آج 7 ستمبر وہ تاریخ ساز دن ہے جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا اور پاکستان کے آئین میں درج کر دیا کہ حضور اقدس ﷺ ہی اللہ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اس تاریخ ساز آئین سازی کی آج گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے۔
عقیدہ ختم نبوت پر ہر مسلمان کا اتفاق اور یقین ہے۔ ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالٰیٰ کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم فرما دیا ہے۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ختم نبوت کا ذکر قرآن حکیم کی سو سے بھی زیادہ آیات میں آیا ہے، جبکہ 210 احادیث ختم نبوت کے حوالے سے ہیں۔ اس لیے آپ ﷺ کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا اور ملعون ہوگا۔ آپ ﷺ نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی تعداد تقریباً 300 کے قریب بتائی تھی۔
آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق نے نبوت کے جھوٹے دعوے دار مسیلمہ کذاب سے جنگ کی، اور اس جنگ میں تقریباً 1200 صحابہ شہید ہوئے، جن میں سے تقریباً 600 حفاظ تھے۔
ایک تحقیق کے مطابق حضور ﷺ کی زندگی میں دین اسلام اور کفار کا مقابلہ کرنے والے شہدا کی تعداد ایک ہزار سے کچھ زائد تھی، جبکہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے لڑی جانے والی جنگ میں شہدا کی تعداد اس سے زیادہ ہے۔
عقیدہ ختم نبوت اس لیے بھی پاکستان کے آئین کا حصہ ہے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 2 کے مطابق کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے قادیان کے خلاف 1954 میں ہی تحریک شروع ہوگئی تھی۔ تحریک تحفظ ختم نبوت میں 1954 میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے مطالبہ کیا گیا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور وزیر خارجہ ظفر اللہ سمیت دیگر مرزائیوں کو برطرف کر دیا جائے، ورنہ سول نافرمانی کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس عقیدہ کے تحفظ کے لیے 1954ء میں مسلمانوں نے اپنا خون بہایا۔
29 مئی 1974 کو ربوہ ریلوے اسٹیشن پر ایک واقعہ پیش آیا جس میں مسلمان نوجوانوں پر تشدد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس تحریک نے زور پکڑا اور معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا، جہاں قادیانیوں کو بھی اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ طویل دلائل کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حمایت اور مذہبی و سیاسی جماعتوں کی متفقہ حمایت سے 7 ستمبر 1974 کو پارلیمان میں قانون سازی کی گئی اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا۔
1988 میں قادیانیوں نے اپنی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کیا۔ ریاست پاکستان کی جانب سے جسٹس پیر محمد کرم جنیوا گئے اور دلائل سے پاکستانی موقف بیان کیا، ملکی و بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں دلائل دیے۔ 30 اگست 1988 کو اقوام متحدہ نے قادیانیوں کی درخواست کو مسترد کر دیا۔
چند برس قبل قادیانیوں نے ایک بار پھر فتنہ کرنا شروع کر دیا۔ 2019 میں ایک متنازع لٹریچر کی تقسیم سے لڑائی شروع ہوئی۔ 2022 میں مقدمہ درج ہوا اور نامزد ملزم مبارک ثانی کی ضمانت کے لیے سیشن اور لاہور ہائی کورٹ نے اپیل مسترد کر دی۔ ملزم مبارک ثانی نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ جہاں 6 فروری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک ایسا فیصلہ دے دیا جس نے پورے ملک کو ختم نبوت کے اس فیصلے سے پہلے لا کھڑا کیا جہاں پچاس برس قبل پاکستان کھڑا تھا۔ مذہبی جماعتوں اور سوشل میڈیا پر تحریک شروع ہوئی اور چیف جسٹس کے فیصلے کو آئین اور دین سے متصادم قرار دے دیا، اور ملک بھر میں احتجاج بھی کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے 6 فروری کو ملزم کی ضمانت اور فردِ جرم سے بعض الزامات حذف کروانے کی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہوئی جو لاہور ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد 16 اور 27 نومبر 2023 کے فیصلوں کے خلاف دائر کی گئی تھی۔
جو ایف آئی آر درج تھی، اس میں کہا گیا تھا کہ ملزم ممنوعہ کتاب ’تفسیرِ صغیر‘ تقسیم کر رہا تھا۔ ضمانت کی درخواست میں ملزم کے وکیل کا مؤقف تھا کہ ایف آئی آر کے مطابق اس جرم کا ارتکاب 2019 میں کیا گیا، جبکہ کسی بھی ممنوعہ کتاب کی تقسیم یا اشاعت کو پنجاب قرآن شریف (ترمیم) قانون کے تحت سنہ 2021 میں جرم قرار دیا گیا تھا۔ اسی کو بنیاد بنا کر چیف جسٹس سمیت تین رکنی بنچ نے کہا کہ چونکہ سنہ 2019 میں ممنوعہ کتاب کی تقسیم جرم نہیں تھی، اس لیے درخواست گزار پر یہ فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی۔ اور فیصلہ دیا کہ ’آئین نے قرار دیا ہے کہ کسی شخص پر ایسے کام کے لیے فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی جو اس وقت جرم نہیں تھا، جب اس کا ارتکاب کیا گیا۔‘ اس کے ساتھ ہی حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس مقدمے میں اگر ملزم کو کسی جرم پر سزا ہو سکتی ہے تو وہ ’تفسیر صغیر‘ نامی کتاب کی اشاعت اور اس کی تقسیم کا جرم ہے، جس کی سزا چھ ماہ قید ہے اور ملزم پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکا ہے۔ ضمانت کی درخواست منظور کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے ملزم کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے اس نکتے کو نظر انداز کیا۔ جمیعت علمائے اسلام اور دیگر جماعتوں کی طرف سے احتجاج کی کال اور سوشل میڈیا پر چیف جسٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا، جس پر عدلیہ نے کہا کہ عدالتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ججز کی توہین کی جا رہی ہے۔ مذہبی جماعتوں کا کہنا تھا کہ یہ قانون ختم نبوت کے حوالے سے ہے اور اس میں رسول اللہ ﷺ کی نعوذ باللہ توہین کا عنصر ہے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے علما کرام اور مذہبی اداروں سے معاونت مانگ لی، جس پر دس اداروں کو خطوط لکھے گئے۔ علمائے کرام کے دلائل اور مشاورت کی روشنی میں 22 اگست کو سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس میں مختصر فیصلہ سنایا، جس میں 6 فروری اور 24 جولائی 2024ء کے فیصلوں کی تمام متنازعہ شقوں کو ختم کر دیا گیا اور فیصلے سے متنازعہ حصہ حذف کر دیا۔
آج تمام مذہبی جماعتیں اور تمام پاکستانی 7 ستمبر 1974 کو بننے والے ختم نبوت آئین کی گولڈن جوبلی مناتے ہوئے جشن منا رہے ہیں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کے لیے ایک ہیں اور یہ ان کے ایمان کا حصہ ہے۔