شام میں بعث پارٹی کے سربراہ اور ملک کے صدر بشار الاسد کی طویل حکمرانی ختم ہو گئی ہے، بشار الاسد جنرل حافظ الاسد کے بیٹے ہیں جنہوں نے بعث پارٹی کے ریڈیکل لیفٹ کے لیڈر صلاح جدید کے ساتھ مل کر1966 میں شام میں انقلاب برپا کیا تھا اور اس کے بعد سے مرتے دم تک شام کے صدر رہے تھے ۔
بعث پارٹی شام میں 1947 سے موجود تھی، اس کا پورا نام "حزب البعث العربی الاشتراکی – قطر سوریاا" تھا۔ 1963 میں بعث پارٹی نے شام کی حکومت حاصل کر لی تھی اور مائیکل افلاک اور صلاح الدین ابطار نے حکومت کی قیادت سنبھال لی تھی۔ انہوں نے ملک کے معاشی اور سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلیاں کیں۔
تین سال بعد بعث پارٹی کے زیادہ ریڈیکل کارکنوں کے دھڑے نےفوج سے سیاست میں آنے والے سوشلٹ لیڈر صلاح جدید اور تب تک شامی فوج کے جنرل حافظ الاسد کی قیادت میں نیا انقلاب برپا کیا اور پارٹی کا نام بھی بدل کر " Syrian-dominated Ba'ath movement " رکھ دیا۔ اس سے پہلے بعث پارٹی کو عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی شام برانچ کی حیثیت حاصل تھی، 1966 میں اس کے نام اور مقاصد کی ترمیم کے ساتھ یہ صرف شام کی بعث پارٹی بن گئی۔
1966 سے 1970 تک صلاح جدید شام کے ڈی فیکٹو صدر رہے۔ صلاح جدید کی قیادت میں بعث پارٹی نے دراصل "نیا بعث" نظریہ تشکیل دیا۔ اس وقت بعث پارٹی شامی کمیونسٹوں اور سوویت یونین کے ساتھ قریبی تعاون کرتے ہوئے انقلاب کو باقی ماندہ عرب ریاستوں تک منتقل کرنے کے نظریہ کے تحت کام کرتی رہی۔ اس دور میں عراق میں بعث پارٹی کی حکومت تھی جبکہ باقی عرب ریاستیں غیر بعثی بارشاہتی نظام میں چل رہی تھیں۔حافظ الاسد اس وقت شام کی صلاح جدید حکومت میں وزیر دفاع تھے.
1970 میں حافظ الاسد نے "اصلاح اور تصحیح" کے مقاصد کو لے کر بعث پارٹی میں صلاح جدید کو غیر موثر کر دیا اور اقتدار پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا۔حافظ الاسد پہلے وزیر اعظم بنے، 1971 میں وہ صدر منتخب ہو گئے اور 2000 میں فوت ہونے تک وہ شام کے صدر رہے۔
حافظ الاسد نے انقلاب کو سارے عرب ممالک تک پھیلانے کی پالیسی کو ترک کر کے سوشلٹ معیشت اور طرز ہئیتِ کو صرف شام کے اندر مستحکم کرنے کی پالیسی اپنائی اور پڑوسی عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو از سر نو استوار کیا جو ایک خاص حد سے آگے کبھی نہیں بڑھ سکے۔
1973 میں شام کے صدر حافظ الاسد اور مصر کے صدر انور سادات نے مل کر اسرائیل پر اچانک حملہ کر دیا جس کا مقصد 1967 کی 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ میں شکست کا بدلہ لینا اور اسرائیل کے قبضے میں جانے والی شام اور مصر کی زمین کو دوبارہ حاصل کرنا تھا لیکن اس جنگ میں شام اور مصر کو بری طرح ہزیمت اٹھانا پڑی اور شام گولان کی پہاڑیوں کا علاقہ اسرائیل کو دینے پر مجبور ہوگیا۔
حافظ الاسد اسرائیل کے ساتھ جنگ میں نقصان اٹھانے کے بعد شام کے اندر جدید کاری، انڈسٹریلائزیشن اور تعلیم جیسے مقاصد پر توجہ دیتے رہے، اس دوران ان کی بائیں بازو کی پالیسیوں سے نالاں مسلمانوں کی بڑی تعداد مصر کی اخوان المسلمون کی مقامی شاخ کے ساتھ وابستہ ہوتی رہی اور اخوان المسلمون شام میں ایک بڑی طاقت کی حیثیت سے ابھرنے لگی۔ 1982 میں حافظ الاسد نے اپنی فوج کی مدد سے اخوان المسلمون کے صفایا کا آپریشن شروع کیا اور حماہ شہر میں اخوان المسلمین کی تحریک کے کارکنوں پر کریک ڈاؤن کیا جس میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ اخوان المسلمون ٹوٹ پھوٹ گئی لیکن اس خونریزی نے شال کے عوام کے کچھ طبقات میں جن کا تعلق حافظ الاسد کے فرقہ سے بھی نہیں تھا، حافظ الاسد کے ساتھ مستقل دشمنی کی بنیاد رکھ دی جو آج تک برقرار ہے۔
1994 میں حافظ الاسد اپنےبیٹے بشار کو سیاست میں لے آئے، اس وقت بشار ایک آئی سپیشلسٹ سرجن تھے۔
دس جون 2000 کو حافظ الاسد طبعی موت مرے تو ان کے بیٹے بشار کی عمر 34 سال تھی، آئین کے مطابق وہ صدر نہیں بن سکتے تھے۔ بعث پارٹی نے ان کو صدر بنانے کے لئے آئین مین ترمیم کی اور صدر ک بننے کے لیے کم از کم عمر کی حد کو کم کیا گیا۔ حافظ الاسد کے تیس سالہ اقتدار کے بعد بشار الاسد صدر منتخب ہوئے تو پہلے دن ہی ان کی مخالفت شروع ہو گئی۔ دمشق اور دوسرے کئی شہروں میں بائیں بازو کے دانشوروں نے جمہوری اصلاحات کے لئے تحریک چلا دی۔ ستمبر 2000 میں اٹھنے والی اس بظاہر دانشوروں کی تحریک نے کچھ ہی دنوں مین دمشق اور دیگر شہروں کے نوجوانوں کو متوجہ کر لیا اور یہ "دمشق سپرنگ" کے نام سے آگے بڑھنے لگی۔
بشار الاسد جنہیں بعث پارٹی نے کسی دباؤ کے بغیر ملک کا صدر بنایا تھا اس وقت جمہوری آزادیاں دینے کی طرف مائل ہوئے اور انہوں نے کچھ اصلاحات بھی کیں لیکن بعث پارٹی جمہوری آزادیاں دینے کے لئے ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکی کیونکہ شام کے سنی، کرسچین اور دیگر فرقوں کے لوگوں کو طویل عرصہ سے حافظ الاسد کی حکومت سے شکایات تھیں جو زیادہ جمہوری آزادیوں کی صورت مین بڑھ کر کسی تحریک کی شکل اختیار کر سکتی تھیں۔
بعد کے سالوں میں ہوا بھی یہی کہ بشار الاسد اپنی دی ہوئی معمولی جمہوری آزادیوں کو بھی دوبارہ سلب کرنے کی طرف چلے گئے تاہم انہوں نے سوشلسٹ معیشت کی جگہ خاصی حد تک مارکیٹ اکانومی کے نظام کو اپنا لیا، جس سے ان کی حکومت کے ساتھ وابستہ مفادات کے حامل شامی مڈل کلاس طبقہ کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل رہی۔
تب سے آج 8 دسمبر 2024 تک شام میں 58 سال تک اس بعث پارٹی کی حکومت رہی اور54 سال تک قیادت حافظ الاسد اور ان کے بعد ان کے بیٹے بشار الاسد کرتے رہے۔
باغیوں کے دارالحکومت دمشق پر حملے کے بعد۔ جنگجوؤں نے سرکاری ٹیلی ویژن پر جاری ایک بیان میں شہر کو "آزاد" قرار دیا۔ شامی سڑکوں پر جشن منا رہے ہیں۔
شام کی سِول وار کا آغاز
2011 میں شام کے بڑے شہروں میں نوجوانوں نے کرپشن کے خاتمہ اور جمہوری اصلاحات کے مطالبات کے ساتھ تحریک شروع کی جو کچھ ہی عرصہ میں بڑھ کر متشدد احتجاج مین بدل گئی۔ شام بھر میں بظاہر لبرل ڈیموکریٹک مظاہرین نے سڑکوں پر آ کر سیاسی آزادی اور کرپشن کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جس کے جواب میں کچھ روز تحمل کے بعد بشار الاسد کیپولیس نے روزانہ پروٹیسٹ کرنے والوں پر کریک ڈاؤن کیا جس کے نتیجہ میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔ ترکی، امریکہ، یورپ کے بعض ممالک کی ایجنسیاں ان پروٹیسٹ سے پھیلنے والی بے چینی کے دوران اپنا اپنا کھیل کھیلتی رہیں جس کا نتیجہ مسلح گروہوں کی منظم بغاوت کی شمل مین کچھ ماہ مین سامنے آیا۔
