولنے سے آج 8 فروری کو علی الصبح بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کیمپین کے آخری دنوں میں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی نشستوں میں فرق کم سے کم ہوا ہے۔ مسلم لیگ نون کی نشستیں سو سے کم نوے تک بھی ہو سکتی ہیں جبکہ آزاد امیدواروں کی نشسستیں اب تک کی قیاس آرائیوں سے کچھ زیادہ بھی ہو سکتی ہیں جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی بیشتر نشستوں پر کوئی ڈرامائی صورتحال متوقع نہیں۔ اسے کراچی میں بڑی کامیابی ملنے کی واثق آس ہے تاہم جنوبی پنجاب ، وسطی پنجاب اور شمالی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ووٹ پاکٹس واپس حاصل کرنے کی بلاول بھٹو کی جدوجہد کا انحصار مسلم لیگ نون اور استحکام پارٹی کی طرح بانی پی ٹی آئی فیکٹر کی حقیقت سامنے آنے پر ہے۔ اگر بانی پی ٹی آئی کا فیکٹر کوئی سونامی برپا نہ کر سکا تو بلاول بھٹو اور جنوبی پنجاب میں دن رات ایک کرنے والے درجنوں رہنماؤوں کو بہت کچھ سمیٹ کر پیپلز پارٹی کی نشستیں تمام اندازوں سے بڑھانے میں کامیابی مل جائے گی۔ مسلم لیگ نون سو تک جا پائے گی یا اس سے کتنی کم نشستیں حاصل کر پائے گی اس کا دار و مدار وسطی اور شمالی پنجاب کے ساتھ ہزارہ اور سوات میں پی ٹی آئی کے ساتھ اب تک وابستگی رکھنے والے شہریوں کی ووٹ ڈالنے میں حقیقی دلچسپی پر منحصر ہے۔ اس دلچسپی یا عدم دلچسپی کے درجہ کا اندازہ آج صبح گیارہ بجے تک ہو جائے گا۔
بانی پی ٹی آئی کے اثر کا توہم سچ نکلا تو؟
پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی کے دعوے دار اور اس پارٹی کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے اگر شہریوں کو آج صبح پولنگ سٹیشن پر لانے میں کامیاب ہو گئے تو لاہور سمیت وسطی پنجاب کے اربن سنٹرز میں مسلم لیگ نون کو اپنے سٹرونگ ہولڈز کو بچانے کے لئے آخری لمحہ تک جدوجہد کرنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی سے وابستگی رکھنے والے بیرون ملک موجود حامیوں کی نسبت قدرے کمزور پوزیشن رکھنے کی وجہ سے مسلم لیگ نون ووٹروں کے کسی غیر معمولی ریلے کے گھروں سے باہر آنے کی صورت میں یقیناً مشکل سے دوچار ہو گی تاہم مسلم لیگ نون کو جو بڑی فوقیت حاصل ہے وہ یہ ہے کہ 2018 کے الیکشن ڈے کے برعکس آج 8 فروری کو مسلم لیگ نون کی پنجاب کےو سطی اور شمالی شہری اور دیہی علاقوں، ہزارہ اور سوات میں پولنگ ڈے مینیجمنٹ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج پولنگ ڈے سے پہلے گھر گھر مسلم لیگ نون کی پرچیاں پہنچ چکی ہیں اور ان کے کارکنوں کو ڈیوٹیاں اسائین کی جا چکی ہیں۔ اپنے مستقل ووٹروں کو بروقت پولنگ سٹیشنوں پر پہنچا کر مسلم لیگ نون نفسیاتی برتری سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی کراچی اور پنجاب کی ورکنگ کلاس میں واپسی
پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے آج کا الیکشن اس صدی کا اہم ترین الیکشن ہے کہ یہ پیپلز پارٹی کے اندر قیادت کی جنریشنل تبدیلی کے ساتھ ملک میں2018 سے 2022- چار سال تک اور خیبر پختونخوا میں مسلسل دس سال حکومت کرنے، کراچی، پختونخواہ اور پنجاب میں نوجوانوں کے ذہنوں اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے بڑے حصہ پر قابض پی ٹی آئی کی چھوڑی ہوئی سپیس کو حاصل کر کے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں زیادہ سے زیادہ جگہ حاصل کرنے کا تاریخی موقع ہے۔ کراچی کی حد تک پیپلز پارٹی اس مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے جبکہ جنوبی پنجاب پی ٹی آئی کے بکھرنے سے اس کی جھولی میں اس لئے آ گرا ہے کہ 2028 کے الیکشن تک جنوبی پنجاب میں مسلم لیگ نون کے مقابلے میں بہت بہتر پوزیشن میں تھی، پی ٹی آئی کے چار سال تک بد نظمی اور بہت بڑے پیمانے پر کرپشن سے بھرے راج میں سب سے زیادہ بدحالی جنوبی پنجاب کے عوام کے حصے میں ہی آئی۔ تاہم پی ٹی آئی کے ہمدردوں کے بہت بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لئے باہر نکل آنے کے جس فیکٹر کا مسلم لیگ نون کو وسطی اور شمالی پنجاب، ہزارہ ور سوات میں سامنا ہو گا اس کا پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب میں سامنا کرے گی۔ اگرجیل میں تین مقدمات میں بالترتیب 14، 10 اور 7 سال قید کی سزا کاٹنے اور مزید مقدمات میں سزاوں کا انتظار کرنے واے پی ٹی آئی کے سابق چئیرمین کا شخصی سحر ان کے موجودہ اور سابق ہمدردوں کو پولنگ سٹیشنوں تک لانے میں کامیاب نہ ہوا تو الیکشن کیمپین اور سیاسی جوڑ توڑ کے مراحل میں پیپلز پارٹی کی پرفارمنس سےیہ دکھائی دے رہا ہے کہ جنوبی پنجاب کی بیشتر نشستوں پر وہ جیت جائے گی۔ جنوبی پنجاب میں الیکشن کیمپین کرنے والے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو یقین ہے کہ وہ 2002 کے الیکشن جیسی پوزیشن حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس سے بھی کچھ بہتر۔
راولپنڈی میں شیخ رشید کے عہد کا اختتام؟
آج کے الیکشن میں بانی پی ٹی آئی کی حکومت میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے اہم کردار ادا کرنے والے کہنہ مشق سیاستدان شیخ رشید کی طویل سیاست کا بظاہر انجام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ این اے 56 میں بظاہر مسلم لیگ نون کے حنیف عباسی کی پوزیشن مستحکم ہے تاہم آزاد امیدواروں کی بہت بڑی تعداد اس حلقہ میں موجود ہے۔ اگر ٹرن آؤٹ کم رہا تو حنیف عباسی کے لئے امکانات بہتر ہو جائیں گے۔ اس الیکشن کے بعد شیخ رشید کے لئے بظاہر آگے بڑھنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ سوشل میڈیا مین بھی ان کا حلقہ اثر زیادہ تر بانی پی ٹی آئی کے زیر اثر لوگوں پر مشتمل تھا جو آج کل ان کے ساتھ نہیں ہیں۔
بلوچستان میں باپ اور پی ٹی آئی کا انتشار، مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کا ابھار اور دہشتگرد فیکٹر
بلوچستان میں انتخابی مہم کے دوران دہشتگردوں کے حملوں نے کسی حد تک مہم میں رکاوٹیں ڈالیں لیکن بلوچستان کے چند حلقوں کے سوا بیشتر حلقوں میں طاقتور شخصیات کے قبائلی اثر و رسوخ کے پیش نظر یہ تقریباً واضح ہے کہ کون کون جیت کر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچے گا۔ سابق باپ پارٹی کے بہت سے اہم سیاستدان مسلم لیگ نون میں شامل ہو چکے ہیں جبکہ چند ایک پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی شامل ہوئے ہیں جن میں بلوچستان کی سیاست کے مستقبل مین اہم ستون بننے کی اہلیت رکھنے والے سرفراز بگٹی بھی شامل ہیں۔ ان کے والد نے سیاست کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا تھا۔ وہ اپنی نشست بھی جیت سکتے ہین اور مستقبل میں پیپلز پارٹی کا بلوچستان میں اثاثہ بھی بن سکتے ہیں۔
