ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ڈیڑھ سو  گیم چینجر "مریم نواز ہیلتھ کلینکس" کا افتتاح ہو گیا

ڈیڑھ سو  گیم چینجر
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی 42:  پنجاب کی وزیراعلیٰ  مریم نوازنےبیسک ہیلتھ یونتس کو اپ گریڈ کر کے بنائے گئے 150 نئے ہیلتھ کلینکس کاافتتاح کردیا۔ مریم نواز ہیلتج کلینک کے نام سے موسوم یہ ہیلتھ کلینک دراصل مکمل ہسپتال ہیں جو دیہات کے عوام کو علاج کے لئے شہر کے ہسپتال تک جانے کی ضرورت سے عملاً نجات دیں گے۔ ان کلینکس پر سرکاری ادویات مفت فراہم کی جائیں گی اور تمام نظام کو سٹیٹ آف دی آرٹ سطح پر چلانے کے لئے  ان آؤٹ لیٹس کی اونر شپ منتخب کئے گئے نجی اداروں کو دی گئی ہے، حکومت ان منتظمین کو ہر سال چھ لاکھ روپے کی امداد فراہم کرے گی جو ادویات اور دیگر سہولتوں سے الگ ہو گی۔

یہ ہیلتھ کلینک پنجاب میں تمام کے تمام شعبہِ صحت کی ری ویمپنگ کے میگا پروجیکٹ کا حصہ ہیں۔ مریم نواز نے اپنی حکومت کی ترجیحات میں صحت کی شعبہ کی میگا ری ویمپنگ کو سب سے اوپر رکھا ہے اور اس سال کو  پنجاب کے عوام کی صحت کا سال قرار دیا ہے۔


وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز  نےتقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہیلتھ کلینک کےاجرا پرپوری ٹیم مبارکبادکی مستحق ہے،عوام کی خدمت پریقین رکھتےہیں،صحت کی بہترین سہولیات عوام کاحق ہے،ہسپتالوں میں انسولین کی دستیابی کویقینی بنایاہے،عوام کو دوبارہ مفت ادویات ملنا شروع ہوگئی ہیں، آبادی بڑھی ہے اور چیلنجز بھی بہت زیادہ ہیں، ہسپتالوں میں شکایات کے ازالے کیلئے ڈیسک قائم کئے گئے،ہسپتالوں میں بوجھ کم کرنے کیلئے موبائل ہیلتھ یونٹ قائم کئے،

مریم نواز نے اپنے خطاب میں کہا خواجہ عمران صاحب آپ لوگ شاباش کے مستحق ہیں کہ آپ نے دسمبر میں ایپلیکیشنز ریسیو کرنے کی ڈیڈ لائن  دی تھی اور آج جنوری کے پہلے ہفتے میں ہم ماشاءاللہ ہیلتھ کلینکس ہمارے ڈاکٹرز کو ہینڈ اوور کرنے جا رہے ہیں ۔  میں نے جب سے میں نے چیف منسٹر کا حلف لیا ہے۔ میرے خیال میں میرا سب سے بڑا چیلنج ،ویسے تو چیلنجز اگر آپ نے کام کرنا ہو تو چیلنجز ہر روز ایک نیا چیلنج ہوتا ہے۔ ابھی آج میں پریونشل ایپکس کمیٹی کی میٹنگ سے آرہی ہوں جو ہمارے بارڈرز کے ایریاز ہیں جو کے پی کے سے ملتے ہیں یا جو ٹرائی واٹر ایریاز ہیں ان سب پہ  بہت تھریٹ ہے وہاں سے انفلٹریشن ہوتی ہے تو وہ ایک ساڑھے تین چار گھنٹے کی میٹنگ تھی جو ابھی اٹینڈ کی ہے ۔ وہ بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن ایک وہ واحد چیلنج ہے جس سے مجھے کبھی کبھی رات کو نیند نہیں آتی اور وہ یہ ہے کہ پنجاب کے جو 14 سے  15 کروڑ عوام ہیں، میں 14 سے  15 کروڑ اس لیے کہتی ہوں کہ 12 سے 13 کروڑ کے درمیان پنجاب کی آپنی آبادی ہے آپنے پنجابی ہیں، کچھ ایسے بھی ہمارے دوسرے صوبوں سے آزاد کشمیر سے گلگت بلتستان سے یہاں تک کہ  افغانستان سے ہمارے یہاں پر سیٹلرز ہیں جو ایک بہتر لائف کی تلاش میں ایک بہتر لائیولی ہڈ کی تلاش میں بہتر زندگی کی تلاش میں پنجاب آتے ہیں۔ ہمارے دل کے دروازے ان سب کے لیے کھلے ہیں لیکن ایک چیز جو مجھے بہت ’سلیپ لیس نائٹس ‘دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جو صحت کی سہولیات ہیں وہ جس طرح سے عوام کو کوالٹی ملنی چاہیے تھی، ان کی ایکسس ہونی چاہیے تھی، اس پہ میں 100 پرسنٹ خوش نہیں ہوں  اور یہ بات کیونکہ چیلنجز بہت زیادہ ہیں. پاپولیشن اتنی بڑی ہے  کہ ریسورسز چھوٹے ہو گئے ہیں  اور ہسپتال کم ہو گئے ہیں۔ ابھی خواجہ عمران نذیرصاحب کہہ رہے تھے کہ وہ میری سپیڈ میچ نہیں کر سکتے خواجہ عمران نذیر صاحب میں  آپ  سے خوش تب  ہوں گی   جس دن مجھے یہ لگے گا کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ سپیڈ میچ کی بلکہ آپ  نے سپیڈ میں مجھے  بھی ’بیٹ ‘کر دیا ،کیونکہ  سپیڈ میں آپ کے اور خواجہ سلمان رفیق صاحب کے آگے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو بہترین سہولیات ملنے لگی ہیں لیکن جو ہم 150 بی ایچ یوز کو مریم نواز کلینکس میں تبدیل کرنے جا رہے ہیں، اس میں میں آپ کو خواجہ عمران نذیرصاحب آپ کی ٹیم کو نادیہ آپ کو میں دل کی گہرائیوں سے آپریشیٹ بھی کرنا چاہتی ہوں شاباش بھی  دینا چاہتی ہوں  اور آپ کے پورے ڈیپارٹمنٹ کو ویل ڈن کہتی ہوں ۔


