سٹی42: امریکہ کی نیوز آؤٹ لیٹ سی این این نے شام کے دارالحکومت دمشق کے باغی گروہوں کے نرغے میں آنے کی رپورٹ شائع کر دی۔ صدر بشار الاسد کے دفتر نے اس سے پہلے ان افواہوں کی تردید کی تھی کہ بشار الاسد دمشق چھوڑ کر چلے گئے۔ بشار الاسد کی حکومت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ائیر فورس کے فائٹر جیٹ شمالی شہر حمص کو باغیوں کے کنٹرول میں جانے سے بچانے کے لئے شہر کے اطراف میں بمباری کر رہے ہیں۔
مغربی ممالک اور امریکہ کے برعکس صرف اسرائیل ایسا ملک ہے جسے شام میں باغیوں کی مسلسل پیش قدمی پر تشویش ہے اور وہ گولان کے سرحدی علاقہ میں باغیوں کے خلاف اقوام متحدہ کی امن فوج کی مدد بھی کر رہا ہے۔ امریکہ کے 20 جنوری کو صدر بننے کے منتظر ڈونلڈ ٹرمپ جو خود کو "جنگ بندی کا چیمپئین" بنا کر پیش کر رہے تھے، انہوں نے شام کے شہروں پر جہادی باغیوں کے قبضے کی مسلسل آتی خبروں پر یہ کہا،" ’شام میں اس وقت بری صورتحال ہے مگر "وہ" ہمارے دوست نہیں ہیں۔‘"
حمص پر باغیوں کا قبضے کا دعویٰ
شام میں ڈیڑھ ہفتہ پہلے ابھرنے والی بغاوت تسلسل کے ساتھ پھیل رہی ہے، باغیوں نے کئی شہروں کے بعد آج حمص شہر پر بھی قبضہ کر لیا۔ باغیوں کے حملے اس قدر شدید ہیں کہ دارالحکومت دمش سے صدر بشار الاسد کے فرار ہونے کی افواہ پھیل گئی۔ شام کے اہم شہر حمص میں باغیوں کے داخل ہو نے کے بعد شہر پر قبضہ کے لئے شدید لرائی ہو رہی ہے۔ اس دوران صدر بشار الاسد کی حکومت کے اہلکاروں نے بشار الاسد کے دمشق چھوڑنے کی خبروں کی تردید کی ہے۔
برٹش نیوز آؤٹ لیٹ بی بی سی نے بتایا ہے کہ باغی دمشق کے شمال اور جنوب کی طرف سے دارالحکومت کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔باغیوں کے کئی دستے حمص شہر میں داخل ہو چکے ہیں۔
شام کے صدر بشاالاسد کے دفتر نے بشار الاسد کے دمشق چھوڑ دینے کی خبروں کی تردید کی ہے۔ ان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں صدر بشارالاسد کے فرار کی افواہ کو فیک نیوز قرار دیا اور بتایا کہ صدر بشارالاسد دمشق میں اپنے کام کر رہے ہیں۔
دمشق گھیرے میں میں
سی این این نے پاکستانی وقت کے مطابق شب دس بج کر بیس منٹ پر اپنے اپ ڈیٹ میں بتایا کہ شامی باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ دمشق کو گھیرے میں لے رہے ہیں لیکن (بشار الاسد کی) فوج نے پسپائی سے انکار کیا ہے۔
سی این این کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شامی باغیوں نے حلب میں حملے کے بعد ملک بھر پر قبضہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
شام کا باغی اتحاد دمشق کے قریب پہنچ رہا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ انہوں نے دارالحکومت کو گھیرے میں لینے کا اپنا "آخری مرحلہ" شروع کر دیا ہے۔۔
شامی فوج نے باغیوں پر فیک نیوز کے ذریعہ خوف و ہراس پھیلانے کا الزام لگاتے ہوئے اپنی کسی پسپائی کی تردید کی ہے۔ شام کے صدر نے کہا کہ شامی رہنما بشار الاسد دمشق سے نہیں نکلے ہیں۔ دمشق کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ شہر "تناؤ اور خوف و ہراس کی حالت" میں ہے۔
