ویب ڈیسک : تحریک انصاف کو بڑا دھچکا۔۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نےمحفوظ فیصلہ سناتے ہوئے پیکا آرڈیننس کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
میڈیا انڈسٹری کیلئے بڑی خبر۔۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ایکٹ میں ہتک عزت کے تحت سزا بھی خلاف آئین قرار دے دی۔ پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 ہتک عزت کی حد تک خلاف آئین قرار۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے چار صفحات پر مشتمل مختصر فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہےکہ پیکا ترمیمی آرڈی نینس کا نفاذ غیر آئینی ہے اس لیے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔وفاقی حکومت سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہتک عزت کے قوانین کا جائزہ لے۔
فیصلہ کے مطابق اظہار رائے کی آزادی ایک بنیادی حق ہے۔ اظہار رائے اور معلومات تک رسائی کا حق معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے حق کو دبانا غیر آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی ہے۔پیکا ترمیمی آرڈی نینس کو آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19-A کی خلاف ورزی میں نافذ کیا گیا۔توقع ہے کہ وفاقی حکومت ہتک عزت آرڈیننس 2002 کو موثر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو مناسب قانون سازی کی تجویز دے گی۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کیخلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
قبل ازیں پیکا ترمیمی آرڈیننس کیخلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران ایف آئی اے حکام کی جانب سے رپورٹ جمع کروائی گئی۔ جس پرچیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کوئی تو جواب دے ، لوگوں کے حقوق پامال ہو رہے ہیں، ایف آئی اے نے عدالت کے سامنے ایس او پیز رکھے اور ان کو پامال بھی کیا گیا، آپ نے ایس او پیز کی پامالی کی اور کیسز میں سیکشن لگائے جو لگتے ہی نہیں، صرف اس لئے لگائے گئے تاکہ عدالت سے بچا جا سکے، یہ بتا دیں کہ کیسے اس سب سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے مؤقف اپنایا کہ قانون بنا ہوا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کیلئے پریشر آتا ہے۔چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے پوچھا کہ آپ نے کسی عام آدمی کیلئے ایکشن لیا؟ لاہور میں ایف آئی آر درج ہوئی اور اسلام آباد میں چھاپہ مارا گیا۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے بابر بخت قریشی نے عدالت کو بتایا کہ ہم ایف آئی آر سے قبل بھی گرفتاری ڈال دیتے ہیں، پھر اس سے برآمدگی پر ایف آئی آر درج کرتے ہیں، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ کیسے گرفتار کر سکتے ہیں؟ کس قانون کے مطابق گرفتاری ڈال سکتے ہیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئےکہ آپ اپنے عمل پر پشیماں تک نہیں اور دلائل دے رہے ہیں ،کسی کا تو احتساب ہونا ہے، کون ذمہ دار ہے آج آرڈر کرنا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جرنلسٹ کی نگرانی کی جارہی ہے، یہ ایف آئی اے کا کام ہے کیا؟۔ڈائریکٹر ایف آئی اے نے بتایا کہ بلال غوری کے علاوہ باقی سب کی انکوائری مکمل ہو چکی ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ بلال غوری نے وی لاگ کیا تھا اور کتاب کا حوالہ دیا تھا، کارروائی کیسے بنتی ہے؟چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ملک میں کتنی دفعہ مارشل لا لگا یہ تاریخ ہے، لوگ باتیں کریں گے۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد پیکا ترمیمی آرڈیننس پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