پنجاب کی  پاپولیشن بڑی ہے میں نے جب ٹیک اوور کیا تو شہباز شریف صاحب کے دور میں  جودوائیاں ہاسپٹلز میں لوگوں کو فری ملتی تھیں۔ وہ  ادویات 90 پرسنٹ سے 30 پرسنٹ پہ آگئی تھیں پچھلے دور میں لوگوں کو فری دوائی بند کر دی گئی  تھی۔ اور بہت ڈھٹائی سے اعلان ہوتا تھا کہ اب ہم فری دوائیاں نہیں دے سکتے ۔کینسر کا فری علاج ہم نے کیا، ہمیں یاد ہیں 20 میں اور19 میں کینسر کے پیشنٹ سڑکوں پہ آگئے تھے کیونکہ ان کا علاج فری علاج ختم کر دیا تھا، تو نہ صرف شہباز شریف صاحب کی روایت کو ہم نے زندہ کیا ریوائیو بھی  کیا ۔ الحمدللہ۔ مریم نواز  نے ڈاکٹرز سے پوچھا  کتنی ایمبیسی ڈلیوری آپ کی، کیا پرسنٹیج ہے اس وقت نہیں نہیں جو آپ ہاسپٹلز میں دیتے ہیں پرسنٹیج کتنی ، ڈاکٹرز نےکہا 90 فیصد،جی انشاءاللہ تقریبا 90 پرسنٹ ہماری اب ہاسپٹلز میں بھی فری میڈیسنز ہیں۔  جب میں ہاسپٹل کے دورے پہ جاتی ہوں میں ایک ایک پیشنٹ جس سے میرا انٹریکشن ہوتا ہےاور میں خود رک کے لوگوں سے پوچھتی ہوں کہ آپ کو کوئی دوائی باہر سے تو نہیں  لانی  پڑی یا دوائی کے لیے کوئی پیسے تو نہیں دینے پڑے یا کوئی ٹیسٹ آپ کے باہر سے تو نہیں ہوئے۔ میں خود ان چیزوں پہ بہت نظر رکھتی ہوں اور لیکن پھر بھی ہمارا ایک نیشنل ورک ایتھیک اتنی پرابلم ہے ہمیں ، ہم اپنا کوئی کام بھی خدمت سمجھ کے نہیں کرتے ذمہ داری سمجھ کے نہیں کرتے، فرض سمجھ کے نہیں کرتے ،بس کوشش کرتے ہیں کہ آٹھ سے 2اگر ہمارے ڈیوٹی ٹائمنگز ہیں تو ہم موبائل پہ بیٹھے رہیں یا کچھ بھی کرتے رہیں ہم وہ گزار کے گھر چلے جائیں۔ جو ہیلتھ سے وابستہ افراد ہیں چاہے وہ ڈاکٹرز ہیں وہ نرسز ہوں چاہے وہ پیرامیڈکس ہوں یا وہ کوئی بھی ہو ان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی زندگی میں سوائے خدمت کے اب اور کوئی کام نہیں ہے۔

