ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

ریاستی الیکشن کےایگزٹ پولز؛ کشمیر میں رام راج کا رام نام بول گیا

Kashmir Election 2024, Kashmir Exit Polls 2024, Indian Held Jammu and Kashmir, city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

وسیم عظمت: اب یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں بھی بھارتیہ جنتیا پارٹی کی ہندوتوا پرست سیاست کا رام نام بول گیا ہے۔  مقبوضہ ریاست میں ریاستی اسمبلی کی 90 نشستوں پر الیکشن کا تیسرا اور آخری مرحلہ مکمل ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کے مقرر کردہ وقت پر ایگزٹ پول سامنے آنا شروع ہو گئے۔ تقریباً سبھی اہم ایگزٹ پولز سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی مقامی اتحادی  پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو مل ملا کر 25 سے 30  تک نشستیں مل پائیں گی جبکہ نیشنل کانفرنس اور اس کی اتحادی کانگرس اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا مارکسسٹ  کو 40 سے55  تک نشستیں ملنے کا امکان ہے۔

 نیشنل کانفرنس، سی پی ایم اور کانگرس کو ملنے والی نشستیں حکومت بنانے کے لئے درکار سادہ اکثریت 46 نشستوں سے کم بھی ہوئی تب بھی وہی حکومت بنائیں گی کیونکہ وہ مقامی سطح پر چھوٹے پلئیرز کو ساتھ ملانے کی پوزیشن میں ہیں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی اتحادی محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے کسی بھی طرح حکومت بنانے کا امکان دور دور تک نہیں۔

آرٹیکل370 کے خاتمے کے بعد پہلا ریاستی الیکشن

بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے یہ ریاستی اسمبلی الیکشن ریاست کے بھارتی فیڈریشن میں نیم خود مختار حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کو ختم کئے جانے کے بعد پہلا الیکشن ہے جس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کی حامی جماعت اسلامی بھی کئی دہائیوں بعد حصہ لے رہی ہے۔ ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں 87.09 لاکھ ووٹرز کی موجودگی کی توقع ہے، جن میں سے 3.75 لاکھ ووٹر پہلی بار ووٹ دینے والے ہیں۔ ریاستی اسمبلی کے الیکشن کا پہلا مرحلہ 18 ستمبر کو ہوا تھا ۔  دوسرے مرحلے میں 26 سیٹوں پر 25 ستمبر کو پولنگ ہوئی اور آخری مرحلے میں 40 سیٹوں پر یکم اکتوبر کو ووٹنگ ہوئی۔ 

آرٹیکل 370 کے خاتمہ کے بعد بننے والی یہ ریاستی اسمبلی اب تک بننے والی تمام ریاستی اسمبلیوں سے کم با اختیار ہو گی ۔ اس بات کو لے کر کشمیر کے  بھارت کی وفاق پرست سیاست سے لاتعلق رہنے والے شہری بھی غصہ میں ہیں اور انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اپنے غصے کا مختلف طریقوں سے اظہار بھی کیا ہے جن میں سے ایک ریاست کی سیاست میں پہلی مرتبی آزادی کے نعرے کے ساتھ شریک ہونے والے امیدواروں کی غیر معمولی پذیرائی کی شکل میں سامنے آیا۔ الیکشم مہم کے دوران ملنے والی پذیرائی الیکشن میں ووٹ کی شکل میں ڈھلی یا نہیں اس کا پتہ 8 اکتوبر کو ہونے والی ووٹوں کی گنتی سے چلے گا۔