بلوچستان میں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں وفاقی پارٹیاں نئے سرے سے بلوچستان میں اپنے پلیٹ فارم سے مقبول ہونے کی کوشش کر رہی ہیں تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کو نشستیں بھلے ہی کم ملیں لیکن اسے انتخابی مہم کے دوران یہ برتری حاصل ہو چکی ہے کہ بلاول بھٹو اور آصف زرداری نے متعدد جلسے کر کے بلوچستان کے اہم ترین مسائل پر براہ راست ڈائیلاگ کیا اور اس نکتہ کو بھی رجسٹرڈ کروایا کہ بلوچستان کے قدیمی مسئلہ کا حل دراصل وہ18 ویں ترمیم کے زریعہ کروا چکے ہیں جسے اب وفاق میں 17 وزارتوں کے خاتمہ اور بلوچستان میں موثر گورننس کے زریعہ رو بہ عمل لا کر اس کے ثمرات عوام تک پہنچانا باقی رہ گیا ہے۔ اس کے برعکس مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت نے انتخابی مہم کے دوران بلوچستان کے متعلق غالباً ایک جملہ تک نہیں بولا۔ مسلم لیگ نون کا تمام تر انحصار اس کے ساتھ حال ہی میں شامل ہونے والے الیکٹیبلز کی پرسنل پرفارمنس پر ہے۔ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ مسلم لیگ نون کئی سال بعد ذوالفقار مگسی کے بعد پہلی مرتبہ اپنا وزیر اعلیٰ بلوچستان میں لانے میں کامیاب ہو سکتی ہے تاہم آزاد سیاستدانوں کی جوڑ توڑ کے عجیب نتائج بلوچستان کی سیاست کا ہمیشہ سے ایک پہلو ہیں۔
پختون آبادی والے علاقوں میں جمعیت علما اسلام کا مقابلہ آزاد امیدواروں کے ساتھ عوامی نیشنل پارٹی کے امیدواروں سے بھی ہے۔ اگر پی ٹی آئی فیکٹر یہاں اثر انداز ہوا بھی تو اس کی شدت پختونخوا کے شہری علاقوں جیسی بہرحال نہیں ہو گی۔
خیبر پختونخوا کی وولٹائل صورتحال
آج ہونے والے الیکشن کو خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے سابق چئیرمین اور سی جماعت کے سابق وزیر اعلیٰ کے شخصی سحر کے درمیان مقابلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ گو کہ جمعیت علما اسلام ڈیرہ اسمعیل خان، ٹانک، بنوں، ان اضلاع سے ملحق سابق قبائلی علاقوں میں اپنی گزشتہ الیکشن میں کھوئی ہوئی پوزیشن حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے لیکن جمعیت کے لوگ خود اپنی جدوجہد کے ثمر آور ہونے کے لئےزیادہ پر امید دکھائی نہیں دیئے۔
خیبر پختونخوا میں وادیِ پشاور کے علاقوں اور سوات، چترال، دیر کے دونوں اضلاع میں میں پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ساتھ شامل ہونے والے طاقتور سیاستدان پی ٹی آئی سے ہی تعلق رکھنے والے آزاد سیاستدانوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جن میں سے کچھ بالکل نو آموز ہیں اور جنہیں انتخابی مہم بھی موثر انداز سے چلانے میں کامیابی نہیں ہوئی تاہم ان کا انحصار وسیع پیمانہ پر کئے گئے اس پرپیگنڈا پر ہے کہ آج جیل میں اخلاقی جرائم کی سزا کاٹنے والے بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر عوام بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے نکلیں گے یا نہیں۔
پختونخوا کی سیاست میں پاکستان کے قیام سے لے کر اس صدی کے اختتام تک طاقتور ترین پارٹیوں میں سے ایک عوامی نیشنل پارٹی کے لئے بھی آج 8 فروری کا الیکشن اہم ہے کہ اس پارٹی کی قیادت سنبھالنے کے بعد ایمل ولی خان کو پہلی مرتبہ بانی پی ٹی آئی کے شخصی کلاؤٹ کی گرفت سے نکلے ہوئے پختون نوجوانوں تک رسائی حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی نے پی ٹی آئی کی حکومت کے دس سالوں میں حکومت، ریاست اور مذہبی بنیاد پر دہشتگردی کا طوفان برپا کرنے والے گروہ سے مسلسل مار کھائی۔ اب باری باری تمام مارنے والے کمزور ہو گئے ہیں تو اے این پی کے لئے اپنی اصل لبرل پختون قوم پرست سوچ اور وفاق میں اہم سٹیک ہولڈر کی ماضی کی حیثیت بحال کرنے کا اہم موقع ہے۔ ایمل ولی نے قومی وطن پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر کے بظاہر چارسدہ میں اپنی پوزیشن مضبوط کر لی ہے۔ این اے 24 چارسدہ میں قومی وطن پارٹی کے آفتاب شیر پاؤ اور این اے 25 چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے ایمل خان دونوں اس ایڈجسٹمنٹ سے یکساں فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔
وفاق میں بانی کی چار سالہ ناکام حکومت اور س کے بعد پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ سے وہ عملاً کیا حاصل کر پائے ہیں اس کا پتہ آج رات تک چل جائے گا۔ اگر اے این پی کو چارسدہ کے ساتھ سابق قبائلی علاقوں میں بھی کچھ جگہ مل گئی تو وہ آئندہ سالوں میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں اٹھائے ہوئے نقصان کی تلافی کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔
سندھ بظاہر ہمیشہ سے زیادہ پیپلز پارٹی کی طرف
آج ہونے والے الیکشن میں سندھ بظاہر ہمیشہ سے زیادہ پیپلز پارٹی کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے منتشر ہونے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم پی ٹی آئی سے نکل کر جی ڈی اے میں چلے گئے لیکن ارباب غلام رحیم کا تھر میں وزن اب نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے تاہم اس الیکشن سے پہلے ایک ڈرامائی تبدیلی کے نتیجہ میں جمعیت علما اسلام نے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی حمایت کا اعلان کر دیا جبکہ مسلم لیگ نون نے بھی جی ڈی اے کی حمایت کر دی اور ایم کیو ایم نے بھی جی ڈی اے کی حمایت کر دی حتیٰ کہ سکھر سے اپنا امیدوار بھی بٹھا دیا لیکن دوسری طرف عوام کے رجحان میں بھی نمایاں تبدیلی آئی ہے جو ہمیشہ سے زیادہ پیپلز پارٹی طرف متوجہ ہیں جس کی بڑی وجہ بلاول بھٹو ورکنگ کلاس کے ایجنڈا کے ساتھ ابھر کر انتخابی کیمپین کی قیادت کے لئے آگے آنا اور گزشتہ چند سال میں مراد علی شاہ حکومت کی سندھ میں متاثر کن کارکردگی ہے۔ کشمور، جیکب آباد اور شکار پور کے دوحلقوں میں جمعیت علما اسلام کے جی ڈی اے کے ساتھ الائنس کے بعد دو نشستوں (این اے191، 192) پر پیپلز پارٹی کو جمعیت کے امیدواروں کے ساتھ سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کراچی کی تمام نشستوں، حیدر آباد، سکھر ، میرپور خاص، ٹھٹہ اور حتیٰ کہ لاڑکانہ (این اے194) اور قمبر شہداد کوٹ (این اے196) میں جی ڈی اے اور ایم کیو ایم مل جل کرمقابلہ بہرحال بھرپور کریں گی۔
استحکام پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کےلئے آج کا الیکشن زندگی موت کا سوال
آج کا الیکشن استحکام پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کےلئے زندگی موت کا سوال ہے تاہم پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کی پوزیشن انتخابی مہم اور جوڑ توڑ کے دوران ہی جہانگیر ترین اور علیم خان کے برین چائلڈ سے بہت آگے چلی گئی۔ پرویز خٹک اور ان کے ساتھی مسئلہ کے مرکز میں براہ راست مسئلہ کے ساتھ نبرد آزما ہیں اور تنہا الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اس کے برعکس جہانگیر ترین، علیم خان اور عون چوہدری کا مکمل دارومدار نواز شریف کےاپنے ووٹروں کے گھروں میں جوان ہونے والے نئے ووٹروں پر اثر اور درحقیقت بانی پی ٹی آئی کے ساتھ اب تک وابستہ آزاد امیدواروں کی آج پولنگ ْڈے کی سرگرمی پر ہے۔ اگر بانی پی ٹی آئی کا کرشمہ توہم نکلا تو بھی جہانگیر ترین لودھراں اور ملتان دونوں نشستوں پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے ساتھ سخت مقابلہ کی صورتحال سے دوچار ہیں۔
گجرات میں شجاعت حسین اور پرویز الٰہی میں سے ایک بچے گا