بشاور الاسد شام میں شیعہ اقلیت اور بعث پارٹی سے وابستہ عوام کے سوا سارے شام میں غیر مقبول تھے لیکن تہران اور ماسکو میں انہیں غیر معمولی اہمیت ہمیشہ حاصل رہی کیونکہ ان دونوں ممالک کے پیچیدہ مفادات عرصہ سے ان کی حکومت کے ساتھ وابستہ تھے۔ ایران اور روس دونوں نے عملی مسلح بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لئے بشار الاسد کی مدد کی۔ اس مدد کے سبب ہی وہ کئی سال تک مسلح بغاوت کرنے والے کئی گروہوں اور تنظیموں کے مقابل برقرار رہے۔ شام کے متعدد علاقے وقتاً فوقتا بشار الاسد کے کنٹرول سے نکلتے رہے، بعض علاقوں کا کنٹرول انہیں کچھ عرصہ بعد واپس مل گیا، اس مسلح بغاوت کے دوران شام میں دولت اسلامیہ العراق والشام / داعش/ Islamic State of Iraq and Syria وجود میں آئی جس کے متعلق کہا گیا کہ یہ دراصل القاعدہ کے کارکنوں کی بنائی ہوئی ایک متشدد جہادی تنظیم ہے۔ داعش نے کچھ عرصہ تک بشار الاسد کے خلاف برے پیمانے پر جنگی کارروائیاں کیں اور اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا، لیکن بعد میں زیادہ طالمانہ طرز عمل کے سبب یہ تنظیم دہشتگرد قرار پائی اور امریکہ، یورپ اور روس سبھی اس تنظیم کے صفایا پر متفق ہو گئے۔
داعش کے خاتمہ کے لئے پہلی مرتبہ روس اور امریکہ نے الگ الگ لیکن ایک ہی ہدف کے خلاف آپریشنز میں حصہ لیا۔
کئی سال کی کش مکش کے دوران داعش کو ختم کرنے کے لئے ایران کے زیر زثر دنیا بھر سے شیعہ کارکنوں کے مسلح دستے شام پہنچے، ان میں لبنان کی حزب اللہ کے کارکن بھی شامل تھے۔ ان کارکنوں نے طویل عرصہ تک داعش کا مقابلہ جرنے کے ساتھ بشار الاسد کی ھکومت کو سہارا دینے میں کچھ کردار ادا کیا،
جب امریکہ ، روس اور خود بشار الاسد کی فوج کی مسلسل کوشش سے داعش ختم ہو گئی، دوسرے اپوزیشن گروپ کمزور ہو گئے تو دنیا بھر سے آئے ہوئے بہت سے لوگ اپنے علاقوں میں واپس چلے گئے۔
2021 میں عملاً امن قائم ہو جانے کے بعد بشار الاسد چوتھی بار صدر منتخب ہوئے۔اور سرکاری نتائج کے مطابق انہیں 95 فیصد ووٹ ملے۔
2022-2023 کے دوران بشار نے شام کے اندر حالات معمول پر لانے کی کوششیں کرنے کے ساتھ ہمسایہ یاستوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی نئی کوششیں کیں۔ عرب ریاستوں نے برسوں بعد بشار الاسد کی حکومت سے تعلقات بحال کرنا شروع کیے حتیٰ کہ 2023 میں شام کو ایک بار پھر عرب لیگ میں شامل کرلیا گیا۔
اس دوران حماس اور اسرائیل کی آویزش نے پہلے غزہ جنگ، اس کے ایک سال بعد حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ اور آخر کار ایران اور اسرائیل کی جنگ کو جنم دیا۔ ان تمام جنگوں سے حماس، حزب اللہ اور ایران کو اپنی اپنی جگہ نقصان تو ہوا ہی لیکن اس کا سب سے خوفناک نقصان شام میں بشار الاسد کی حکومت کو ہوا۔ ایران کے شام میں موجودگی کم کر کے لبنان کی طرف متوجہ ہونے کے دوران شام میں داعش کی باقیات اور بشار کے دیگر مخالف گروہ دوبارہ منظم ہوئے۔
ستائیس نومبر سے آٹھ دسمبر تک دس دن
ستائیس نومبر کو جب دنیا حزب اللہ اور اسرائیل کی لبنان میں جنگ بند ہونے کا مشاہدہ کر رہی تھی تو شام میں نیا کھیل شروع ہو چکا تھا جس کے نتیجہ میں صرف دس دن میں بشار الاسد کا ملک بھر پر کنٹرول ختم ہو گیا اور آج 8 دسمبر کو دارالحکومت دمشق بھی "ہئیتِ تحریر الشام" اور دیگر مسلح گروہوں کے کارکنوں کے کنترول میں چلا گیا۔
