(علی ساہی) آخر کیوں؟؟؟ ارباب اختیار کے نزدیک ان کی لوگوں کی جان کی حفاظت کوئی اہمیت نہیں رکھتی جو عام آدمی کی حفاظت کیلئے اپنی جان جوکھوں میں ڈالے ہوئے ہیں، پولیس کے اعلیٰ افسران کی نااہلی اور غفلت کے سبب رواں برس 23 سو سے زیادہ بلٹ پروف جیکٹس کی خریداری نہ ہوسکی ۔
پولیس اہلکاروں کی حفاظت کیلئے 30 کروڑ کی رقم 2 ہزار جیکٹس کی خریداری کے لیے مختص کی گئی، مگر روایتی سستی آڑے آگئی، بروقت اقدامات ہوئے نہ پری کوالیفائی کرنے والی کمپنیوں کے سیمپلز پاس ہوئے، تاخیر ہونے پر دوبارہ سے سیمپلنگ بھی نہیں کروائی جاسکی، یہی نہیں اورنج لائن ٹرین کی سکیورٹی کی مد میں ملنے والی رقم سے ایس پی یو کے لیے 315 بلٹ پروف جیکٹس کی خریداری بھی موخر ہو گئی۔
وقت گزرنے اور مالی سال کے اختتام پر پولیس حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ حفاظتی جیکٹس اگلے سال سہی اس سال مختص رقم سے اسلحہ خریدا جائے گا، پولیس کے پاس 15 ہزار بلٹ پروف جیکٹس کے باوجود کئی علاقوں میں جیکٹس کی قلت کاسامنا ہے۔
جیکٹس کی خریداری میں تاخیر سے شروع ہونے والی کہانی خریداری موخر کرنے پر اختتام کو پہنچی، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ناکوں، چوک چوراہوں اور گلی محلوں میں گشت کے دوران ہائی رسک ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کی جان کی حفاظت سے غفلت ان کے بنیادی حق کے خلاف نہیں ہے ؟؟؟
دوسری جانب پولیس نےتھانوں میں دیئے گئےموبائل فونز کا آڈٹ شروع کر دیا، حساب دینے پر پولیس اہلکاروں میں کھلبلی مچ گئی، سی سی پی او آفس کی جانب سے تمام اہلکاروں کو موبائل فونز واپس جمع کرانےکی ہدایات کر دی گئی ہیں،لاہور پولیس نےتمام اہلکاروں اور افسران کو موبائل فون کرائم میپنگ کےلیے چار سال قبل فراہم کیےتھے۔
واضح رہے کہ29 مئی 2019 میں پنجاب پولیس نے سکیورٹی اور ناکوں پر ڈیوٹی دینے والے اہلکاروں کیلئے بلٹ پروف ہیلمٹ اور جیکٹس خریدنے کا فیصلہ کیا تھا ۔