(محمد عمران فیاض راجپوت)کمرے میں گہرا سکوت طاری تھا،میرے بالکل سامنے سفید کپڑوں میں ملبوس ایک باریش بزرگ بیٹھے تھے،ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی اور ان کی انگلیاں تسبیح کے دانوں پر محو حرکت تھیں،میں بابا جی کے نورانی چہرے کی جانب دیکھ رہا تھا،کمرے میں میرے اور بزرگ شخصیت کے علاوہ دو اور لوگ بھی موجود تھے جن کی عمر لگ بھگ 30 سے 35 سال کے درمیان لگتی تھی۔
یہ تقریبا تین سے چار کینال پر محیط ایک مدرسہ تھا جس میں بچے اور بچیاں قرآن کی تعلیم حاصل کرتے تھے،یہ مدرسہ کوئی 20 سے 25 سال قبل بابا جی صوفی محمد طفیل صاحب نے ہی بنوایا تھا جو اس وقت ہمارے سامنے کمرے میں موجود تھے ، مدرسے کے بالکل کارنر میں بابا جی کا کمرہ تھا وہ اپنی بیوی اور ایک جوان بیٹے کے ساتھ وہیں مقیم تھے ،بزرگ کا بیٹا بھی شادی شدہ تھا اور مدرسے میں ہی ایک دوسرے کمرے میں رہتا تھا۔میں بھی کبھی کبھار بابا جی سے ملنے چلا جایا کرتا تھا کیونکہ ان کی صحبت میں مجھے ایک عجیب سا سکون ملتا تھا۔بابا جی کے بہت سے مرید تھے مدرسے میں ان کے مریدین کے علاوہ دیگر بہت سے لوگ بھی اپنے مسئلے مسائل کے حل اور ان کے علم سے مستفید ہونے کی غرض سے آیا کرتے تھے ۔
میرے علاوہ وہ دو لوگ جو کمرے میں موجود تھے،سگے بھائی تھےبڑے کا نام راحیل اور چھوٹے کا شکیل تھا دونوں بابا جی کے مرید بھی تھے دونوں کے درمیان جائیداد کی تقسیم کا تنازعہ چل رہا تھا،جس کے حل کے لئے دونوں بابا جی کی خدمت میں حاضرہوئے تھے۔
ان دونوں میں سے ایک شخص بولا وہ دس مرلے کے مکان پر زیادہ حق میرا ہے،میں گزشتہ کئی سال سے کما رہا ہوں،اس نے قریب بیٹھے اپنے چھوٹے بھائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اس نے ساری زندگی کیا ہی کیا ہے،میں اسے ہر گز آدھا حصہ نہیں دوں گا۔
اس شخص کا چھوٹا بھائی بولا کہ بابا جی مکان ہمارے باپ کے نام تھا وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے اور ہم دونوں کا برابر کا حصہ ہی بنتا ہے میں اپنا آدھا حصہ لے کر ہی رہوں گا اسی دوران دوسرا شخص بھی بولنے لگا آدھا حصہ تو میں ہر گز نہیں دوں گا،دونوں میں بحث چھڑ گئی اور کمرے کی خاموشی شور میں بدل گئی۔
صوفی صاحب جو کافی دیر سے خاموش بیٹھے دونوں کی بات سن رہے تھے ہاتھ اٹھا کر دونوں کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا،کمرے میں ایک بار پھر گہرا سکوت چھا گیا۔کچھ دیر بعد صوفی صاحب جو نظر جھکا کر تسیح پڑھنے میں مصروف تھے اپنا چہرہ اٹھا کر دونوں بھائیوں کی جانب دیکھا بڑے بھائی سے مخاطب ہوئے اور بولے دیکھو بیٹا چونکہ گھر تمہارے باپ کے نام تھا اس لئے حصہ تو تم دونوں کا برابر ہی بنتا ہے اور جہاں تک رہی زیادہ کمانے کی بات تو جسے تم کمائی کہتے ہو یہ تو اللہ کا فضل ہے ہماری اصل کمائی تو یا نیکی ہے یا بدی۔ محنت انسان ضرور کرتا ہے ‘مگر جو کچھ اس کو ملتا ہے وہ سرا سر اللہ کا فضل ہے نہ کہ اس کی محنت کا حاصل یا صلہ۔
جہاں تک رہا حق ملکیت کا تعلق تو بیٹا تم دونوں سے پہلے یہ گھر کس کے پاس تھا،جی ہمارے باپ کے پاس دونوں سے جواب دیا۔تمہارے باپ سے پہلے کس کے پاس تھا ،جی دادا کی ملکیت تھا،بڑے بھائی نے جواب دیا۔ ان سے قبل شاید تمہارے پردادا کی ملکیت ہو گا؟ بابا جی پھر بولے،جی شاید چھوٹے بھائی نے جواب دیا۔
اگر یہ مکان تمہارے مرحوم پردادا کی ملکیت تھا تو اسے یہاں کیوں چھوڑ گئے؟چلو پھر تمہارے مرحوم دادا کو مل گیا تو وہ اسے یہاں کیوں چھوڑ گئے،اس کے بعد یہ تمہارے باپ کی ملکیت میں آ گیا وہ کیوں یہاں چھوڑ گئے اگر یہ سب ان کی ملکیت تھا تو ساتھ ہی لے جاتے۔
میں صوفی صاحب کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا،صوفی صاحب تھوڑے سے توقف کے بعد پھر بولے،بیٹا ایک بات ذہن میں رکھنا چیزیں ہماری ملکیت نہیں ہوتیں ہمارے تصرف میں ہوتی ہیں،تم 10 مرلے کی مکان کی بات کر رہے ہو ،دنیا میں ہزاروں، لاکھوں ایکٹر زمین پر اپنا حق ملکیت جمانے والے مٹی کے ساتھ مٹی ہو گئے۔لوگ زمین و جائیداد کی حرص میں کب تک ایک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے۔
راحیل بیٹا مکان میں تمہارے بھائی کا آدھا حصہ ہی بنتا ہے وہ تمہیں دینا پڑے گا،صوفی صاحب کی باتیں سن کر دونوں بھائیوں کے چہروں پر بھی سکون سا آ گیا،بڑا بھائی راحیل بھی صوفی صاحب کی باتوں سے قائل ہو گیا اور اپنے بھائی کو آدھا حصہ دینے پر راضی نظر آیا۔
اتنی دیر میں عصر کی اذان ہونے لگی،دونوں بھائیوں نے صوفی صاحب سے اجازت طلب کی ان کے جانے کے بعد میں نے بھی اجازت طلب کی ،صوفی صاحب بھی نماز کی ادائیگی کے لئے وضو خانے کی جانب چل پڑے ،میں کمرے سے باہر نکل کر مدرسے سے باہر آیا اپنی موٹر سائیکل سٹارٹ کی اور گھر کی جانب چل دیا،سارے راستے میرے ذہن میں خیالات کا طوفان برپا رہا،انسان اگر سمجھے تو وہ کھجور کی گٹھلی پر جو ایک جھلی سی لگی ہوتی ہے اس کا بھی مالک نہیں۔