جنوب میں، صوبہ درعا کے ساتھ ایک نئی بغاوت ابھری، وہاں کے باغیوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے دارالحکومت کی طرف چارج کرتے ہوئے ایک بڑے فوجی اڈے پر قبضہ کر لیا ہے۔
شام کے مغربی کنارے پر، باغی تیزی سے حمص کے بڑے شہر کی طرف بڑھ رہے تھے - جہاں کے رہائشی حکومت مخالف اور حکومتی افواج کے درمیان ممکنہ دشمنی سے پہلے فرار ہو رہے ہیں۔
سی این این نے بتایا کہ حلب اور حما پر قبضہ کرنے کے بعد، باغی فورسز اب شمال سے بڑے شہر حمص کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ جہاں کے رہائشی اپوزیشن اور حکومت کے جنگجوؤں کے درمیان ممکنہ جھڑپوں سے قبل فرار ہو رہے ہیں۔ باغیوں کے الگ الگ دھڑے بھی ملک کے جنوب میں شامی افواج سے برسرپیکار تھے۔ ان اپوزیشن فورسز کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جنوب مغربی شام میں درعا شہر کا کنٹرول سنبھال لیا ہے - جہاں ملک میں 2011 کی بغاوت شروع ہوئی تھی۔
شام کی جنگ کا پس منظر
شام کی موجودہ جنگ دراصل 13 سال سے جاری خانہ جنگی کا تسلسل ہے، گزشتہ کئی سال سے یہ خانہ جنگی دب گئی تھی کیونکہ روس کی ائیر فورس، ایران کی ائیر فورس، کمانڈوز اور حزب اللہ سے لے کر پاکستان تک کئی ملکوں سے گئے ہوئے رضاکاروں کی مشترکہ کوششوں سے بشار الاسد کے مخالف مختلف الخیال باغی گروہ کئی علاقوں پر قبضے کرنے کے بعد ایک ایک کر کے تقریباً تمام شہروں سے باہر نکل کر منتشر ہو گئے تھے۔اکتوبر اور نومبر کے دو مہینوں کے دوران جب حزب اللہ، ایران لبنان میں اسرائیل کے براہ راست شدید حملوں سے نبٹنے میں پھنسے ہوئے تھے، شام کے مختلف علاقوں میں منتشر باغی گروہوں نے خاموشی سے خود کو کسی بڑے حملے کے لئے تیار کیا اور نومبر کے آخری ہفتے جب دنیا لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کامیاب ہونے پر خوش تھی، عین اسی وقت شام میں جہادی اور دوسرے گروہ مل کر بشار الاسد کے کنٹرول میں موجود شہروں میں گھس کر قبضے کر رہے تھے۔
بغاوت کا آغاز
2011 میں نام نہاد جمہوری لبرل تحریک "عرب سپرنگ" کے عروج پر، جمہوریت کے حامی ان دیکھے طریقوں سے منظم ہو کر شام میں سڑکوں پر نکل آئے اور سابق آمر حافظ الاسد کے بیٹے اور موروثی صدر بشار الاسد کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ ان مظاہرین کو فوج کی جان لیوا طاقت کا سامنا کرنا پڑا۔ 2014 تک، انتہا پسند گروپوں نے حزب اختلاف کے اتحاد کے اندر اعتدال پسندوں کو پیچھے چھوڑ دیا، اور دولت اسلامیہ الشام والعراق داعش/ ISIS نے ملک بھر میں منطم ہو کر شہروں اور دیہاتوں پر قبضے کرنا شروع کر دیئے۔
سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (SDF) - کرد جنگجوؤں پر مشتمل ایک امریکی شراکت دار - نے کرد علاقوں میں داعش کی مداخلت کے بعد براہ راست داعش/ ISIS کے خلاف جنگ لڑی، جس سے کرد علاقوں میں داعش کے علاقائی وجود کو مؤثر طریقے سے ختم کیا گیا۔
پھر 2020 میں، روس اور ترکی نے اپوزیشن کے زیر قبضہ آخری باقی ماندہ صوبے ادلب پر اپنی پراکسی جنگ میں جنگ بندی پر اتفاق کیا۔
