عمر ایوب کا استعفیٰ منظور، پی ٹی آئی میں قیادت کا خلا مزید گہرا ہو گیا

7 Sep, 2024 | 10:34 PM

وسیم عظمت :  پی ٹی آئی دیگر مسائل  کے ساتھ اس وقت مرکزی سیکرٹری جنرل، سنٹرل فنانس بورڈ کے چئیرمین  اور پنجاب کے صدر سے بھی محروم ہے۔ عمر ایوب کا استعفیٰ پی ٹی آئی کے بانی منظور کر چکے ہیں اور نیا سیکرٹری جنرل اب تک سامنے نہیں آیا۔ اس دوران چند افراد پارٹی کا  8 ستمبر کو جلسہ کروانے  کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ چند  افراد بھی گروہوں مین تقسیم ہیں اور ان کی ای کدوسرے کے خلاف شکایات اور کھینچا تانی کی اطلاعات مسلسل سامنے آ رہی ہین۔ عملاً پی ٹی آئی اسلام آباد کےے نواح میں ایک  جلسہ کروانے کی کوشش کے سوا پارٹی فی الحال کوئی دوسرا کام نہیں کر  پارہی۔  
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے تصدیق کی ہے کہ پی ٹی آئی  کے بانی عمران خان نے پارٹی کے سیکریٹری جنرل کے عہدے سے ان کا استعفیٰ قبول کر لیا ہے۔ عمر ایوب نے یہ بھی بتایا کہ وہ کوئی دوسرا عہدہ لینے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور  اب وہ پارٹی کے  ایک کارکن کی حیثیت سے کام کریں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عمر ایوب کا استعفیٰ منظور ہونے کے بعد  عمران خان کے وکیل سے گزشتہ چند مہینوں میں سیاستدان بن جانے والے سلمان اکرم راجہ کو سیکریٹری جنرل کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ سلمان اکرم راجا  نے پہلےکسی سیاسی جماعت میں کام نہیں کیا۔

 عمر ایوب نے 22 جون کو پی ٹی آئی کے سینٹرل فنانس بورڈ کے چیئرمین اور سیکریٹری جنرل کے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی وجہ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے اضافی ذمہ داریوں کا بوجھ بتایا تھا۔

تاہم پی ٹی آئی کے کچھ اہم رہنماؤں کت سرمین اختیارات کی کھینچا تانی اور عمر ایوب کو کارنر کر دیئے جانے کو ان کے عہدوں  سے استعفے کی وجہ قرار دیا گیا تھا۔

عمر ایوب کے اس اقدام کے جواب میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی نے تو عمر ایوب خان پر اعتماد کا اظہار کیا تھا اور ان پر زور دیا تھا کہ وہ پارٹی میں اپنے عہدے پر کام جاری رکھیں لیکن جس گروپ سے ان کے اختلافات تھے وہ اختلافات وہیں کے وہیں رہے اور کسی نے ان کو دور کرانے یا سمجھوتہ کروانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل اس وقت پی ٹی آئی مین کوئی ایسی شخصیت ہے ہی نہیں جو عمر ایوب اور ان کو کارنر کرنے والے گروپ کے درمیان مصالحت کروانے کی اہلیت اور طاقت رکھتی ہو۔۔

پی ٹی آئی مین پاور گروپس کے درمیان کھینچا تانی اس وقت بھی سامنے آئی جب کل جمعہ کے روز اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی کے بانی کی یہ ہدایت سامنے آئی کہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو کمزور کرنے کی کوششیں بند کی جائیں۔ اڈیالہ جیل میں اپنے خلاف نیب کیس کی سماعت کے دوران عمران خان نے صحافیوں سے باتین کرتے ہوئے کہا کہ مجھے علی امین گنڈاپور پر اعتماد ہے، اسے کمزور کرنے کی کوشش  نہ کی جائے۔ 

اس تناظر میں جب  عمر ایوب نے اپنا استعفیٰ منطور ہونے کا اعلان کیا تو کسی کو اس پر حیرت نہیں ہوئی۔

ہفتہ کے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں عمر ایوب خان نے انکشاف کیا  کہ میں سابق وزیراعظم عمران خان کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے 4 ستمبر 2024 کو پیش کیا گیا میرا استعفیٰ قبول کرلیا ہے۔

عمر ایوب نے بتایا کہ انہوں نے 5 ستمبر (جمعرات) کو   اپنے ساتھی اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز سے درخواست کی تھی کہ وہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان تک ان کا استعفیٰ پہنچائیں۔

انہوں نے یاد دلایا کہ انہوں نے اس سے پہلے 22 جون کو استعفیٰ دے دیا تھا لیکن اسے قبول نہیں کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالنا، اپنی قانونی لڑائی لڑنا اور قومی اسمبلی میں جس حلقے کی نمائندگی کرتا ہوں اس کے مسائل کو دیکھنے کی وجہ سے ان پر بہت زیادہ کام کا بوجھ ہے۔

انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے کارکن کی حیثیت سے 8 ستمبر کو ہونے والے پارٹی کے اسلام آباد جلسے کو ضرور کامیاب بنائیں گے۔

عمر ایوب نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ پارٹی کے نئے سیکرٹری جنرل کے لیے نیک خواہشات ہیں، میں وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے نئے سیکرٹری جنرل کے ساتھ کارکن کی حیثیت سے کام کرتا رہوں گا۔

گزشتہ ماہ پی ٹی آئی کے رہنما حماد اظہر نے بھی عمران خان تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے دوسری مرتبہ پارٹی کی پنجاب برانچ کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اس اہم عہدہ سے حماد اظہر کے ہٹنے کے بعد لاہور اور کئی دیگر شہروں میں حماد اظہر کے تمام ساتھی لیْڈر اور اہم کارکن بھی پارٹی کی سیاست سے پیچھے ہٹ گئے۔ اس وقت عملاً  چند افراد پر مشتمل گروپ پی ٹی آئی کو پنجاب میں غیر منظم طریقہ سے تحرک کرنے کے جتن کر رہا ہے۔ اس مشکل کام مین ناکامی کا جزوی اعتراف کل جمعہ کے روز اس وقت سامنے آیا جب پارٹی کے اہم رہنما شوکت بسرا نے یہ بتایا کہ پنجاب کے کارکنوں کو یہ ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ 8 ستمبر کے جسلہ میں اپنے طور پر کوشش کر کے پہنچیں، کوئی گروپ بنا کر یا جلوس لے کر اسلام آباد جانے کا کوئی پروگرام نہیں۔ 

مزیدخبریں