ویب ڈیسک: چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ عدالتیں ایگزیکٹو آرڈر پاس نہیں کرسکتیں، عدالتی فیصلہ چیلنج نہ کیا جائے تو یہ حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان آنجہانی مسٹر جسٹس اے آر کارنیلیس کانفرنس میں "اقلیتوں کے حقوق" کے عنوان سےکانفرنس سےخطاب کرتے ہوئے جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جسٹس کارنیلئس مجسم انصاف تھے، انہیں قانون کے ساتھ دوسرے بہت سے علوم میں بھی کمال حاصل تھا۔
جسٹس کارنیلئس نے دنیا کے اعلی ترین اداروں سے تعلیم حاصل کی، وہ سول سروس کے کسی عہدے پر تعینات ہوسکتے تھے مگر انہوں نے قانون اورانصاف کے شعبے کا انتخاب کیا، انہوں نے سپریم کورٹ کو 17 برس دیے، وہ ایک اچھے قانون دان اور سادگی پسند تھے اسی لیے ان کی زندگی ججوں کے لیے ایک مثال ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا آئین کا تحفظ بنیادی اوراخلاقی زمہ داری ہےجو ہم پوری کررہے ہیں۔کیسز کے میرٹس کو مدنظر رکھا جانا اخلاقی زمہ داری ہے۔
پاکستان میں مینارٹیز کے حقوق آئین کے آرٹیکل 21 میں واضح ہیں۔ آئین کے مطابق سب کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ مینارٹیز کے خلاف کسی بھی قسم کا امتیازی سلوک روا نہیں رکھا جا سکتا۔اقلیتوں کے لیے ملازمیتوں میں پانچ فیصد کوٹہ رکھا گیا جس پر عمل درآمد کیاجارہاہے۔ملک کو تیس سال سے انتہا پسندی کا سامنا ہے جسکی وجہ سے 80 ہزار جانوں کی قربانی دینا پڑی۔اسلام میں مسلک کی بنیاد پر بھی جھگڑنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نےکانفرنس سے خطاب میں کہا کہ ملک کے نظام کو جمہوری اقدار اور برابری کے اصولوں کی بنیاد پر چلایا جانا چاہئے۔انہوں ںے کہا کہ کم شرح خواندگی اور اجتہاد کے باعث مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا، انسانی بنیادی حقوق کی حفاظت عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے، آئین کے بارے میں آگاہی فراہم کرنے کے لیے عدلیہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، انسانی حقوق کا نفاذ ریاست کی اولین ترجیح ہے، عدالتی احکامات پر عمل درآمد ریاستی اداروں کی اولین ترجیح ہے۔