باغیوں کا حالیہ ابھار
لیکن اب یہ حملہ باغیوں کا "ملٹری آپریشنز کمانڈ" کے نام سے ایک نیا اتحاد بنانے کے بعد شروع ہوا۔ ہئیتِ تحریر الشام کے جہادی کارکن اور دیگر گروہوں کے باغی حلب سے باہر کے دیہاتوں میں تیزی سے پھیل گئے، اور اس شہر اور قریبی دیہاتوں کے رہائشیوں نے اب کہا ہے کہ وہ شہر کے زیادہ تر حصے پر قابض ہیں، راستے میں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جہادی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ مقبوضہ علاقے کو آزاد کرانے کی کوشش کر رہے ہیں اور حکومتی فورسز اور ایران نواز ملیشیا گروپوں کے حملوں کا جواب دے رہے ہیں۔
دارالحکومت دمشق کے باہر
بشار الاسد کے مخالف جنگجو ہفتے کے روز دمشق کے دیہی علاقوں میں واقع کاناکر قصبے میں گھس گئے۔ ہفتہ کی شب تک بیشتر مغربی اور امریکی نیوز آؤٹ لیٹس یہ بتا رہی ہیں کہ شام کا باغی اتحاد دمشق کے ارد گرد شمالی اور جنوبی حصوں سے اسد کی فوجوں سے لڑ رہا ہے۔
صدر بشار اب بھی دمشق میں
شام کے صدر کے دفتر نے بتایا ہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ دارالحکومت کی طرف باغیوں کی پیش قدمی تیز ہو رہی ہے، بشار الاسد دمشق میں اپنی حکومت کی قیادت معمول کے مطابق کر رہے ہیں۔ انہوں نے بشار کے دمش سے نکل کر چلے جانے کی افواہوں کو منظم فیک نیوز کیمپین قرار دیا۔
شامی فوجی عراق میں
شامی فوج کے 1,000 سے زیادہ فوجی مشرقی شام میں ایک سرحدی گزرگاہ کے ذریعے عراق پہنچے ہیں، عراق کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے ایک بیان میں ایک فوجی ذرائع کے حوالے سے ان فوجیوں کے سرحد پار کر کے آنے کی تصدیق کی گئی ہے تاہم اس ضمن میں مزید معلومات سر دست سامنے نہیں آئیں کہ یہ فوجی عراق کیوں چلے گئے۔ گمان غالب یہ ہے کہ وہ اس علاقہ میں باغی گروہوں کے حملے سے بچنے کے لئے علاقہ چھوڑ کر نکلے ہیں۔
روس کا جواب
بشار الاسد کے مخالف باغیوں کو چند سال پہلے کچلنے والے روس کی جنگی مشین اب بھی شام میں موجود ہے تاہم وہ بھی باغیوں کے منظم ہونے اور ان کے اچانک حملوں کا فوری جواب دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ اب وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے بقول روس "ہر وہ چیز" کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو وہ کر سکتا ہے تاکہ شام میں "دہشت گردوں کو غالب آنے نہ دے"۔
ماسکو میں وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے ہفتے کے روز کہا۔ روسی جیٹ طیارے 2015 سے باغی جنگجوؤں کو نشانہ بنانے میں اسد کی افواج کی مدد کر رہے ہیں، بشمول جب مسلح حزب اختلاف کے باغیوں نے گزشتہ ہفتے اپنا تازہ ترین حملہ شروع کیا تھا۔
بشار الاسد نے موقع ضائع کیا؟
شام کے اندر بغاوت کی نئی لہر پر پڑوسی قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمن الثانی نے یہ تبصرہ کیا، بشار الاسد نے اس عرصے کے دوران شامی عوام کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے کے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جب ملک میں خانہ جنگی ختم ہو چکی تھی۔
