سٹی 42:ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک کے پیچھے ٹیکنالوجی کے 37 سالہ ارب پتی چینی ماہر جانگ یمنگ ہیں۔ ان کی نگاہوں نے نوجوانوں میں موجود رجحان کو بھانپ لیا اور اس طرح ان کی ایپ کو دنیا بھر میں بے پناہ کامیابی ملی لیکن ہو سکتا ہے کہ ان کی ایجاد کرنے کی صلاحیت اتنی نہ ہو کہ امریکہ کی پرکشش مارکیٹ کو کمپنی کے لیے محفوظ رکھ سکے۔تین سال پہلے ٹاک ٹاک لانچ ہونے کے بعد اسے دنیا بھر میں دو ارب افراد نے ڈائون لوڈ کیا اور امریکہ اوربھارت اس کی دو بڑی بین الاقوامی مارکیٹیں بن گئیں۔جو کہ چین کی سب سے بڑی مخالف عالمی قوتیں ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جانگ یمنگ کو ان دنوں انتہائی دبائوکا سامنا ہے۔ وہ دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹک ٹاک محفوظ ایپ ہے جبکہ وہ مغربی ملکوں کے مطالبات کے سامنے بظاہر نہ جھک کر چین میں اپنی ساکھ بچانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ایک طرف امریکہ اور چین کی مخالفت کی بدولت جانگ یمنگ کودو کشتیوں کی سواری میں خطرہ بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جب کہ ٹک ٹاک واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی کشیدگی میں اپنے لیے راستہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
جون میں لداخ میں بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان جھڑپ کے بعد بھارتی حکومت نے ٹاک ٹاک پر پابندی لگا دی تھی جس سے ایک بڑی مارکیٹ کمپنی کے ہاتھ سے نکل گئی۔ ٹیلی کام کمپنی ہواوے کی طرح یہ کمپنی بھی نظروں میں آ گئی جس کی وجہ وہ خدشات ہیں جن کے مطابق بائیٹ ڈانس کو صارفین کے کوائف چینی خفیہ ادارے کے ساتھ شیئر کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
کمپنی کا اصرار ہے کہ اس نے صارفین کا ڈیٹا کبھی چینی حکومت کو نہیں دیا اور نہ ہی وہ یہ معلومات کسی حکومت کو دے گی۔ اس کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس ماہ مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ میں استعمال جاری رکھنے کے لیے ٹک ٹاک چھ ماہ میں فروخت کر دی جائے یا پھر اس پر پابندی لگا دی جائے گی۔اس حوالے سے بھی خبریں گرم ہیں کہ مائیکرو سافٹ نے امریکہ میں ٹک ٹاک کو خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے اور اس حوالے سے جانگ یمنگ کی کمپنی سے مذاکرات کی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں