مرکز برائے انسانی حقوق ، این ایچ سی آر اور مساوی کا مشترکہ تشخیصی مطالعہ کیا جس کے مطابق نکاح رجسٹرار میں شادی کے حقوق کے بارے میں آگاہی کے فقدان کا انکشاف کیا گیا ہے ۔
خواتین کی شادی کے حقوق کے بارے میں ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ لاہور میں 86 فیصد نکاح رجسٹرار کا خیال ہے کہ دلہن اپنے نکاح نامے کی شرائط پر بات چیت کرنے کی اہل نہیں ہےجبکہ 85 فیصد کا خیال ہے کہ نکاح نامے میں طلاق کا حق خواتین کو سونپے جانے سے طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا اور 92 فیصد کا خیال ہے کہ بیوی کی کفالت کا حق اس کے شوہر کی اطاعت سے مشروط ہے۔
یہ اعداد و شمار منگل کو ”پنجاب میں نکاح ناموں کے تشخیصی مطالعہ: خواتین کے شادی کے حقوق کا جائزہ (تشخیصی مطالعہ)“ کو لانچ کئے جانے پر سامنے آئے ۔ یہ مطالعہ مرکز برائے انسانی حقوق (CFHR) نے مساوی اور قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے اشتراک سے کیا تھا ۔
اس مطالعے میں خواتین کے شادی کے حقوق کی حیثیت کا جائزہ لیا گیا تاکہ موجودہ قانون سازی اور ادارہ جاتی فریم ورک میں موجود خلاء کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے جو پنجاب میں خواتین کی شادی کے حقوق تک رسائی اور ان پر عمل درآمد میں رکاوٹ کا سبب بن رہا ہے ۔ اس مطالعے میں 1100 نکاح ناموں کا جائزہ لیا گیا اور پنجاب کے (2020- 2021 کے دوران) 2 پائلٹ اضلاع کی 14 یونین کونسلز بشمول لاہور اور پاکپتن میں 105 نکاح رجسٹراروں کا انٹرویو کیا گیا اور اس کے علاوہ متعلقہ قانون سازی اور عمل درآمد کے فریم ورک کا تجزیہ کیا گیا۔
مطالعہ کے ذریعے جن اہم مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں موجودہ قوانین جیسے کہ پنجاب مسلم فیملی لاز ترمیم 2015، جو کہ نکاح ناموں کے کالموں کو کراس کرنے یا انہیں خالی چھوڑنے پر پابندی ہونے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنا ، شادی کے حقوق اور قوانین سے متعلق نکاح رجسٹرار کے تصورات، عقائد، تفہیم محدود ہونا اور ان میں نکاح کی درستگی کے بارے میں ناکافی سمجھ ہونا اور نکاح نامے کے فارمیٹ ، شقوں میں تضادات ، شادی کے اہم حقوق تک رسائی نہ ہونا شامل ہے ۔
پاکپتن میں تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 58 فیصد نکاح ناموں میں دلہن کے شناختی کارڈ کی تفصیلات غائب تھیں اور 23 فیصد میں دلہن کی عمر درج نہیں تھی۔ صرف 8 فیصد نے ماہانہ الاؤنس کا حق شامل کیا اور 2 فیصد نے بیوی کو طلاق کا حق دیاہے ۔
پاکپتن میں نکاح رجسٹرار کے سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ 60 فیصد لوگ شادی کے مقاصد کے لیے جبر کے تحت دی گئی رضامندی کو درست سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 58 فیصد نکاح رجسٹرار کا خیال ہے کہ نکاح کے لیے حق مہر لازمی شرط نہیں ہے، 6 فیصد کا خیال ہے کہ اگر سرپرست اجازت دے بچپن کی شادی قانونی طور پر جائز ہے اور 40 فیصد کا خیال ہے کہ حق مہر واحد ملکیت نہیں ہے۔ 78 فیصد کا خیال ہے کہ خواتین کا کام کرنے کا حق شوہر کی اجازت سے مشروط ہے اور 61 فیصد کا خیال ہے کہ خواتین کو طلاق یا خلع لینے کا آزادانہ حق نہیں ہے۔