گجرات میں چوہدری ظہور الہی کی صاحبزادی قیصرہ الٰہی اور ان کے مدمقابل ان کے بھتیجے کے مابین انتخابی رسہ کشی درحقیقت خاندان کی مکمل تقسیم حتیٰ کہ مشترکہ آبائی گھر مین دیوار کھڑی ہونے کا باعث بن چکی ہے۔ یہ غالبا! الیکشن 2028 کے دوران ہونے والی سب سے تلخ انتخابی جنگ ہے جس میں پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین کی طویل رفاقت کا خاتمہ ہونے کے بعد دونوں مین سے ایک کی بقا دوسرے کی فنا سے جڑ گئی ہے۔پرویز الٰہی جیل سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور قیصرہ الٰہی اپنی اور ان کی کیمپین نہ ہونے کے برابر چلا ہائی ہیں۔قیصرہ الٰہی این اے 64 اور پی پی 32 سے الیکشن لڑ رہی ہیں، ان کے مقابلہ پر ان کے بھتیجے سال حسین ان دونوں حلقوں میں بھرپور کیمپین کر چکے ہیں اور انہیں مسلم لیگ نون کی حمایت حاصل ہے ۔ آج شام تک سامنے آ جائے گا کہ وہ کتنی ہمدردیاں حاصل کر پائی ہیں اور شجاعت حسین کے بیٹے کتنی سیاست سیکھ پائے ہیں۔
چوہدری پرویز الٰہی حلقہ این اے 69 سے گدھا گاڑی کے انتخابی نشان کے ساتھ لڑ رہے ہیں ان کے مقابل ن لیگ کے چودھری مبشر حسین اور پیپلز پارٹی کی وزیر النساء ایڈوکیٹ سمیت 13 امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔ پرویز الٰہی کو اپنے پرانے ووٹروں کے ساتھ بانی پی تی آئی کے ہمدردوں سے بھی امید ہے، کون ان پر کتنی مہربانی کرتا ہے، آج شام تک سامنے آ جائے گا۔
مسلم لیگ نون کے لئے لاہور کی آزمائش گاہ
لاہور کو تین دہائیوں سے مسلم لیگ نون کا قلعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی اس صدی کے دوران لاہور شہر مین کوئی نمایاں جگہ نہیں پا سکی تھی تاہم آج کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو این اے 127 سے طاقتور امیدوار ہیں۔ یہ حلقہ ان کے نانا کے آباد کئے ہوئے ٹاؤن شپ، گرین ٹاؤن کے ساتھ کوٹ لکھپت کی مزدور آبادی اور بہار کالونی کی مسیحی آبادی سمیت ورکنگ کلاس کے ووٹرز کا حلقہ ہے جہاں مسلم لیگ نون گزشتہ دو الیکشن جیتی تو تھ لیکن اپنے قدم نہین جما پائی۔ پرویز ملک کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ شائستہ پرویز نے اس نشست پر ضمنی الیکشن لڑا تو ان کی پیپلز پارٹی کے اسلم گل پر برتی محض پندرہ ہزار وٹوں تک سمٹ گئی تھی۔ اس الیکشن مین مسلم لیگ نون نے لاہور سے تعلق نہ رکھنے والے نو آموز عطا اللہ تارڑ کو اس کارزار مین اتارا جبکہ سلم گل کی جگہ بلاول بھٹو خود آ گئے۔ انہیں اس حلقہ میں نمایاں اثر رکھنے والے ڈاکٹر طاہر القادری کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے، مسیحی کمیونٹی ان کے کندھے سے کندھا ملا کر چل رہی ہے اور شہر اور اس حلقہ میں گہرا اثر رکھنے والی ارائین برادری ان کے ساتھ ہے کیونکہ ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے ایک امیدوار میاں مصباح الرحمان ہیں جو یہاں تمام برادریوں میں گہرے تعلقات رکھتے ہیں۔
مسلم لیگ نون کے لئے لاہور میں اصل آزمائش این اے 119، این اے 130، این اے 128،این اے 122 میں درپیش ہے جہاں مریم نواز، نواز شریف، عون چوہدری اور خواجہ سعد رفیق میدان میں ہیں۔ ان تمام حلقوں میں نون لیگ کو چیلنج سامنے موجود آزاد امیدواروں سے زیادہ غیر موجود بانی پی ٹی آئی کے اثر سے درپیش ہے۔
دانیال عزیز فیکٹر
مسلم لیگ نون کو حالیہ الیکشن کے دوران حقیقی معنوں میں بغاوت کا سامنا صرف دانیال عزیز کی طرف سے کرنا پڑا جنہوں نے احسن اقبال کی توسیع پسندی کے خلاف مزاحمت کی اور سزا کے طور پر انہیں اب آزاد الیکشن لڑنا پر رہا ہے۔ ضلع نارووال کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں الیکشن کیمپین کے دوران سیاسی درجہ حرارت بلندیوں پر رہا۔
