ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسرائیل کو مزید ایف پندرہ طیاروں کی ضرورت، سوا پانچ ارب ڈالر کی خریداری کا معاہدہ کر لیا

Israel Airforce , City42, Boing , F15
کیپشن: اس تصویر میں دکھایا گیا طیارہ IAF کے 69ویں سکواڈرن کا ایک F-15I لڑاکا طیارہ ہے جس نے  27 ستمبر 2024 کو حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کے  ہیڈکوارٹر پر  بیروت میں حملہ کیا تھا۔ یہ تصویر طیارے کے  جنوبی اسرائیل کے ہیتزرم ایئربیس سے روانہ ہونے کے وقت لی گئی۔ اسرائیل کو اپنی ائیر فورس کے لئے مزید 25 ایف پندرہ طیاروں کی ضرورت ہے جو دراصل ان طیاروں کا اسرائیلی ایڈوانسڈ ورژن ہوں گے۔ یہ طیارے اس وقت بھی ااسرائیل کی ائیر فورس کے زیر استعمال ہیں اور اس کے بنیادی کومبیٹ طیاروں کے سکواڈرن انہیں طیاروں پر مشتمل ہیں۔ اسرائیل کی ائیر فورس نے ایران پر حالیہ چار گھنٹے کے فضائی حملوں میں بھی زیادہ تر انہیں طیاروں پر انحصار کیا تھا۔ 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:   اسرائیل کی وزارت دفاع نے 25 جدید F-15IA لڑاکا طیارے خریدنے کے لیے 5.2 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
امریکی مالیاتی معاہدے کے تحت بوئنگ 2031 سے ہر سال 4-6 جیٹ طیاروں کی اسرائیل کو سپلائی کرے گا،  اس ڈیل میں 25 مزید طیاروں کی خریداری شامل کرنے کا آپشن ہوگا جن کی حد اور پے لوڈ کی صلاحیت میں اضافہ ہو چکا ہو گا۔

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق وزارت دفاع نے اعلان کیا  ہے کہ اسرائیل نے بدھ کو 25 جدید لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرن کی خریداری کے لیے 5.2 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، اس سودے کی رقم کی ادائیگی  واشنگٹن کی فوجی امداد سے کی جائے گی۔

اس معاہدے  کے تحت بوئنگ  F-15IA لڑاکا طیارے تیار کر کے اسرائیل کو دے گا۔ یہ طیارے دراصل  جدید F-15EX کا اسرائیلی ورژن  ہیں- مزید 25 طیاروں کی خریداری اس ڈیل میں بعد میں شامل کی جا سکے گی۔ معاہدے کے تحت ان جنگی طیاروں کی پہلی ڈیلیوری 2031 میں شروع ہو گی۔ اس کے بعد ہر سال چار سے چھ ک طیارے فراہم کئے جائیں گے۔ 

اسرائیل کی وزارت دفاع نے کہا کہ نئے لڑاکا طیارے "جدید ترین ہتھیاروں کے نظام سے لیس ہوں گے اور ان میں جدید ترین اسرائیلی ٹیکنالوجی کے انضمام کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔ 

"اپ گریڈ ڈ  طیارے میں رینج کی بہتر صلاحیتیں، پے لوڈ کی صلاحیت میں اضافہ، اور مختلف آپریشنل منظرناموں میں بہتر کارکردگی دکھائی جائے گی۔ یہ فوائد اسرائیلی فضائیہ کو مشرق وسطیٰ میں موجودہ اور مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اپنی سٹریٹیجک برتری برقرار رکھنے کے قابل بنائیں گے،‘‘ ۔

وزارت دفاع کے ڈائریکٹر جنرل ایال ضامیر نے کہا کہ اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 کو غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 40 بلین ڈالر مالیت کے خریداری کے معاہدےکئے ہیں۔ 

ضامیر نے ایک بیان میں کہا، "غیر معمولی سطح پر جدید ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فوری ضرورتوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے، ہم ساتھ ہی طویل مدتی اسٹریٹجک صلاحیتوں میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔" "یہ F-15 سکواڈرن، اس سال کے شروع میں خریدے گئے تیسرے F-35 سکواڈرن کے ساتھ، ہماری فضائی طاقت اور سٹریٹجک رسائی میں تاریخی اضافہ کی نمائندگی کرتا ہے - وہ صلاحیتیں جو موجودہ جنگ کے دوران اہم ثابت ہوئیں۔"

Caption   وزیر دفاع یوو گیلنٹ (بائیں) اور وزارت دفاع کے ڈائریکٹر جنرل ایال ضامیر (دائیں) 29 مارچ 2023 کو اوفیک-13 جاسوسی سیٹلائٹ کے لانچ کے دوران دکھائی دے رہے ہیں۔ (یہ فوٹو اسرائیل کی وزارت دفاع نے ریلیز کی)


بوئنگ اسرائیل کے صدر، اسرائیل کی فضائیہ کے سابق سربراہ ایڈو نیہشتن نے ایک بیان میں کہا، "بوئنگ اسرائیل کے ساتھ اپنی دیرینہ شراکت داری پر فخر محسوس کرتی ہے، یہ ایک ایسا رشتہ ہے جو ہماری قوم کے قیام سے تعلق رکھتا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "کمپنی امریکی اور اسرائیلی حکومتوں کے ساتھ مل کر معیاری ملٹری پروکیورمنٹ چینلز کے ذریعے جدید F-15 IA طیاروں کی فراہمی کے لیے کام جاری رکھے گی۔"

اس معاہدے کی خبریں اس وقت سامنے آئیں جب بین الاقوامی برادری میں سے کچھ  ممالک جن میں فرانس سر فہرست ہے، غزہ اور لبنان میں جنگوں کو ختم کرنے کے لیے یروشلم کے ساتھ ہتھیاروں کے سودے محدود کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ بدھ کے روز، مصر  بھی ترکی کے اقوام متحدہ کی جانب سے اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی کا اعلان کرنے کے لیے اس مطالبے میں شامل ہوا – جس پر روس اور چین سمیت 52 دیگر ممالک نے دستخط کیے ہیں–۔

Caption   بوئنگ ڈیفنس، اسپیس اینڈ سیکیورٹی کے صدر اور سی ای او ٹیڈ کولبرٹ (بائیں) وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو سے 19 فروری 2023 کو یروشلم میں PMO میں ملاقات کر رہے ہیں۔ 

اکتوبر میں فرانس کے  صدر ایمانوئل میکرون نے کہا تھا کہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کا واحد راستہ ہتھیاروں پر پابندی ہے۔ ایک ماہ قبل، اسرائیل کے جنگی طرز عمل پر تشویش کا حوالہ دیتے ہوئے، برطانیہ اور کینیڈا نے اسرائیل کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت کے لیے کچھ لائسنس معطل کر دیے تھے لیکن ہتھیاروں پر پابندی کے مطالبے سے باز رہے۔

اسرائیل کے ہتھیاروں کی فراہمی کے دو سب سے بڑے ذرائع، امریکہ اور جرمنی نے اسرائیل پر پابندی کے مطالبات کی مزاحمت کی ہے، حالانکہ ہر ایک پر جنگ کے دوران بعض ہتھیاروں کو روکنے کا الزامبھی سامنے آیا ہے۔