مریم نواز نے انکشاف کیا کہ  دوائیاں چوری ہوتی ہیں یہاں تک کہ انسولین چوری ہوئی،ڈیڑھ دو ڈھائی کروڑ روپے کی انسولین  تھی۔ وہ چوری میں سمجھ نہیں سکتی ۔میں چائنہ  گئی میں نے  ان کو کہا میں نے آپ کا ہاسپٹل وزٹ کرنا ہے تو میں نے ان کا جب ہاسپٹل وزٹ کیا ان کی ٹیم نے وزٹ کے بعد مجھے ایک بریفنگ دی۔میں ان سے یہ پوچھنا چاہ رہی تھی کہ جو دوائی اگر آپ کی چوری ہوتی ہے تو آپ کیا کرتے ہیں تو ان کو میری بات ہی سمجھ نہیں آرہی تھی کیونکہ ان کے ادھر دوائی چوری نہیں ہوتی، مجھے اتنی خوشی بھی ہوئی کہ وہ ایک انہوں نے ایک انسانیت کا بھی معیار اچیو کیا ہے۔ افسوس بھی ہوا کہ ہمارے ملک میں غریب کی دوائی بھی چوری ہوتی ہے  اور اس کو پیسے بنانے کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ باہر جاؤ  اور ٹیسٹ کرا لو اور باہر کی جو فارماسیز ہوتی ہیں یا جو ڈائگنوسٹکس سینٹرز ہوتے ہیں ان کے ساتھ ڈیل کی ہوتی ہے۔

مریم نواز نے بتایا کہ  یہاں تک شروع میں میں جب یہاں آئی تو مجھے پتہ چلا کہ سیکیورٹی آؤٹ سورس کی ہوئی ہے اور جو سیکیورٹی کے پرسن ہاسپٹل میں ڈیپیوٹڈ ہیں وہ پیشنٹ سے ان کی ہاسپٹل میں اینٹری کے پیسے لیتے ہیں تو  کئی دفعہ ایسی  ناقابل فہم باتیں  سامنے آتی ہیں جس سے مجھے اونسٹلی میں کبھی کمپریہنٹ بھی نہیں کر سکتی کہ یہ پرابلمز ہمارے سسٹم میں ایگزسٹ کرتی ہیں اور اتنی کیلسنس نے اتنا ہاٹ لیسنس ہے ۔ میں نے اب لاہور کے دو تین ہاسپٹلز ہیں بلکہ تین ہاسپٹلز میں میں نے پائلٹ کیا ہے میں نے اپنے آفیسرز لگائے ہیں ہر ہاسپٹل  میں ہوں ۔  سروسز ہاسپٹل میں میں نے لگایا  وہاں ان کو اپنے ائز اینڈ ایرز بنا کے بھیجا ہے اور ہر ہاسپٹل میں، میں نے ان کو کہا ہے کہ ریسپشن پہ ہیلپ  ڈیسک  قائم کریں تاکہ ایک پیشنٹ جب ہاسپٹل کے اندر آتا ہے  تو جو ڈیزرونگ پیشنٹ ہے اس کوان چیزوں کی اتنی سمجھ نہیں ہوتی   کہ کون سا ڈیپارٹمنٹ کیا کرتا ہے تو ان کو گائیڈ کرنے کے لیے ایک ہیلپ  ڈیسک ہونا چاہیے۔  تاکہ  جو  لوگ وہاں پر جائیں تو ان کو پتہ چلے کہ اگر ہم نے آرتھوپیڈکس میں جانا ہے تو  وہ راستہ کس طرف ہے ،گائنکالوجی کے لیے جانا ہے تو کہاں  سے جانا ہے ۔ اسی طرح مریم نواز چیف منسٹر کمپلینٹ ڈیسک  ہے وہ بھی میں نے ہاسپٹل میں اسٹیبلش کر دیے ہیں  اس کی جو برینڈنگ ہے وہ بھی ہو گئی ہے تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ اگر ان کو کسی ڈاکٹر نے نہیں دیکھا  یا اگر ان کو ضرورت سے زیادہ انتظار کرنا پڑا ہے، اگر ان کو فری دوائی نہیں ملی اگر ان سے کسی مرحلے پہ کسی نے پیسے مانگے تو وہ فورا   اس  کی رپورٹ کر سکے۔اور جوسی ایم کی وہاں پہ ٹیم موجود ہے وہ اس کا ڈر بھی ہو اور ایک ڈیٹرنس کرییٹ ہو۔
مریم نواز نے بتایا کہ  پرابلمز بہت شدید ہیں آہستہ آہستہ اوورنائٹ چینج نہیں آتی، ہم کوشش کر رہے ہیں ہاسپٹلز بھی کم ہیں اس لیے میں نے موبائل ہیلتھ کلینکس شروع کیے ماشاءاللہ بڑے افیکٹولی چل رہے ہیں اور جیسے آپ کو  ہیلتھ منسٹر خواجہ عمران نذیر صاحب نے بتایا  ن کہ 70 لاکھ سے زائد لوگوں کا علاج ہو چکا ہے اور فیلڈ ہاسپٹلز جو رورل ایریاز میں جا کے کسی ایک سینٹرل جگہ پہ بات کرتے ہیں اور پورا گاؤں  جس میں بلخصوص  بوڑھی  خواتین ہیں بوڑھےمرد یا جو ایسے لوگ ہیں جو دور نہیں جا سکتے، وہیں پر ان کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں کیونکہ اس  فیلڈ ہاسپٹلز کے اندر منی ہاسپٹل ہے وہ اس کے اندر لیب بھی ہے، ایکس رے بھی ہے، اس کے اندر ای سی جی بھی ہے ،اس کے اندر فارمیسی بھی ہے اس کے اندر گائنوکالوجی ہے، جو میٹرنل ہیلتھ ہے اس کا بھی سسٹم پورا لگا ہوا ہے۔ تو ان کو چل کے ہاسپٹل جانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔فیلڈ ہاسپٹل ان کے گاؤں ان کے محلے تک آتا ہے ۔اسی طرح جو ہمارے کلینکس ان وینز ہیں جتنا فیڈ بیک مجھے فیلڈ ہاسپٹلز اور کلینکس ان ویلز کاآتا ہے شاید ہی کسی اور پراجیکٹ کا آتا ہو۔ کلینکس ان ویلز آپ کے محلوں میں جا کے ،آپ کے ڈور سٹیپس پہ جا کے اور اربن ایریاز پرپہنچ کر آپ کا علاج کر رہے ہیں، آپ کو فری دوائی  دے رہے ہیں ، آپ کی سکریننگ کر رہے ہیں اور آپ کا علاج کر رہے ہیں۔ وہ میرا خیال ہے کہ اس کو اگر ہمیں اور ڈبل بھی کرنا پڑے تھری ٹائمز بھی کرنا پڑے تو میرا خیال ہے کہ یہ ایک بہت اچھا پراجیکٹ ہے جس کو ہمیں ایکسپینڈ کرنا چاہیے۔

