ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جنوری معلوم انسانی تاریخ کا گرم ترین جنوری نکلا، ہولناک کلائمیٹ چینج کی نئی نشانی سامنے آ گئی

Climate Change, The honest ever January, City42
کیپشن: یہ جنوری ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے کے اٹھارہ مہینے بھی انسانی تاریخ کے موسم کے دستیاب ریکارڈز کے تناظر مین گرم ترین مہینے تھے۔ اس سے ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ فروری بھی مختلف نہین ہو گا۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:   یہ جنوری وہ جنوری نہیں تھا جس میں گرم سویٹر اوڑھ کر، جیکٹ میں خود کو چھپا کر ہم گرما کرم چکن کارن سوپ پینے کے لئے، منہ سے بھاپ اڑاتے ہوئے گھروں سے باہر نکلا کرتے تھے ، یہ جنوری دراصل ایک نئے زمانہ کا جنوری تھا جو گزشتہ زمانہ کی نسبت گرم ہے۔

 اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ یہ جنوری معلوم تاریخ کا گرم ترین جنوری تھا۔ اس سے پہلے دسمبر، دسمبر سے پہلے نومبر بھی معلوم تاریخ کے گرم ترین دسمبر اور نومبر تھے۔

ہمارے موسم بدل کیوں رہے ہیں، نومبر، دسمبر اور  جنوری میں پہلے جیسی خنکی اب کیوں نہیں؛ اس سادہ سوال کا جواب پیچیدہ ہے، آسان لفظوں میں اسے " کلائمیٹ چینج" کیہا جا رہا ہے۔ 

کلائمیٹ کیسے تبدیل ہو رہا ہے، اس کے اثرات زمین پر ہر جگہ یکساں کیوں نہیں ہیں، آخر ان ہی مہینوں میں دنیا کے بعض علاقوں میں انسانوں اور دوسرے جانداروں نے سرد ترین موسم کو بھی تو بھگتا ہے؛ اس سوال کا جواب زیادہ پیچیدہ ہے تاہم اسے سادہ ترین الفاظ میں سمجھنے کی کوشش کی جائے تو یہ یوں ہے کہ کلائمیٹ کی تبدیلی ہر گہ جلوہ دکھا رہی ہے، کہاں کیسے، اس معاملہ کو سمجھنا بہرحال پیچیدہ ہی رہے گا  کیونکہ درحقیقت کلائمیٹ/ موسم ہماری زمین پر ہمارے سامنے ظہور پذیر ہونے والے قدرتی فنامناز میں سے پیچیدہ ترین ہے۔ موسم اور کلائمیٹ کی تشکیل کے عوام کچھ معلوم ہیں، کچھ کے متعلق ہم محض مفروضوں کی بنیاد پر رائے رکھتے ہیں۔

جو بات ہر کامن سینس رکھنے والے انسان کو سمجھ آ  رہی ہے وہ یہ ہے کہ موم بدل رہے ہیں اور موسم  کی تبدیلیوں کے اثرات مسلسل سامنے آ رہے ہیں، اس کئی سال سے بتدریج ہو رہی تبدیلی کا ایک مظہر گرم ترین جنوری ہے،  اب سائنسدانوں نے دنیا کے ٹمپریچرز کی احتیاط کے ساتھ  پیمائش کرنے کے بعد  گزشتہ مہینے کو انسانی تاریخ کا گرم ترین جنوری قرار دیا ہے۔


یورپی موسمیاتی ادارے Copernicus کلائیمٹ چینج سروس (سی سی سی ایس) نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنوری 2025 میں اوسط عالمی درجہ حرارت صنعتی زمانہ سے پہلے کے مقابلے میںپونے دو ڈگری ( 1.75 ڈگری) سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

جنوری، اس سے پہلے دسمبر اور نومبر کے قدرے گرم ہونے کی ایک قرین قیاس وجہ بحرالکاہل کے قدیمی موسمی فنامنا لانینا  کے ادھورے ظہور کو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔اب دسمبر مین ایک بار پھر لانینا کنڈیشنز پیدا ہوئیں جو بتدریج بڑھ رہی ہیں۔ 


لانینا  ایسا موسمیاتی رجحان ہے جس کے نتیجے میں بحر الکاہل  میں اوپری سطح کے پانی کا ٹمپریچر نصف سے ایک ڈگری سیلسئیس تک گر جاتا ہے اور اس کے اثرات باقی دنیا مین دور دور تک پھیل جاتے ہیں جو مختلف علاقوں مین متضاد ہوتے ہیں۔

