ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

 "صیہونیت کی تبلیغ" اور "صیہونیت کے نشان" کی نمائش سنگین جرم؛ حکومتی سینیٹر کا مسودہ قانون منظور

 
کیپشن: جمعرات 7 ستمبر  کو سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ میں متعدد بل زیر غور آئے، جن میں سے ایک حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان کی جانب سے پیش کیا گیا کرمنل لا ترمیمی بل بھی تھا۔ اس بل میں "صیہونیت" اور "صیہونی نشانات" کو نفرت پھیلانے کا باعث قرار دیتے ہوئے صیہونیت کے پرچار اور صیہونی نشانات کی نمائش کرنے پر سخت سزائین تو تجویز کی گئی ہیں لیکن نہ "صیہونیت" کی کوئی مستند ڈیفینیشن بتائی گئی نہ ہی "صیہونی نشانات" کی واضح نشاندہی کی گئی جن کی نمائش سے نفرت پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: پاکستان کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا سینیٹ کی ایک سٹینڈنگ کمیٹی  نےصیہونیت (Zionism) کی تبلیغ کر کے معاشرے میں نفرت پیدا کرنے پر تین سال قید اور صیہونیت کی علامت ( نشان)  کی نمائش کر کے  بدامنی پیدا کر نے پر دو سال قید کی سزا کا بل منظور کر لیا ہے۔

جمعرات 7 ستمبر  کو سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ میں متعدد بل زیر غور آئے، جن میں سے ایک حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے سینیٹر افنان اللہ خان کی جانب سے پیش کیا گیا کرمنل لا ترمیمی بل بھی تھا۔اب تک میڈیا میں رپورٹ ہونے والی اطلاعات کے مطابق  اس بل میں "صیہونیت" اور "صیہونی نشانات" کو نفرت پھیلانے کا باعث قرار دیتے ہوئے صیہونیت کے پرچار اور صیہونی نشانات کی نمائش کرنے پر سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں لیکن نہ "صیہونیت" کی کوئی مستند ڈیفینیشن بتائی گئی نہ ہی "صیہونی نشانات" کی واضح نشاندہی کی گئی جن کی نمائش سے نفرت پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔

سٹینڈنگ کمیٹی برائے داخلہ کے سینیٹر فیصل سلیم رحمٰن کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس کے دوران مسلم لیگ نون کے سینیٹر افنان اللہ خان نے "صیہونیت کی تبلیغ " کے امتناع سے متعلق بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں اس وقت صیہونیت کی ذہنیت اور نظریات ہیں۔

مسلم لیگ نون کے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا: ’صیہونیت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جو آپ سے اتفاق نہ کرے انہیں قتل کر دو۔ یہ اس نظریے کے تحت غزہ میں بچوں کو شہید کر رہے ہیں۔‘

سینیٹر افنان  اللہ خان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’صیہونیت کی تبلیغ اور ان کے نشان پر پاکستان میں پابندی لگائیں گے۔" حکومتی پارٹی کے سینیٹر نے دعویٰ کیا کہ " پاکستان میں بھی صیہونیت کے نظریات کے حامل افراد موجود ہیں۔‘

اجلاس کے دوران کمیٹی کے کسی رکن یا وزارت داخلہکے نمائندہ  کی جانب سے اس بل کی مخالفت نہیں کی گئی اور بعدازاں اسے منظور کر لیا گیا۔ اب یہ بل کسی وقت سینیٹ کے اجلاس میں منظوری کے لئے پیش کیا جا سکے گا جہاں اس پر ووٹنگ کروائی جائے گی۔ سینیٹ سے منطور ہو گیا تو اس بل کو ققومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، وہاں سے بھی منظوری کے بعد اسے قانون کا درجہ مل جائے گا۔ 

ایک نیوز ویب سائٹ نے بتایا ہے کہ انہوں نے بل کے مسودے کو دیکھا ہے۔ اس نیوز ویب سائٹ کے مطابق  بل کے مسودے میں کہا گیا کہ ’جو دانستہ طور پر صیہونیت کی تبلیغ کر کے معاشرے میں نفرت پیدا کرے، اسے تین سال قید اور 40 ہزار روپے جرمانہ ہو گا جبکہ جو دانستہ طور پر صیہونی علامات کی نمائش کرے، جس سے نفرت اور بدامنی پیدا ہو اسے دو سال قید اور 30 ہزار روپے جرمانہ ہوگا۔‘

بل کے مطابق صیہونیت کی تبلیغ اور نشان کی نمائش پر وارنٹ کے بغیر گرفتاری نہیں ہوگی اور یہ گرفتاری  قابل ضمانت ہوگی۔

سینیٹر افنان خان کے پیش کئے ہوئے اس بل کے "اغراض و مقاصد "  میں کہا گیا کہ صیہونیت کا آغاز 1890 میں ناتھن برنبام نے ایک نسلی اور مذہبی تحریک کے طور پر کیا، جو بعدازاں سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔’صیہونیت کا مقصد یہودیوں کو اکٹھا کرنے کے بعد انہیں اسرائیل میں ایک ملک دینا تھا۔‘

بل کے "اغراض و مقاصد " میں مزید کہا گیا کہ ’صیہونیت ایک نسلی، مذہبی و سیاسی نظریہ ہے، جس کے مقاصد کے حصول کے لیے انتہا پسند طریقہ کار اور وسائل اختیار کیے جاتے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ مذہبی ہم آہنگی، مختلف مذاہب اور عقائد کے لیے رواداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ایک مسلم ریاست ہونے کے ناطے پاکستان میں صیہونیت کی تبلیغ یا اس کے نشان کی نمائش برداشت نہیں کی جا سکتی۔‘

اس سے پہلے اجلاس کے دوران ریپ کے کیسز میں سزا بڑھانے کا ترمیمی بل بھی پیش کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ریپ کیسز میں سزا بہت کم ہے، اس کے لیے سخت سے سخت سزا دینا ہوگی۔

سینیٹر محسن عزیز کے مطابق: ’ایسے کیسز میں مجرم جب تک زندہ ہے اسے جیل میں رہنا چاہیے۔‘

بلوچستان عوامی پارٹی کی سینیٹر ثمینہ زہری نے کہا: ’ہم 50 سال پرانے قوانین پر چل رہے ہیں، اب ہمیں ایسے قوانین میں تبدیلی کرنی چاہیے۔ ایسے کیسز میں کم از کم 25 سال سزا ہونی چاہیے۔‘

سٹینڈنگ کمیٹی نے ریپ کیسز کے حوالے سے قانون میں ترمیم کے لیے ذیلی کمیٹی بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں وزارت داخلہ، وزارت قانون اور انسانی حقوق کے نمائندے شامل ہوں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے ذیلی کمیٹی کو 10 روز میں اپنی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