لاہور میں 15 فیصد نکاح ناموں میں دلہن کے شناختی کارڈ کی تفصیلات نہیں تھیں ، 26 فیصد نکاح ناموں میں شناختی کارڈ کی تفصیلات کے لیے کوئی کالم نہیں تھا، 9 میں دلہن کی عمر درج نہیں تھی اور 31 نکاح نامے معیاری فارم سے مختلف تھے۔ صرف 9.7 فیصد نکاح ناموں میں ماہانہ الاؤنس کا حق دیا گیا اور 3 فیصد نے بیوی کو طلاق کا حق دیا۔
رجسٹراروں کے ساتھ کیے گئے سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے 67 فیصد کا خیال یہ ہے کہ خواتین کا کام کرنے کا حق شوہر کی اجازت سے مشروط ہے، 26 فیصد نے دلہن کی مرضی سے زیادہ سرپرست کی رضامندی کو اہم سمجھا، 83 فیصد نے حق مہر کو شادی کے لیے لازمی نہیں سمجھا۔ 55 فیصد کا خیال تھا کہ حق مہر بیوی کی واحد ملکیت نہیں ہے اور 64 فیصد نکاح رجسٹرار سمجھتے تھے کہ طلاق یا خلع لینے کا خواتین کا آزادانہ حق نہیں ہے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے عائلی قوانین کی ماہر سینئر وکیل طاہرہ حسن نے کہا کہ خواتین کے شادی کے حقوق کے تحفظ میں قانون سازی کی کمی نہیں بلکہ ثقافتی اور سماجی رکاوٹیں حائل ہیں جو ان حقوق کے حصول میں رکاوٹ ہیں۔
سی ای اومساوی فاطمہ یاسمین بخاری نے کہا کہ نکاح نامہ پر ہونے والی یہ اسٹڈی خواتین کے شادی کے حقوق پر بات چیت کا نقطہ آغاز ہے۔ اگر نکاح نامے کو صحیح طریقے سے سمجھا اور بھرا جائے تو یہ خواتین کے لیے ضروری تحفظات فراہم کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ نکاح نامے کے ہمارے جائزے سے نکاح نامے میں زیادہ تر کالموں کا انکشاف ہوا جو خواتین کے حقوق سے متعلق تھےجیسے ماہانہ کفالت اور طلاق کا حق وغیرہ ۔
چیئرپرسن این سی ایچ آر رابعہ جویری آغا کا اس موقع پر کہنا تھا کہ یہ مطالعہ ملک بھر میں نکاح ناموں کی شقوں اور خواتین کے شادی کے حقوق کے بارے میں علم اور آگاہی کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگا۔ عام طور پر نکاح کے وقت جو کالم کراس کیے جاتے ہیں وہ دراصل شادی میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کے ضامن ہوتے ہیں ۔ مطالعہ کے نتائج شادی کے قانون کے مؤثر نفاذ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں جو نکاح رجسٹرارز کو نکاح نامے کے کالموں کو بھرنے کے لیے پابند کرتے ہیں ۔
مطالعہ کے مصنف سیویم سعادت کا کہنا تھا کہ نکاح نامے میں اہم گمشدہ معلومات قانون کے نفاذ کے لیے میں رکاوٹ کھڑا کرتی ہیں مثال کے طور پرجہاں نکاح نامہ میں دلہن کی عمر یا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ نمبر نہیں لکھا گیا ہےوہاں اس بات پر شدید تشویش ہے کہ یہ شادی بچوں کی شادی ہو سکتی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس جواد حسن نے کہا کہ نکاح نامہ فریقین کے حقوق پر مشتمل معاہدہ ہے۔ پاکستان کی عدالتوں نے یہ بات پوری طرح واضح کر دی ہے۔مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ یہ مطالعہ کافی اہم ہے کیونکہ یہ ایک دستاویزہے جو نکاح نامے کا تجزیہ کرتا ہے، جسے عام طور پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے ۔یہ مطالعہ افراد، خاندانوں اور نسلوں کی قسمت کا تعین کرے گا ۔
صوبائی وزیر برائے ترقی نسواں، سندھ شہلا رضانے کہا کہ نکاح نامہ کم عمری کی شادی کے غیر قانونی عمل کو روک سکتا ہے۔ اس کے ذریعے بچوں کی شادی کے قانون کو مکمل طور پر لاگو کیا جاسکتا ہے ۔