مریم نواز نے بتایا کہ  ہم نے فری ہوم ڈلیوری میڈیسنزکینسر اور ہیپیٹائٹس اور دل کے امراض کی شروع کی ہے تو  کوشش تو یہی ہے کہ اس کو  ایک لاکھ تک ہم لے جائیں۔ ایک لاکھ لوگوں کو کم از کم یہ بھی تھوڑا نمبر ہے ایک لاکھ لوگوں کو ان کے دو مہینے کا میڈیسنز کا جو سٹاک ہے جو ابھی ڈلیور ہو رہا ہے۔اور دو مہینے کی جو میڈیسن ہے وہ آپ کو لائنز میں کیوز میں نہ لگنا پڑے اور  کئی پیشنٹس ہوتے ہیں  جو کھڑے  نہیں ہو سکتے یا ان کے کبھی گھر والے جاتے ہیں تو ان کو انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اب لوگوں کے گھروں پر تو دو دو مہینے کا سٹاک ڈلیور ہو رہا ہے۔ میرے لیے تو اس سے زیادہ  اللہ تعالی کے شکر کی  اور کوئی بات نہیں ہے کہ کم از کم اس کا آغاز ہوا ہے اور جو دل کا مرض ہے اب وہ ہر گھر میں موجود ہے اللہ تعالی سب کو صحت دے۔ جو ہمارا پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی لاہور ہے  ، آپ سب جانتے ہیں کہ صوبہ بلوچستان سے خیبر پختون خواہ سے آزاد کشمیر سے گلگت بلتستان سے ہمارے پاس پیشنٹس آتے ہیں اور ہم ان کا فری علاج کرتے ہیں اور کھلے دل کے ساتھ کرتے ہیں۔ کیونکہ جب کوئی کسی کو صحت کا مسئلہ آتا ہے تو پھر وہ کوئی نہ بلوچی ہوتا ہے نہ کوئی سندھی ہوتا ہے نہ کوئی خیبر پختون خواہ   نہ  پنجابی ہوتا ہے۔  میں کسی کو انکار نہیں کرتی بیسٹ کوالٹی علاج   کرواتے ہیں ۔ اس کو اپنے ہاسپٹلز تک بھی ایکسس دیتے ہیں فری علاج بھی کرتے ہیں فری میڈیسنز بھی دیتے ہیں۔ ابھی ریسنٹلی میرے پاس ایک رپورٹ  آئی ہے ہم تقریبا ہزاروں کالز ڈیلی کرتے ہیں پیشنٹس سے فیڈ بیک لیتے ہیں تو ابھی مجھے بڑی خوشی ہوئی جب ہم نےمیڈیسنز کی  ہوم ڈیلیوری  ہو رہی ہے  اس کے جو بینیفیشریز ہیں ان کو  کال کی ،ایک ریکارڈنگ میرے پاس ریکارڈنگز آتی ہیں۔  ایک ریکارڈنگ میں سن رہی تھی کہ ایک ہمارے کوئی بھائی تھے بلوچستان سے انہوں نے کہا میں بلوچستان سے ہوں اور میرے گھر پہ جب دو مہینے کا فری میڈیسنز کا ڈبہ ڈلیور ہوا تو میں مجھے بڑی خوشی ہوئی اور مجھے لگا کہ میں جتنا بلوچی ہوں اتنا میں پنجابی بھی ہوں میں نے وہ سنا تو مجھے بہت اچھا لگا
مریم نواز  نے کہاپنجاب انسٹییوٹ آف کارڈیولوجی چھوٹا پڑ گیا ہے اب ہم ایک نیا کارڈیولوجی ہاسپٹل جو کہ بالکل نیرنگ کمپلیشن ہے اس  کو سٹیٹ آف دی آرٹ  بنا رہے ہیں۔میں ابھی چائنہ میں گئی ہوئی تھی کینسر کا انہوں نے علاج نکالا ہے وہ لیکوڈ نائٹروجن سے ٹیومر کو فریز کر دیتے ہیں اور اگر آپ کے کوئی جو کینسر کی کوئی ایسی قسم ہے جس میں ٹیومر ہے تو میں نے دیکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ 60 منٹس میں یا 90 منٹس میں وہ اس کےٹیومر کو فریز کرتے ہیں اور اس کا علاج ہو جاتا ہے۔میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اس کے رزلٹس  کنونشنل سرجری سے کتنے مختلف ہیں انہوں نے کہا کہ اس کا سکسیس ریٹ جو ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا ایک کنونشنل سرجری کا ہے، جس میں آپریٹ کر کے وہ آپ کے ٹیومر کو ریموو کرتے ہیں تو  میرا خیال ہے کہ اگر آپ مجھے پوچھیں کہ میرے چائنہ کےآٹھ دن کا جو میرا سٹڈی ٹور تھا جس کو میں سٹڈی ٹور کہتی ہوں، اس میں سے میرا ٹیک وے کیا تھا کہ سب سے بڑی اچیومنٹ کیا ہے وہ کینسر کے علاج میں نئی  گراؤنڈ بریکنگ ٹریٹمنٹ آئی ہے اس کو پاکستان لینا لانا جو میرا سب سے  بڑا مشن ہے ۔
لاہور میں کارڈیالوجی کا نیا ہاسپٹل بن رہا ہے  دنیا کی بہترین مشینری ہم وہاں پر لے کرآ رہے ہیں اور میں تو حیران ہوں دنیا کس طرح سے سکینس کر رہی ہے نیوکلیئر سکینز کر رہی ہے ۔اور  ایک سیکنڈ میں آپ کو چند منٹوں میں آپ کو پورا آپ کا ہارٹ کی جو کنڈیشن ہے وہ بتا دیتے ہیں۔ ہم ابھی پیچھے ہیں، اب جو نیا کارڈیولوجی کا ہاسپٹل بھی بن رہا ہے اس میں میں نے اس کو ریوائز کیا۔ ہم اس میں بہترین سٹیٹ آف دی آرٹ لیٹسٹ ایکوپمنٹ لیٹسٹ مشینری ہم لے کر آ رہے ہیں۔ اسی طرح الحمدللہ جب بھی میں وہاں سے گزرتی ہوں مجھے اللہ تعالی کے بے پناہ شکر ادا کرتی ہوں کہ پاکستان کا پہلا پبلک سیکٹر کینسر ہاسپٹل کی تعمیر تیزی سے جاری ہے

