ویب ڈیسک: وزارت قانون نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت صدیقی کی برطرفی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے جسٹس شوکت صدیقی کی آئینی درخواستوں پر سماعت 23 جنوری 2024 کو مکمل کی تھی جس کا فیصلہ 22 مارچ 2024 کو سنایا گیا۔
عدالت نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالتی فیصلہ
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے جبکہ 11 اکتوبر 2018 کو وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے ان کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اسے بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بحال نہیں کیا جاسکتا، انہیں ریٹائرڈ جج تصور کیا جائے، وہ بطور جج اسلام آباد ہائیکورٹ ریٹائرڈ اور تمام مراعات و پنشن کے حقدار ہوں گے، انہیں پنشن سمیت تمام مراعات ملیں گی۔
شوکت صدیقی کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن
3 مئی کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی منظوری دی تھی۔
جسٹس شوکت صدیقی کو جج کے عہدے سے ہٹانے کا 11 اکتوبر 2018 کا نوٹیفکیشن بھی واپس لینے کی منظوری دی گئی۔
صدر مملکت نے وزارت قانون و انصاف کی تجاویز کی منظوری وزیر اعظم کی ایڈوائس پر دی۔
آصف علی زرداری نے نوٹیفکیشن جاری کرنے کی منظوری سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں دی، نوٹیفکیشن کا اطلاق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے کی تاریخ 30 جون 2021 سے ہو گا۔