(ویب ڈیسک)کرپٹو کرنسی کا لین دین انڈیا اور پاکستان دونوں میں خاصا مقبول ہے۔ ایک طرف تو پاکستان میں کرپٹو کرنسی پر مکمل پابندی کی بات کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب انڈیا نے گذشتہ ہفتے اعلان کیا ہے کہ کرپٹو کرنسی جیسے ڈیجیٹل اثاثہ جات کے لین دین پر 30 فیصد ٹیکس لگایا جائے گا۔ اس اعلان کو انڈیا میں کرپٹو کرنسی کو قانونی درجہ دینے کی سمت میں پہلے قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان کی، کیا پاکستان انڈیا کے اس اقدام سے کوئی سبق سیکھ سکتا ہے اور کیا انڈیا جیسے اقدامات کرنا پاکستان کے مفاد میں ہو گا؟ پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے موجودہ صورتحال اور پالیسی کیا ہے؟
پاکستان میں کرپٹو والیٹ ایپس مثلاً ’بائنانس‘ کی مقبولیت سے یہ تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروں افراد کرپٹو تجارت سے وابستہ ہیں لیکن پاکستانی حکام کا کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مؤقف قدرے واضح نہیں رہا ۔
سنہ 2018 میں سٹیٹ بینک نے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا کہ کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اس اعلامیے میں بینکوں کو تجویز کیا گیا تھا کہ وہ اپنے صارفین کو کرپٹو کرنسی میں لین دین کی سہولت فراہم نہ کریں۔
اکتوبر 2020 میں قومی اسمبلی میں ایک توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت علی محمد خان نے کہا کہ کرپٹو کرنسی ایک نئی ٹیکنالوجی ہے، سٹیٹ بینک اس سلسلے میں کام کر رہا ہے، اور ہم نئی ٹیکنالوجی کے لیے دراوزے بند نہیں کر سکتے۔ علی محمد خان نے کہا تھا کہ ملک نے کرپٹو کرنسی کی طرف جانا تو ہے، نئی کرنسی کے معاملے پر سٹیٹ بینک محتاط ہے اور خواہش کے کہ اس معاملے میں احتیاط سے پیشرفت ہو۔
اس سے قبل صوبہ خیبر پختونخوا کی جانب سے کرپٹو کرنسی کی مائننگ کا سیٹ اپ لگانے اور اس حوالے سے ایک کمیٹی بنانے کی خبریں بھی میڈیا میں آئیں۔گذشتہ سال گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر نے خبر رساں ادارے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا ادارہ کرپٹو کرنسی پر تحقیق کر رہا ہےتاہم سٹیٹ بینک کے مؤقف کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو بینک نے سندھ ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ کرپٹوکرنسی ’غیر قانونی‘ نہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے گذشتہ سال حکومتِ پاکستان کو تین ماہ میں کرپٹو کرنسی پر قانونی سازی کا حکم دیا تھا۔
ساتھ ہی سندھ ہائی کورٹ نے ایک کمیٹی قائم کرنے کے احکامات جاری کیے جس نے حال ہی میں تجویز دی ہے کہ کرپٹو کرنسی کو ملک میں مکمل طور پر ممنوع قرار دیا جانا چاہیے۔
ادھر حال ہی میں عالمی مالیاتی ادارے ایف آئی اے نے بھی اعلان کیا ہے انہیں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ملک میں متعدد جعلی ایپس کی شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ایف آئی اے کا تخمینہ ہے کہ ان جعلی ایپس کی مدد سے ملک میں 100 ملین ڈالر کا فراڈ کیا جا چکا ہے۔ ایف آئی اے نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو بھی 1600 کرپٹو پلیٹ فارم تک رسائی روکنے کے لیے کہا ہے۔
اس لیے ابھی واضح نہیں ہے کہ کیا پاکستانی حکومت کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینا چاہتی ہے اور اس حوالے تحقیق اور قانون سازی کر رہی ہے یا پھر پاکستانی حکام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اسے بند کر دیا جائے۔