بشار الاسد کے بارے مین ہفتے اور اتوار کے روز مسلسل افواہین اڑتی رہیں تاہم اتوار کی شام روسی حکام نے یہ واضح کیا کہ بشار الاسد حفاظت کے ساتھ شام سے باہر پہنچ چکے ہیں اور محفوظ ہیں۔
ان دس دنوں کے دوران امریکی اور یورپی میڈیا نے ماضی کے جہادی گروہوں کی باقیات سے جنم لینے والی "ہئیتِ تحریر الشام" کے ابھار کو حیرت ناک واقعہ قرار دیا۔انہوں نے چند دنوں میں حمص اور حماہ جیسے اہم شہروں پر قبضہ کیا اور حلب شہر پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا۔
شام کی تیرہ سال سے جاری خانہ جنگی کے نتیجے میں 3 لاکھ 88 ہزار سے زائد اموات ہوئیں جبکہ ایک کروڑ 20 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوگئے۔ آج اس خانہ جنگی کا بظاہر ایک فیز ختم ہوا ہے لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ صرف بشار الاسد کے دمشق سے نکل جانے سے مکمل امن کیونکر ہو سکے گا۔
الاسد خاندان کے اقتدار کا سورج ڈوب گیا کیا خانہ جنگی بھی ختم ہو گی؟
شام میں 13 سال کی خانہ جنگی کے بعد، کون سوچتا ہے کہ شامی "جنگجو" اب آرام کریں گے، ہتھیار ڈالیں گے اور خطے میں ایران کے سوا اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ امن، خوشحالی اور استحکام کی جانب طویل عمل کا آغاز کریں گے؟
بعث پارٹی کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے والے گروہوں میں دروز کرسچین گروہ بھی شامل ہے اور جہادی کے ساتھ داعش کی باقیات میں سے ابھرنے کی شناخت رکھنے والا "ہئیتِ التحریر" گروہ بھی ہے، ان میں بائیں بازو کے بعث سے ناراض دانشور اور ان کی نئی نسل بھی شامل ہیں اور سنی بیک گراؤنڈ کی اخوان المسلمون کے مقتولوں کی نئی نسل کے لوگ بھی ہیں، ان کے ساتھ مغربی جمہوریت کی چربہ جمہوریت شام مین دیکھنے کے خواہاں لبرل ڈیموکریٹ بھی ہیں۔ کیا یہ سب گروہ خود کو جوڑنے والے بشار الاسد فیکٹر کے معدوم ہو جانے کے بعد بھی باہم جڑ سکیں گے؟
حافظ الاسد اور ان کے بیٹے بشار الاسد کا تعلق شام کے اقلیتی شیعہ فرقہ "علوی" سے ہے۔ دونوں عملاً غیر مذہبی تھے اور آسانی سے مختلف العقیدہ گروہوں کو اپنے ساتھ جمع کر لیتے تھے، ان کے پشت پناہ ایرانی علما کے زیر اثر اثنا عشری سیعہ کمیونٹی ان کی حمایت کرتی تھی اور سوویت یونین اور بعد ازاں روس کے زیر اثر بائیں بازو کے ہر رنگ کے شامی بھی ان کی حمایت کرتے تھے، انہیں شامل کرسچین کمیونٹی کی مدد بھی حاصل رہتی تھی، شام کے کرد علاقوں میں مقیم کرد ان کے ساتھ کسی نہ سکی سبب سے سمجھوتے مین انگیج رہتے تھے اور خالص قوم پرست شامیوں کے لئے بھی وہ قابل قبول بن جاتے تھے، اس مرکز کے ہٹنے کے بعد دمشق کی مرکزیت کو تمام کمیونٹیز کیلئے قابلِ قبول بنانے کے لئے تمام کمیونٹیز کے مفادات کو بیک وقت لے کر چلنے کی کیپیسٹی رکھنے والا سیاسی آرگن یعنی جماعت اب تک سامنے نہیں، ایسی جماعت راتوں رات بن بھی نہیں سکتی،۔
روس اور ایران شام میں طاقت کے توازن کے دو اہم فیکٹر رہےہیں۔ یہ دونوں بشار الاسد اور بعث پارٹی کے مہمان کی حیثیت سے خانہ جنگی کے وار تھیٹر میں اب تک موجود رہے ہیں۔ اب بشار کی دمشق سے بے دخلی کے بعد روس تو کسی طرح اپنی مخصوص ائیر بیسز تک موجودگی برقرار رکھ سکے گا لیکن ایران کو رخصت ہونا پڑے گا، طاقت کے خلا کو کون پر کرے گا اور اس خلا کی موجودگی کے نئے شام کی تشکیل میں کیا مضمرات ہوں گے۔
