ویب ڈیسک: اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد لندن میں بیٹھے جہانگیر ترین بھی متحرک ہوگئے اور علیم خان کو بھی اپنے کیمپ میں شامل کرلیا ہ۔
سیاسی صورتحال اور عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے گروپ نے آج لاہور میں اہم مشاورتی اجلاس طلب کیا تھا، اجلاس جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا، جس میں تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر اور سینئر رہنما علیم خان سمیت ارکان صوبائی اسمبلی نے شرکت کی، جب کہ جہانگیر ترین لندن سے ویڈیو لنک پر شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں 3 صوبائی وزرا سمیت مجموعی طور پر پنجاب کے 19 ارکان شریک ہوئے، ایم این ایز کو آج کے اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا، ان کا اجلاس الگ طلب کیا جائے گا۔ آج کی بیٹھک میں وزیر زراعت نعمان لنگڑیال، صوبائی وزیر اجمل، عبدالحئی دستی، لالہ طاہر رندھاوا، عون چوہدری، خرم لغاری، چوہدری یاسین سوہل، میاں عبدالروف، سعید اکبر نوانی، زوار حسین وڑائچ، غلام رسول سنگا، بلال وڑائچ، قاسم لنگا اور میاں عمران جاوید شریک ہوئے۔
اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے علیم خان نے جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جدوجہد میں بہت سارے ساتھی عمران خان کے ساتھ تھے، اس جدوجہد میں جہانگیر ترین کا بہت کردار ہے، انہوں نے نے دن رات پارٹی کیلئے محنت کی، پارٹی کیلئے اتنی محنت کرنے پر جہانگیر ترین کے مشکور ہیں، لیکن جہانگیر ترین سمیت سب کی قربانیاں بھلا دی گئیں۔
علیم خان کا کہنا تھا کہ سیاست دوستوں میں اضافہ کا نام ہے، سیاست مشکل میں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا نام ہے، میں نے خود کہا کہ آج کا اجلاس جہانگیر ترین کے گھر رکھیں، انہیں پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آپ بھلے یہاں نہ ہوں ہم نے بھلایا نہیں، ہم سب کیلئے جہانگیر ترین قابل احترام ہیں، پارٹی میں ان کا نمایاں چہرہ تھا، ان سمیت دیگر نے جتنی محنت کی انہیں کیوں نظرانداز کیا گیا معلوم نہیں، عمران خان عوام کی واحد امید تھی جس وجہ سے ان کا ساتھ دیا، جب حکومتیں بن جاتی ہیں تو کچھ اور ہی لوگ ارد گرد آجاتے ہیں، ہم سب نے جدوجہد کی ہے، دلی افسوس ہوتا ہے۔
ناراض رہنما نے کہا کہ پنجاب میں جیسی حکومت ہے اس پر تشویش ہے، 40 سے زائد ایم پی ایز سے ملاقات کر چکا ہوں، باقی گروپس سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ پارٹی کو بچانے کیلئے متحد ہوں، جس جماعت کا وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ہو اس کے خلاف کھڑے ہونا آسان نہیں، ہم نے مشکلات کے باوجود یہ وقت محنت سے گزارا، میری تکلیف ذاتی نہیں ہے، جو سہولتیں وزیراعلیٰ کے پاس ہیں شاید میرے پاس اس سے زیادہ ہیں، جو گاڑیاں اور سرکاری جہاز وزیراعلیٰ استعمال کرتے ہیں میرے پاس اس سے اچھی گاڑیاں اور جہاز ہیں۔