مریم نواز نے کہا  اسی طرح  پورے سرگودھا ڈویژن میں پبلک سیکٹر میں کارڈیولوجی کی فیسلٹی نہیں تھی آپ کو یہ جان کے خوشی ہوگی کہ ابھی چند ماہ پہلے اس کی تعمیر کا اغاز ہوا ہے نواز شریف انسٹیٹیوٹ اف کارڈیولوجی سرگودھا، اور  اس کی چوتھی منزل بھی  کمپلیٹ ہونے جا رہی ہے دن رات کی محنت سے الحمدللہ وہ ہاسپٹل بھی ہم بنا رہے ہیں۔

 یہ جو بی ایچ یوز ہیں ہمارے پاس پنجاب میں 2500 سمتھنگ بیچ یوز ہے اور مجھے یہ بتاتے ہوئے آپ کو خوشی ہو رہی ہے کہ اس ماہ میں ساڑھے 12 سے بی ایچ یو اس کام  کو ہم ٹوٹلی ری ویمپ کر دیں گے۔ تقریبا میرے خیال ہے کہ 904 اس وقت فنشنگ سٹیج پہ ہیں اور ہائر سٹینڈرڈز کے مطابق ہم نے ان تمام بی ایچ شوز کو ریویمپ کیا ہے آپ اس میں اگر واک ان کریں کچھ میں میں گئی ہوں آپ کو ایسے لگے گا کہ جیسے آپ انٹرنیشنل  دنیا میں بہترین ملک میں جو ویلفیئر سٹیٹس ہیں وہاں پہ آپ بہترین ہاسپٹل میں واکنگ کریں ۔۔ اس کوالٹی کا ہم نے جو اس کا سٹینڈرڈ ہے وہ بنایا ہے تو تقریبا جو 2500 میں 2500 میں سے تقریبا ساڑھے 12 سے ہم کر چکے ہیں باقی بھی جو اب رہ گئے ہیں 1300 وہ بھی ہم بہت جلدی اس کو کر لیں گے انشاءاللہ تعالی۔

