ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

خوارج اور بی ایل اے کی دہشتگرد کارروائیوں میں اضافہ، کاؤنٹر ٹیررزم آپریشن بھی بڑھ گئے

Terrorist activities in Pakistan, Counter Terrorism, Pakistan Army, Taliban e Pakistan, Khawaraj, Balochistan Liberation Army, BLA
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  ملک بھر میں دہشت گردی پھر سے سر اُٹھا رہی ہے ،دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں سے متعلق اعداد و شمار  خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی رسائی اور اثر و رسوخ میں پریشان کن اضافے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ پاکستان کے قومی سلامتی کے ذمہ دار اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بھی دہشتگردوں کی سرکوبی کیلئے اپنے آپریشنز  میں اسی تناسب سے اضافہ کر دیا ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے اکتوبر 2024 کے لیے اپنی ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ میں جو اعداد و شمار جاری کیے  ان کے مطابق گزشتہ دنوں کے وران رپورٹ ہونے والے 48 حملوں میں سے زیادہ تر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے، جہاں بالترتیب 35 اور 9 واقعات پیش آئے۔

یہ رجحان دہشت گردوں کی جانب سے ان علاقوں کو غیر مستحکم کرنے کی منظم حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے جہاں وہ جغرافیائی یا سماجی و سیاسی عوامل کی وجہ سے آسانی سے کارروائیاں کرسکتے ہیں۔سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی کے محدود لیکن اہم واقعات رہنما ہوئے۔  دونوں صوبوں میں دو دو حملے ہوئے جو اِن دہشت گرد گروہوں کی  اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

اس کی واضح مثال کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے کراچی میں چینی شہریوں پر خودکش حملہ ہے، یہ حملہ پاک ۔ چین اقتصادی شراکت داری کو کمزور کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی پر تسلسل کے ساتھ عمل درآمد کی نشان دہی کرتا ہے۔خوارجی گروہ  کے دہشت گرد مبینہ طور پر بلوچستان کے پختون بیلٹ اور پنجاب میں میانوالی جیسے خیبرپختونخوا سے متصل اضلاع میں کارروائیاں کرنے  کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان واقعات کے دوران  سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سخت ردعمل میں چاروں صوبوں کے 15 اضلاع میں 84 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جو انسداد دہشت گردی کی فعال حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہیں۔

اکتوبر 2024 میں ملک میں کُل 48 دہشت گرد حملے ہوئے، ان حملوں کے نتیجے میں 100 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ ستمبر میں حملوں کی تعداد 45 تھی جس میں 54  شہادتیں ہوئیں۔   100 اموات میں 52 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، 36 عام شہری شہید ہوئے جبکہ اور 12 عسکریت  پسند خود بھی حملوں کے دوران مرے۔

حکومت اور ملٹری قیادت دہشتگردوں کو ٹھکانے لگانے کیلئے پہلے سے زیادہ مؤثر  اقدامات کر رہی ہیں ۔حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں مزید ترمیم کا بل بھی پارلیمنٹ سے منظور کروالیا ہے جس کا مقصد دشہتگردوں کا راستہ روکنا ہے۔

اب وقت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے عمل کیا جائے ۔اور نیکشن ایکشن پلان میں ایک نقطہ نیکٹا کو فعال کرنا تھا ۔اب اُمید ظاہر کی جارہی ہے کہ نیکٹا میں اسالھات ہوں گی ۔محمد خالد خان خٹک کو نیکٹا کے نیشنل کوآرڈینیٹر کا چارج دے دیا گیا ہے۔خالد خٹک کا کیریئر پولیس افسر کے طور پر رہا ہے جنہوں نے نومبر 1995 میں پولیس سروس آف پاکستان میں شمولیت اختیار کی، ان کے پاس پولیسنگ کا 29 سال کا تجربہ ہے اور وہ وفاقی اور صوبائی سطحوں پر فیلڈ اور اسٹاف اسائنمنٹس پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