جنگ بندی کا نام نہاد داعی ٹرمپ شام میں جنگ بندی نہیں چاہتا
امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز شام کی بڑھتی ہوئی تشویش ناک صورتحال پر غور کیا لیکن غالباً وہ صرف ایک ہی نکتہ پر غور کرتے رہے کہ بشار الاسد تو روس کا اتحادی ہے۔ ٹرمپ نےسوشل میڈیا پر پوسٹ کیا کہ امریکہ کو اس میں ملوث نہیں ہونا چاہیے۔
اسرائیل کی تشویش
اسرائیل غالباً مغربی بلاک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک سے کہیں زیادہ شام کی صورتحال کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے۔ ایران اور روس کے تو بشار الاسد کے ساتھ گہرے تزویراتی مفادات وابستہ ہیں جس کی وجہ سے انہیں باغیوں کے نئے ابھار پر تشویش ہے، اسرائیل کی وجہ اس کے برعکس یہ ہے کہ جو باغی ابھر کر شام میں پھیل رہے ہیں ان میں سے بہت سے انتہا پسند اسلامی جہادی ہیں۔ شام میں اسلامی جہادیوں کی نئی سیف ہیونز بننے سے اسرائیل اپنی گولان کی سرحد کو ہی مستقبل میں غیر محفوظ نہیں سمجھھ رہا بلکہ وہ جہادیوں کے مقبوضہ علاقوں میں اپنے خلاف نئی مسلح گروہ بندیوں کے ابھرنے سے بھی خائف ہے۔
ہفتے کے روز آنے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے گولان کے علاقہ میں اپنی فوج کی تعداد بڑھا دی ہے اور اسرائیل اس علاقہ میں شامل سرحد کے پار کام کرنے والی اقوام متحدہ کی امن فوج کی ہر طرح سے مدد کر رہا ہے۔
اردن شام سرحد بند
شام کے اندر باغی گروہوں کے نئے ابھار کے بعد آج اردن نے شام کے ساتھ اپنی سرحد بند کرنے کا اعلان کر دیا۔ جہادی باغیوں کے شام کے شہروں اور دیہات پر مسلسل قبضوں کے بعد ان شہروں اور دیہات میں رہنے والے بہت سے شامی باشندے خوف کے باعث نقل مکانی کر رہے ہیں۔ اردن کی جانب سے سرحد بند کرنے کے اعلان کے باوجود اردن کی سرحد پر نقل مکانی کرنے والے شامیوں کا دباؤ آنے کا امکان موجود ہے۔
باغی اس وقت کہاں کہاں قابض ہیں؟
جنوبی شام میں باغی گروہوں نے اہم علاقے درعا کے بیشتر قصبوں اور گاؤں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سے سنہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاج اور بعد ازاں بغاوت نے جنم لیا تھا۔
برطانیہ میں کام کرنے والے نجی ادارے سیرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق ’مقامی گروہ‘ سرکاری فوج کے ساتھ شدید لڑائیوں کے بعد علاقے میں متعدد عسکری مقامات کا کنٹرول سنبھال چکے ہیں۔
روئٹرز نیوز ایجنسی نے بتایا ہے کہ مطابق باغیوں سے قریب ذرائع نے انھیں بتایا کہ جنگجوؤں نے شامی فوج کے اہلکاروں کو علاقے سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا ہے۔ شام کا دارالحکومت دمشق اس لشہر سے 100 کلومیٹر دور ہے۔
شامی فوج نے تصدیق کی کہ شمالی شہر حمص کو باغیوں کے قبضہ مین جانے سے بچانے کے لئے اس کے اطراف میں فضائی حملے کئے جا رہے ہیں۔
جنوبی شام میں باغی گروہ نے درعا کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