 یہ جو 2400 یا 2500 بی ایچ یوز ہمارے پاس ہیں پنجاب میں یہ پنجاب کے دور دراز علاقوں میں اگر ہم ان کو صحیح طرح سے چلا گئے تو نہ صرف یہ کہ آپ   کے  جو ہاسپٹلز ہیں ان کے اوپر لوڈ کم ہوگا بلکہ ہر محلے کے اندر ہر گاؤں کے اندر بی ایچ یو موجود ہے تو آپ کو بی ایچ یو میں اگر اچھی سروس مل گئی اس کو ہم چھوٹا  مگر اچھا کلینک یا منی ہاسپٹل بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے انشاءاللہ   مریم نواز نے کہا اگر مگر میری ڈکشنری میں ہے نہیں ہم اس کو انشاءاللہ تعالی جو ڈی پی ماڈل ہے دنیا میں جو انٹرنیشنل ویسٹ پریکٹسز ہیں،  بہت  افیکٹولی فالو ہوتا ہے اس ماڈل پہ ہم ان 2500 ڈی ایچ یوز کو ری ماڈل کر رہے ہیں اور اس کو میں نےآؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

 یہ جو ینگ ڈاکٹرز فیمیل اور میل میرے سامنے بیٹھے ہیں یہ ایجنٹس اف ٹرو چینج ہے یہ میرے وہ ہیلپنگ ہینڈز ہیں جو پنجاب کے ہر گاؤں میں پھیل کر میرا میرا ہاتھ بٹائیں گے خدمت خلق کریں گے لوگوں کی جانیں بچائیں گے اور جو ہم ایکسس دینا چاہتے ہیں لوگوں کو کوالٹی ہیلتھ سروسز کی طرف اس کی طرف یہ بہت امپورٹنٹ مائنڈ سٹون ہوگا ۔اور میری کوشش بھی یہ ہے کہ ان کو اتنا ہم ایکوپ کر دیں چھ لاکھ روپیہ مہینہ ہم ان کو دے رہے ہیں لیکن میری یہ کوشش ہوگی کہ وہاں پر جو ڈائگنوسٹکس بھی  چاہے  بیسک لیول کا وہاں پر  ڈائیگنوسٹک بھی ہو اور وہاں پہ ایک اچھی لیب ہو تاکہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے بھی آپ کو پیشنٹ کو باہر ریفر نہ کرنا پڑے نہ  آپ کو باہر نہ جانا پڑے ہم اس میں آپ کی ہیلپ کریں گے انشاءاللہ تعالی اسی لیے ے وہاں پہ الٹراساؤنڈ ہونا چاہیے ہ اورجو بھی اگر مشینری ہم آپ کو لا کے دے سکیں ہم آپ کو دیں گے۔ تاکہ آپ کو بھی فائدہ ہو۔ آپ کے لیے بھی وہ ایک وہ کام ہو ہمارا مقصد بھی پورا ہو کہ پیشنٹس کو جو ہے وہ پولیٹیکل ملے اور آپنے ہی وسنٹی میں ملے ان کو اس کے لیے بڑے ہسپتال میں جا کے لائنوں میں نہ لگنا پڑ ے ۔ ہم آپ کو اپنے ساتھ انٹیگریٹ کریں گے مجھے پتہ چلا ہے کہ اگینسٹ 10050  کلینکس جن کو ہم پائلٹ کرنے جا رہے ہیں ہمیں تین ہزار سے زائد  ایپلیکیشنز ہمیں موصول ہوئی ہیں اور جن کو بڑی پینٹ سٹیکنگلی انہوں نےسیٹ کیا ہے


 مریم نواز نے کہا  میں صرف آپ کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ لوگ میرے ہاتھ اور بازو بنو اور ہم وہ کام کر جائیں ہیلتھ کے لیے جو پاکستان میں کم از کم پنجاب میں ہیلتھ کی جو پوری شیپ ہے شکل ہے وہ بدل دے اسی طرح ہم آرگن ٹرانسپلانٹ بھی شروع کر رہے ہیں کیونکہ آرگن ٹرانسپلانٹ بہت مہنگا ہے تو وہ بھی ہم شروع کر رہے ہیں رینل ڈزیزز کے لیے اسپیشلی رینل ڈائلیسس  اس کے لیے ہم نے ایک ملین کی سالانہ ایک رینل ڈائلسز کے پیشنٹ کے لیے ایک ملین کی ہم نے جو اماؤنٹ ہے وہ رکھی ہے ۔ان کو ریتھرو پوئٹن کے انجیکشنز ایوری  کی ایکس چاہیے ہوتے ہیں اور ملٹیپل ڈائلسز ہوتے ہیں تو میں یہ سمجھتی ہوں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پیشنٹ ڈائلسز کا پیشنٹ اس کو اور زیادہ ڈائلیسس کی ضرورت ہے تو سال کے آخر میں اس کو یہ بتایا جائے کہ آپ کا جو ڈائلیسس کی جو لمٹ ہے وہ آپ ایکسیڈ کر چکے ہیں اس لیے آپ کا ڈائلیسز نہیں ہوہو سکتا تو ہم نے اب اس کی لمٹس کو بڑھا کے سات لاکھ سے ون ملین کر دیا تاکہ کوئی بھی پیشنٹ ڈائلیسس کے بغیر واپس نہ جائے اسی طرح ہم انسولین کی بھی ہوم ڈلیوری شروع کر رہے ہیں اور انسولین جو پیشنٹس انسولین کا سٹاک لے کے آتے ہیں وائلز لے کے آتے ہیں، لائنز میں کھڑے ہو کے  اب ہم نے کول چین بھی ڈیویلپ کر لی انشاءاللہ تعالی بہت جلد ہم انسیڈنٹ کی ہوم ڈلیوری بھی سٹارٹ کرنے لگے ہیں  تو لوگوں کو ان کے ڈور سٹیپ پہ  ملے گی