احسن اقبال اور چوہدری دانیال عزیز چوہدری اگرچہ الگ الگ قومی حلقوں سے الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن وہ کھل کر ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ایک دوسرے کے حلقے میں جا کر عوامی اجتماعات میں تنقید کر رہے ہیں۔دانیال عزیز این اے 75 سے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔احسن اقبال نےانوار الحق چوہدری کو این اے 75 سے ٹکٹ دلوایا اورخود انوار الحق کی انتخابی مہم بھی چلائی۔ یہی صورتِ حال دانیال عزیز کی ہے جو اپنے حلقے کے ساتھ این اے 76 کی میٹنگز میں بھی سرگرم رہے اور احسن اقبال پر کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔ آج دانیال عزیز کی جیت کا امکان کم ہے لیکن الیکشن کا نتیجہ بہرحال عوام کو مرتب کرنا ہے جو کچھ بھی سوچ اور کر سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کا فیکٹر
انٹر نیٹ خصوصاً سوشل میڈیا اب زندگی کے تمام شعبوں میں موثر کیمپیننگ کے لئے اہم ہے لیکن آج 8 فروری کو انٹر نیٹ خصوصاً سوشل میڈیا کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس اس کے سوا اپنے حامیوں کو متاثر کرنے اور پولنگ سٹیشن تک لانے کے لئے کوئی دوسرا موثر ٹول نہیں رہا۔ اس الیکشن مین انٹر نیٹ کو ہمیشہ کی طرح بحال رکھنے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو بظاہر کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ ایک سامنے نظر آ رہی حقیقت ہے کہ 7 فروری کو ایک بار پھر بلوچستان میں دو بم حملوں کے بعد پاکستان کی آرمی اور پاکستانی ریاست پر نہ صرف بدبو دار کیچڑ اچھالا گیا بلکہ جھوٹ کا پروپیگنڈا کر کے خوف و ہراس بھی پھیلایا گیا۔ ریاست اس غلیظ پروپیگنڈا کو آج کے دن پولنگ ڈے کی سرگرمیوں کے دوران بھی تحمل سے برداشت کرنے کے لئے بہرحال مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے۔
حکومت کون بنائے گا
نام نہاد بانی پی ٹی آئی فیکٹر خواہ کتنا ہی طاقتور ہو وہ حکومت بنانے کے اب تک نظر آ رہے واضح امکانات پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اول تو یہ حقیقت اب چند گھنٹے بعد سب کو دکھائی دینے لگے گی کہ اس نام نہاد فیکٹر کا پاکستان کی سیاست مین عمل دخل اب نہیں رہا۔ اگر پنجاب کے بعض اربن سنٹرز اور خیبر پختونخوا میں کوئی نظر نہ آنے والا سونامی واقعی موجود نکلا، بہت سے آزاد آج کا الیکشن کسی طرح جیت بھی گئے تب بھی حکومت بنانے کے لئے مسلم لیگ نون کا پلہ نمایاں طور پر بھاری دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے بھی آج زیادہ جگہ حاصل کرنا تبھی ممکن ہے جب مسلم لیگ نون کو بھی زیادہ جگہ مل رہی ہو گی یعنی جب "بانی فیکٹر" ہوائی قلعہ نکلے گا تو اس کا جتنا فائدہ بعض علاقوں میں مسلم لیگ نون کو ہو گا اتنا یا قدرے کم فائدہ بعض علاقوں میں پیپلز پارٹی کو بھی ہو گا۔
عددی اکثریت بہر حال مسلم لیگ نون کو حاصل رہے گی اور آزاد امیدواروں کو ساتھ شامل کرنے کی پوزیشن بھی اسی کی بہتر ہو گی جس میں اہم ترین عنصر وہ ہے جس کا تذکرہ کم کیا جاتا ہے۔ قانون کے مطابق آزاد حیثیت سے رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد ہر رکن کو مخصوص دنوں کے اندر ایک سیاسی پارٹی میں شامل ہونا ہو گا۔ بظاہر مسلم لیگ نون ایک پرکشش چوائس ہے تاہم "سب پر بھاری آصف زرداری" ہمیشہ سے مفاہمت کے بادشاہ کہتے ہیں ا ور ان کے لئے عوام کی جانب سے مناسب طاقت مل جانے کی صورت مین کچھ بھی ناممکن نہین رہے گا۔ دارومدار آج صبح سے دوپہر تک پنجاب، ہزارہ اور سوات میں مسلم لیگ نون کی انتخابی مشین کی پرفارمنس پر ہے۔