سٹی42: پاکستان پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں 108 صفحات پر مشتمل جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا،چیف جسٹس فائز عیسی کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ 8 جنوری کو سماعت کرے گا۔
سپریم کورٹ میں بلاول بھٹو کی جانب سے بھیجے گئے جواب میں جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا انگریزی اور اردو ترجمہ بھی منسلک ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ کل8 جنوری کو ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت کرے گا۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے خلاف صدارتی ریفرنس سے متعلق 108 صفحات پر مشتمل تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔ تحریری جواب بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں جمع کروایا۔
تحریری جواب میں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ آف پاکستان میں ہونے والی سنگین زیادتی جسے پیپلز پارٹی نے عدالتی قتل قرار دیا ہے، پر روشنی ڈالنے والے مختلف کتابوں کے حوالے اورسابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے ایک مشہور انٹرویو کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔ چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کی یو ایس بی اور سی ڈی کے ساتھ مذکورہ انٹرویو کی انگریزی اور اردو میں ٹرانسکرپٹ بھی جمع کروائی گئی ہے۔
سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا انٹرویو
سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے صحافی افتخار احمد سے اپنے اس انٹرویو میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمہ میں ہونے والی سنگین زیادتیوں کا اعتراف کیا تھا۔ وہ خود بھی سپریم کورٹ میں بھٹو کی اپیل کا مقدمہ سننے والے ججوں میں شامل تھے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ سات رکنی بنچ کےان 4 ججوں میں شامل تھے جنہوں تین ججوں کی جانب سےبری کرنے کی رائے کے برعکس بھٹو کی سزائے موت کے حق میں فیصلے دیا تھا نسیم حسن شاہ نے کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں ججوں پر دباؤ تھا جس کے تحت انہیں پھانسی کی سزا دی گئی۔ اس انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے کہا تھا کہ انہیں اپنی نوکری بچانا تھی، اگر وہ سزا نہ دیتے تو ان کی نوکری جا سکتی تھی۔ بھٹو کی سپریم کورٹ مین اپیل کے فیصلہ میں جسٹس دراب پٹیل، جسٹس حلیم ار جسٹس صفدر شاہ نے انہیں سزا دینے کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔
افتخار احمد کے ساتھ انٹرویو میں نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا کیونکہ ان کی بھٹو سے ذاتی دشمنی تھی۔
نسیم حسن شاہ نے اس انٹرویو میں یہ بھی اعتراف کیا کہ بھٹو کےمقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا اور یہ مقدمہ زیادہ سے زیادہ نرم سزا کے لیے موزوں تھا۔ نسیم حسن شاہ نے اس انٹرویو میں یہ بھی بتایا کہ بھٹو کے وکلاء نے عدلیہ کے ججوں کو ناراض کردیا تھا اور یہ بھی ان کے خلاف فیصلہ کی ایک وجہ تھی۔ افتخار احمد کے سوال کے جواب میں نسیم حسن شاہ نے کہا کہ ہو تو سکتا تھا مگر وہ جوا ن کا وکیل (یحیٰ بختیار) ہے وہ کہتا ہے مجھے سزا کی کوئی پرواہ نہیں، مجھے تو acquittalچاہئے، میں سمجھتا ہوں بھٹو یعنی جو ہے…
افتخار احمد نے اس پر کہا کہ آپ descending note تو دے سکتے تھے۔نسیم حسن شاہ نے جواب دیا۔ "دے تو سکتا تھا مگر میرے خیال میں اس میں کچھ تھوڑی سی ہماری بھی کمزوری ہے اور کچھ یحییٰ بختیار کی بھی ضد تھی، اس نے ہمیں ایک قسم کا ناراض کردیا۔" افتخار احمد اس پر سوال کیا، یحییٰ بختیار نے آپ کو ناراض کردیا، دیکھیں سر آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ بھٹو کو benefit of doubt ملنا چاہئے تھا، اگر اس کوآپ ذاتی طورپر تسلیم کرتے ہیں، جیسا آپ نے مانا تو اگر آپ descending note لکھ دیتے تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف نہ ہوتی؟
نسیم حسن شاہ نے اس سوال کے جواب میں کہا، " پتا نہیں مختلف ہوتی یا نہیں ہوتی، کم از کم اس ( ذوالفقار علی بھٹو ) کی جان بچ جاتی، مجھے بھی بعد میں اس کا کافی افسوس رہا۔"
نسیم حسن شاہ کا یہ انٹرویو شائع ہونے کے بعد پیپلز لائر فورم کے وکیل طاہر حنیف نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک آڑٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر کر کے مطالبہ کیا تھا کہ نسیم حسن شاہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ اس آئینی درخواست کو ایک مرتبہ مسترد کئے جانے کے بعد دوسری مرتبہ درخواست آنے پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے لئے منظور کر لیا تھا، تب وہ لاہور کؤہائی کورٹ کے جج تھے۔ بعد ازاں دو رکنی بنچ نے طاہر حنیف ایڈووکیٹ کی درخواست مسترد کر دی تھی۔ اس وقت کے بعد اب پیپلز پارٹی کی جانب سے نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کو بھٹو کیس میں اپنے جواب کا حصہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔
جسٹس نسیم حسن شاہ نے سنہ 2002 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں بھی یہ تذکرہ کیا تھا کہ سابق وزیر اعظم اور بھٹو کی بیٹی بینظیر بھٹو نے اس پختہ عزم ظاہر کیا تھا کہ وہ اپنے والد کے خلاف مقدمہ کو ری اوپن کرائیں گی ۔
جسٹس نسیم حسن شاہ نے18 اپریل 1993 سے 14 اپریل 1994 تک چیف جسٹس آف پاکستان کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔ انھیں برصغیر کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں جج کی کرسی پر کام کرنے کا موقع ملا۔جسٹس نسیم حسن شاہ 39 سال کی عمر میں ہائی کورٹ کے جج بنے اور 65 برس کی عمر میں سپریم کورٹ سے ریٹائرڈ ہوئے۔