اللہ جب دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کردیتا ہے اور یہی کچھ پاکستان کے ساتھ بھی ہوا ہے بہت ہی موقر ذرائع نے اتنا بڑا انکشاف کیا ہے کہ خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی ۔ وہ جو فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ؎
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
کچھ ایسی ہی کیفیت ہے اس وقت میری کہ پاکستان کے سمندروں سے خزانہ ملا ہے اور خزانہ بھی کوئی کم نہیں دنیا کا چوتھا بڑا آئل گیس کاذخیرہ ملا ہے اور یہ خیالی کتابی بات نہیں ہے یہ حقیقت ہے کہ تین سال قبل جس دریافت کا آغاز کیا گیا تھا وہ مل گئی ہے، آپ کو یاد ہوگا کہ سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف نے بھی ایک ایسا ہی دعویٰ کیا تھا لیکن پھر پتھر ہٹانے سے اُس دعوے کی ’ہوا ‘خارج ہوگئی تھی لیکن اب کے بار ایسا نہیں ہوا وزارت آئل و گیس نے کنفرم کیا ہے کہ ایک دوست ملک (چین ہوسکتا ہے ) کہ ساتھ مل کر پاکستان کے سمندروں کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان کے گہرے نیلے سمندروں میں وہ خزانہ دریافت ہوا ہے جو دنیا کا چوتھا بڑا آئل گیس فیلڈ ہے ۔
یہ خزانہ جسے " بلیو واٹر اکانومی" کہا گیا ہے اتنا بڑا ہے کہ اس سے نا صرف ملکی ضروریات پوری ہوں گی بلکہ پاکستان آئل اور ایل این جی بیرون ملک بیچ بھی سکے گا ، تحقیقی اور بنیادی کام ہوچکا اب اسے نکالنے کا مرحلہ ہے،ایک اندازے کے مطابق اس خزانے کو حاصل کرنے کے لیے چار سے پانچ ارب ڈالر درکار ہوں گے اور چار سے پانچ سال ہی کا وقت درکار ہوگا جس کے بعد پاکستان سمندر سے تیل نکالنے اور اسے بیرون ملک بیچنے والا چوتھا بڑا ملک ہوگا ، اس وقت دنیا میں آئل گیس کے سب سے بڑے ذخائر امریکا کے پاس ہیں لیکن اُس نے ان سے نہ گیس حاصل کی ہے نہ تیل ظاہر ہے امریکا کاغذ کے نوٹ چھاپ کر یہ دونوں توانائیاں بیرونی دنیا سے خرید رہا ہے اور خود اسے اپنے مستقبل کے لیے بچا رہا ہے ، دنیا میں اس وقت جو بڑے آئل پروڈیوسر ممالک ہیں اُن میں وینزویلا پہلے نمبر پر ہے جس کے پاس اس سیال مادے کے ذخائر سے سالانہ تین چار ارب بیرل تیل نکلتا ہے جبکہ اس کے بعد سعودی عرب ، پھر ایران ، کینڈا اور عراق کا نمبر آتا ہے اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ پاکستان کے پاس چوتھے بڑے زکائر ہوں گے تو کون کس نمبر پر جائے گا ۔
ملنے والے ذخائر کے لیے ابھی چار سے پانچ سال کا وقت درکار ہے اور چار سے پانچ ارب خرچ ہوں گے اس خزانے کو ملنے کو " بلیو واٹر اکانومی " کہا جارہا ہے اس سے اندازہ لگالیں کہ یہ ساحل کراچی کے نہیں اُن سمندروں میں چھپا ہوا ہے گوادر کے قریب ہے یہ وہ روٹ ہے جہاں سے دنیا کا چالیس فیصد آئل گزرتا ہے،اس سے اس جگہ کی اہمیت کا اندازہ لگا لیں کہ یہاں سے آئل ملنے کی صورت میں دنیا کو کتنا سستا کروڈ آئل میسر ہوگا اور پاکستان ایل این جی میں بھی خود کفیل ہوجائے گا ، اچھے دن آنے والے ہیں لیکن ہمیں اپنے بلوچستان کے ساحلوں اور علاقوں پر گہری نظر رکھنا ہوگی ، بلوچستان میں غیر ملکی طاقتون کی سپانسرڈ دہشت گردی بلا وجہ نہیں ہے انہیں اندازہ ہے کہ پاکستان دفاعی طور پر تو خود کفیل ہے اگر معاشی طور پر بھی مضبوط ہوگیا تو دنیا کو ایک سپر پاور اور اسرائیل ، بھارت گٹھ جوڑ کو بڑا دھچکہ پہنچے گا ، چین کو اپنے ہماسئے میں ایک مضبوط دوست میسر ہوگا جو اس کی تیز رفتار ترقی کی حفاظت اور ترسیل میں بڑی پیش رفت کا باعث بنے گا۔