لانینا کے الٹ فنامنا  ایل نینو ک ہے جو بحرالکاہل مین عین اسی علاقہ میں ظاہر ہوتا ہے لیکن اس کے اثر سے سمندر کا  پالائی سطح کا پانی قدرے گرم ہو جاتا ہے۔ اس سے  زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

یورپ کے کلائمیٹ چینج سروس سی سی سی ایس کی ایکسپرٹ سمانتھا برگیس نے بتایا کہ جنوری 2025 ایک اور حیران کن مہینہ ثابت ہوا جس کے دوران درجہ حرارت کے نئے ریکارڈز بننے کا سلسلہ جاری رہا، جس کا مشاہدہ گزشتہ 2 برسوں سے کیا جا رہا ہے۔  متعدد سمندری خطوں میں جنوری کے دوران درجہ حرارت غیرمعمولی حد تک زیادہ رہا۔

19 مہینوں کا تسلسل

جنوری 2025 گزشتہ 19 مہینوں کے دوران 18 واں مہینہ تھا جس دوران عالمی اوسط درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل کے مقابلے میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔

اس معاہدے میں دنیا بھر کے ممالک سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی لائی جائے تاکہ درجہ حرارت میں اضافے کو 2 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھا جاسکے بلکہ کوشش کی جائے گی کہ وہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر نہ جائے۔

ماحول کے ٹمپریچر میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافہ کو  کو  موسم اور کلائمیٹ کےسائنسدانوں نے ناقابل تلافی نقصانات کی حد قرار دیا ہے کیونکہ اس سے دنیا کو تباہ کن حالات کا سامنا ہوگا۔

موسمیاتی ماہرین کو توقع تھی کہ ایل نینو کی جگہ لانینا کی آمد سے درجہ حرارت میں کچھ کمی آئے گی لیکن لانینا پوری طرح اسٹیبلش ہی نہیں ہوا۔ اب بھی بحرلکاہل کا مسلسل مشاہدہ کرنے والے ایکسپرٹ بتا رہے ہین کہ لانینا کی تشکیل پچپن فیصد تک ہی پہنچی ہے اور اسے مکمل ہونے میں مزید کئی ماہ لگیں گے۔ 

اس دوران پیچیدگی یہ سامنے آ رہی ہے کہ لانینا آئے تب بھی اس کا امپیکٹ ٹمپریچر پر پہلے جیسا نہیں ہو گا۔

سی سی سی ایس کے جولین نکولس نے بتایا کہ جس چیز نے ہمیں حیران کیا وہ یہ ہے کہ ہمیں لانینا سے موسم سرد ہونے کا اثر نظر نہیں آیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جنوری 2025 میں پہلی بار اس مہینے میں عالمی اوسط درجہ حرارت 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد ریکارڈ ہوا۔

ماہرین نے بتایا کہ اگر درجہ حرارت مسلسل 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد رہا  تو ہیٹ ویوز، شدید بارشوں اور خشک سالی کی شدت اور دورانیے میں بھی اضافہ ہوسکتا ہے۔

 توقع ہے کہ 2025 گزشتہ 2 برسوں یعنی 2023 اور 2024 کی طرح بہت زیادہ گرم ثابت نہیں ہوگا مگر پھر بھی یہ انسانی تاریخ کا تیسرا گرم ترین سال بن سکتا ہے۔

ایک اہم فائنڈنگ یہ ہے کہ فوسل فیول یعنی پٹرول، ڈیزل، فرنیس آئل، کیروسین آئل  کے استعمال سے دنیا  کے ماحول مین کاربن ڈائی آکسائڈ گیس بڑھ رہی ہے اور اس کی موجودگی ٹمپریچر کو بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ اس فائنڈنگ کو لے کر دنیا کے کلائمیٹ  ایکٹیوسٹ مسلسل کوشش کر رہے ہین کہ بنی نوع انسان فوسل فیول کے استعمال سے پیچھے ہٹ جائیں اور انرجی کے متبادل ذرائع کو اپنی انرجی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے بروئے کار لائیں۔ پیرس  کلائمیٹ معاہدہ میں  طویل المعیاد بنیادوں پر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ  کے عمل کو روکنے کے لئے دنیا کے بہت سے ملکوں نے مل کر طے کیا کہ وہ کئی اہم اقدامات کے ساتھ  یہ بھی کریں گے کہ فوسل فیول کے استعمال کو کم کرنے والی پالیسیاں بنائیں گے۔  دنیا کے لئے ایک بری خبر گزشتہ دسمبر کی 20 تاریخ کو یہ آئی کہ امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو پیرس معاہدہ سے نکالنے کا اعلان کر دیا اور فوسل فیول کے استعمال اور پیداوار کو بڑھاوا دینے والی پالیسیاں اپنانے کا اعلان کر دیا۔