مانیٹرنگ ڈیسک: پاکستان قرضوں کے جال میں پھنس چکا ہے،اس کا اندرونی قرض اور مارک اپ ادائیگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ۔
حکومت کے پاس معیشت کی بحالی اور مالیاتی گنجائش پیدا کرنے کیلئے قرض ادائیگی کو ری شیڈول کرنے کا اختیار ہو تا ہے، تاہم ایسا کرنے سے ملکی بینکوں کے بری طرح متاثر اور معیشت کے تباہ ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
ری شیڈول کرنے میں قرض کی ادائیگی کیلیے مدت کا دوبارہ تعین کرنا، مارک اپ کی ادائیگیوں کو موخر کرنا یا قرض کی مقدار میں کمی کرنا، یعنی ملکی بینکوں کو مقررہ رقم سے کم ادائیگی کرنا شامل ہے.عارف حبیب لمیٹڈ کے تجزیہ کاروں ثنا توفیق اور فرحان رضوی کی تحریر کردہ ’پاکستان اکانومی: کیا اندرونی قرض کی ریسٹرکچرنگ قابل عمل ہے‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دسمبر 2022 تک پاکستان کا اندرونی قرض 3.8 ٹریلین روپے یعنی جی ڈی پی کا 45 فیصد، کل قرض کا 53 فیصد ہے،یہ قرض پچھلے پانچ سال میں دوگنا سے بھی زیادہ ہو گیا ہے، کل سرکاری قرض 52.5 ٹریلین روپے جی ڈی پی کا 73.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑے مالی خسارے اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری اور غیر ملکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری کی آمد میں کمی کے درمیان گزشتہ دہائی کے دوران قرض کی رفتار میں تیزی آئی ہے،موجودہ مالی سال 2023 میں کل ملکی قرضوں پر ڈیٹ سروسنگ ( مارک اپ ادائیگی) کا حجم تقریباً 5.6 ٹریلین روپے لگایا گیا ہے جو ٹیکسوں کی مد میں ہونے والی آمدنی کا 76 فیصد حصہ ہے، مارک اپ ادائیگیاں خطرناک حد تک بڑھ گئی ہیں۔