امریکہ کا نیا صدر 20 جنوری سے وائٹ ہاؤس سنبھالے گا، تب تک ڈیموکریٹ صدر جو بائیڈن شام کی نئی سورتحال میں کیا کردار ادا کریں گے اور 20 جنوری کے بعد ٹرمپ یہاں کیا کرے گا یہ الگ سے ایک معمہ ہے کیونکہ ٹرمپ نے گزشتہ دو دن میں دو بار یہ کہا ہے کہ انہیں شام کی سورتحال سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لیکن کیا یہ واقعی ممکن ہے کہ امریکہ کا دیرینہ مخالف ایران مشرق وسطیٰ کے اہم ترین سٹریٹیجک علاقہ میں اپنے مورچے چھوڑ رہا ہو اور امریکہ اس عمل سے لاتعلق رہے۔
ترکی کے متعلق گزشتہ دس روز سے یہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں کہ شام کی بغاوت کے سب سے طاقتور دھڑے پر ترکی کا اثر ہے، اب تک ترکی نے اس اثر کا کوئی دکھائی دینے والا اظہار نہیں کیا، لیکن اگر واقعی ترکی بشار الاسد کے بعد کے شام میں کوئی کردار حاصل کرتا دکھائی دے گا تو کیا امریکہ اسے خٓموشی سے دیکھتا رہے گا اور کیا شام کی سرحد سے متصل اسرائیل اس صورتحال میں صرف گولان ہائیٹس کے بفر زون مین اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کی حد تک ہی محدود رہے گا۔ ایسے ان گنت سوالات کو آنے والے چند دنوں میں اَن فولڈ ہونا ہے اور ان کے جوابات تلاش کرنے میں دن نہیں بلکہ ہفتے اور مہینے لگ سکتے ہیں۔ شام میں طاقت کا خلا اسے عراق جیسی پیچیدہ صورتحال سے بھی دوچار کر سکتا ہے اور نسبتاً بہتر جمہوری شام کی تعمیر کی طرف بھی جانے کا موہوم ہی سہی امکان بہرحال زندہ ہے، اس کے متوازی مفروضہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی افغان طالبان جیسی یا اس سے بھی بری بنیاد پرست ریجیم کا ابھرنا ہے۔
صدر جو بائیڈن کا بیان
یہ بلاگ پوسٹ کئے جانے کے بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا شام کی سورتحال پر بیان آ گیا جس میں انہوں نے اس بلاگ میں اخذ کئے گئے نتائج کی تصدیق کی اور اعتراف کیا کہ شام میں 'غیر یقینی صورتحال' کا لمحہ درپیش ہے۔
صدر بائیڈن نے کہا الاسد کا زوال بھی "خطرے اور غیر یقینی صورتحال کا لمحہ ہے کیونکہ ہم سب اس سوال کی طرف متوجہ ہیں کہ آگے کیا ہوگا"۔
انہوں نے کہا کہ "امریکہ شام میں اپنے شراکت داروں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر کام کرے گا تاکہ انہیں خطرے سے نمٹنے کے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں مدد ملے"۔
صدر بائیڈن نے مزید کہا کہ "برسوں سے اسد کے اصل حمایتی ایران، حزب اللہ اور روس رہے ہیں، لیکن گزشتہ ہفتے کے دوران، ان کی حمایت ختم ہو گئی، یہ تینوں، کیونکہ یہ تینوں آج اس وقت سے کہیں زیادہ کمزور ہیں جب میں نے اقتدار سنبھالا تھا۔" .
"اور آئیے یاد رکھیں کہ کیوں: حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کرنے کے بعد، جب دنیا کے بیشتر ممالک نے خوف کے ساتھ جواب دیا، ایران، اس کے پراکسیوں نے اسرائیل کے خلاف کثیر محاذ جنگ شروع کرنے کا انتخاب کیا اور یہ ایران کی طرف سے ایک تاریخی غلطی تھی،" بائیڈن نے مزید کہا۔ .
"آج ایران کی اہم علاقائی پراکسی حزب اللہ بھی اس کی پشت پر ہے۔"