 اسی طرح جن ہاسپٹلز میں  سٹی سکینز نہیں تھے جہاں ایم ار ائی مشینز نہیں تھی  یہ بیسک مشینز ہیں جن کے بغیر ڈائگنوسز نہیں ہوتے تو ہم نے بہت سارے ایسے ہاسپٹلز ہیں جہاں پہ ہم نے نئی سیٹیز مشینز میں جو وہاں پہ پہلے اویلیبل نہیں تھی ایچ کیوز میں ہم وہ سیٹیز مشین بھی مشینز بھی دے رہے ہیں ،ایم آر آئی کی مشین کرانے کے لیے یہ نہ کہے پرچی نہ تھما دی جائے کہ جاؤ جا کے باہر سے ٹیسٹ کراؤ پے کر کے آؤ ،کیونکہ ٹیسٹ بھی آج کل بہت مہنگے  ہیں ۔ الحمدللہ جو ہمارا 50 سے زائد پیشنٹس کی جو منتقلی ہے بہتر ہاسپٹلز میں بہتر ہیلتھ فیسلٹیز میں وہ ہو چکی ہے اور اس میں سے 99.9 پرسنٹ وہ لوگ تھے جو کہ گاڑی کا کرایہ بھی افورڈ نہیں کر سکتے تھے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کی تو وہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ وہ جان بچ رہی ہے کوئی چھت سے گر گیا پیرالائز ہو گیا اس کو ہم نے شفٹ کیا کسی کی کوئی اور انجری ہو گئی ،ہارٹ ہارٹ کے بہت زیادہ پیشنٹس ہیں جو کریٹیکلی ان ہوتے ہیں ان کو ہم نے یہ ایمبولنس کو استعمال کر کے ہم نے شفٹ کیا ہے تو یہ بھی اللہ تعالی کا بڑا شکر ہے پنجاب اینڈ فرسٹ ان پاکستان مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔

مریم نواز نے کہا  اسی طرح چلڈرن ہارٹ سرجری کا بھی ہم نے کارڈ لانچ کیا ہوا ہے اس پہ تقریبا تقریبا 7800 سرجریز ہو چکی ہیں اور جو بہت لمبا بیک لاک تھا پچھلے پانچ چار سال میں جوجمع ہو گیا تھا تو پرائیویٹ ہاسپٹلز کو بھی ہم پے کر رہے ہیں جہاں پر اچھی فیسلٹی ہے سرجری کی وہ ہو یا پی ڈی ایٹرکس کی جو کارڈی ایک فیسلٹیز ہیں وہ ہو ہم جو پرائیویٹ ہاسپٹلز ہیں وہاں پر بھی فری آف کاسٹ بچوں کی جو سرجری ہو رہی ہے اور وہ جو بیک بلاک پچھلے پانچ سال چھ سال میں جمع ہوا تھا وہ اب ختم ہو رہا ہے ریپڈلی وہ سرجریز بھی ہو رہی ہیں ۔اس میں بہت سارے بچے کے پی کے سے آئے تھے آزاد کشمیر سے آئے تھے بلوچستان سے آئے تھے جن کی ہارٹ سرجری ہوئی ہے ۔ اونسٹلی جب میں ان بچوں کے پاس گئی جب ان کی ابھی سرجری نہیں ہوئی تھی وہ بچے کریٹیکل تھے اور تین تین سال سے سرجری کے لیے ویٹ کر رہے تھے اور بہت سارے بچے ایسے تھے جن کی پچھلے کئی سال میں وفات ہو گئی کیونکہ ان کو ٹائملی ان کو نہیں بچایا جا سکا ان کی سرجری نہیں ہو سکی ۔ اب ریپڈلی جو کیسز فارن انٹروینشن مانگتے ہیں فارن سرجری مانگتے ہیں ہم نے ان کی میپنگ کی ہوئی ہے ان کو ہم پرائورٹی بیسز پہ ان کی سرجری ہم کروا رہے ہیں۔ اسی طرح جو کلینکس ا ویلز ہیں جیسے میں نے آپ کو ابھی کہا کہ اس میں بھی ہم کوشش یہ کر رہے ہیں کہ اس کی تعداد میں ہم اضافہ کریں اور ٹیلی میڈیسن وہ بھی میں میں ابھی ایک منصوبے پہ چائنہ کے ساتھ مل کے کام کر رہی ہوں کہ اگر کسی کو رورل ایریا میں آپ کو فوری میڈیکل ہیلپ کی ضرورت ہے تو بجائے اس کے کہ آپ ہاسپٹل میں چل کے آئیں ٹیلی میڈیسن لے کر اور ایک ان کا ایک چھوٹی سی ان کی مشین ہے جو انسٹنٹلی ڈائیگنوز کر لیتی ہے وہ ای سی جی بھی کر لیتی ہے اس کا مجھے اب نام میرے ذہن میں نہیں آرہا لیکن وہ ایک وہ بھی ایک گراؤنڈ بریکنگ انٹینشن ہے تو ہماری ان سے ابھی بات چیت چل رہی ہے تو میں یہ سوچتی ہوں کہ اگر موٹر بائک پہ وہ  کوئی پیرا میڈک ہے جو اس کو چلانا جانتا ہے وہ ہاسپٹل اگر کسی کو ضرورت ہے اور گھر پہ ٹریٹ ہو سکتا ہے تو اس کے گھر پہ ڈور سٹیپ پہ وہ جائے اور اگر اس کو قدر کنسنٹریشن کی ضرورت ہے ایڈوانس کنسنٹریشن کی ضرورت ہے تو وہ ٹیلی میڈیسن کے تھرو یا پھر فون پہ ہم لنکیجز بنا دیں وہ اسی وقت کسی جو کنسلٹنٹ ہے اس سے رابطہ کرے اس کا رابطہ ہو جائے اور وہ اس کو گائیڈ کر دے کہ ٹریٹمنٹ جو ہے وہ لوکل ڈاکٹر جو ہے وہ کیسے کرنا ہے۔ اس نے تو یہ بہت ساری چیزیں ہیں جس کو ہم کر رہے ہیں لیکن میں یہ بات ضرور یہ جو ینگ ڈاکٹرز ہمارے پاس بیٹھے ہوئے ہیں میرے سامنے میں آپ کو یہ ضرور کہنا چاہتی ہوں کہ ایک آپ کا موٹو یہ ہونا چاہیے ٹھیک ہے بزنس وائز بھی آپ کو اس کو فیزیبل بنانا چاہیے آپ نے کمانا بھی ہے آپ نے اپنا آپ کے پاس بھی فیملیز ہیں جن کی  آپ نے لک افٹر کرنا ہے لیکن آپ کا جو گائیڈنگ پرنسپل ہے آپ کی جو گائیڈنگ لائٹ ہے وہ یہ ہونا چاہیے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچانا اور اللہ تعالی نے آپ کے ہاتھ میں وہ پاور رکھی ہے اللہ تعالی نے آپ کو وہ ہنر دیا ہے اللہ تعالی نے آپ کو وہ سکل دی ہے اور اللہ تعالی نے وہ آپ کو جو ریکویسٹ نالج ہے وہ آپ کے پاس ہے آپ جانیں بچا سکتے ہیں آپ انسانیت کو بچا سکتے ہیں


 ہیلتھ منسٹری بھی اکیلی کچھ نہیں کر سکتی ۔ ائسولیشن میں گورنمنٹس کام نہیں کر سکتی مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے اور یہ ڈیڑ سو ہیلپنگ ہینڈز جو میرے سامنے بیٹھے ہیں اللہ تعالی آپ کو کامیاب کرے آپ ایک انسان کو آپ کے ہاتھ سے شفا ملے گی تو آپ امیجن نہیں کر سکتے کہ وہ رہتی دنیا تک وہ آپ کے لیے صدقہ  جاریہ بنے گا ملٹیپلائی ہوگا تو اپنے جو کلینکس آپ کو آج ہینڈ اوور ہو جائیں گے ان کی ان کو مینٹین کرنا ان کی جو انوائرمنٹ ہے لوگوں کے لیے اس کو ویلکمنگ بنانا اس کو صاف ستھرا رکھنا اس کی پرآپر مینٹیننس کرنا تاکہ جو پیشنٹ واکنگ کرے اس کو کوئی چینج پی لو اور ہر یہ جو ا 2500 ڈی ایچ یوز ہیں میں نے جیسے آپ کو کہا کہ اگر یہ افیکٹولی کام شروع کر دیں تو آپ سوچیں 2500 نے ہاسپٹلز جو ہیں وہ ہر ویسنٹی میں کھل جائیں گے تو یہ ہے میرا  ویژن ، تاکہ لوگوں کو اپنی گلی  اپنے محلے اپنے گاؤں سے یا اپنی ویسنٹی سے باہر نہ جانا پڑے وہ تمام بیسک سہولیات ان کو آپ کے کلینک میں مل جائیں

مریم نواز نے  ڈاکٹرز کو سٹیج پر بلوا لیا اور ان کے ساتھ تصاویر بھی بنوائیں