چار لیڈروں کی سیاست داؤ پر

 بھارتی مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے دوسرے مرحلہ کے الیکشن  25 ستمبر کو  ہوئے تھے۔ اس مرحلہ میں چار سیاسی جماعتوں کے سربراہوں – این سی کے عمر عبداللہ، جے اینڈ کے کانگریس کے سربراہ طارق حامد کررا، بی جے پی یونٹ کے سربراہ رویندر رینا اور اپنی پارٹی کے الطاف بخاری کا مستقبل داؤ پر لگا ہتھا۔ ووٹ تو 25 ستمبر کو پڑ گئے تھے، ان کی گنتی اب سارے حلقوں کے ووٹوں ےک ساتھ 8 اکتوبر کو ہو گی تو پتہ چلے گا کہ ان لیڈروں کو عوام نے قبول کیا یا چھوڑ دیا۔ 

عمر عبداللہ

 جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور این سی کے نائب صدر، جنہوں نے پہلے کہا تھا کہ وہ اس وقت تک اسمبلی انتخابات نہیں لڑیں گے جب تک جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال نہیں کیا جاتا، دو سیٹوں گاندربل اور بڈگام (وسطی کشمیر میں) سے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

گاندربل عبداللہ کا گڑھ تھا اور اس حلقے نے وزیر اعلیٰ کا انتخاب کیا تھا۔ عمر کو پی ڈی پی کے بشیر احمد میر اور این سی کے سابق ایم ایل اے اشفاق جبار سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ دو اور امیدوار ہیں - جیل میں بند عالم سرجان برکاتی اور سابق کشمیر چیمبر کے سربراہ شیخ عاشق، جو کہ ایر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی (اے آئی پی) کے امیدوار ہیں۔

عمر  عبداللہ بڈگام کی "محفوظ نشست" سے بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اور بااثر شیعہ رہنما آغا روح اللہ کی حمایت پر انحصار کر رہے ہیں۔

رویندر راینا 

جموں و کشمیر کے بی جے پی سربراہ رویندر رینا سرحدی ضلع راجوری کے نوشہرہ سے دوسری بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔

رائنا، فائر برانڈ لیڈر، جون 2018 میں پی ڈی پی-بی جے پی مخلوط حکومت کے خاتمے اور 5 اگست 2019 کو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے جموں و کشمیر میں بی جے پی کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔

 طارق حامد کرا 

 یہ انتخاب جے اینڈ کے کانگریس کے سربراہ طارق حامد کرا کے لیے بھی اہم ہے۔ جو سری نگر کے سنٹرل شالٹینگ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔

طارق حامد کرا کو نیشنل کانفرنس ( این سی)  کی حمایت حاصل ہے اور انہیں اپنے سابق ساتھی نور محمد اور این سی کے باغی عرفان شاہ سے مقابلے کا سامنا ہے۔

الطاف بخاری

الطاف بخاری نے مارچ 2020 میں پی ڈی پی کے دیگر سابق رہنماؤں کے ساتھ مل کر اپنی پارٹی بنائی۔ وہ سری نگر کی چنا پورہ سیٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کو این سی، پی ڈی پی اور کانگریس نے بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے۔

انڈیا ٹوڈے کا پول

انڈیا ٹوڈے سی ووٹر کے ایگزٹ پول میں نیشنل کانفرنس اور کانگرس کے اتحاد کو ریاست کی اسمبلی میں سادہ اکثریت لیتے دکھایا گیا ہے ۔ تاہم اس پول میں پی ڈی پی کی پرفارمنس غیر معمولی بہتر دکھائی گئی ہے جو  انتخابی مہم کےدوران سامنے آ چکے زمینی حقیقت سے میچ نہیں کر رہی۔

انڈیا ٹوڈے-سی ووٹر نے جموں و کشمیر میں بی جے پی کے لیے 23-27 سیٹیں اور این سی-کانگریس اتحاد کے لیے 40-48 سیٹوں کی پیش گوئی کی ہے۔ انڈیا ٹوڈے - سی ووٹر ایگزٹ پول کے مطابق، پی ڈی پی کو جموں و کشمیر میں 6-12 اور دیگر کو 6-11 سیٹیں ملیں گی۔

پیپلز پلس پول

اب تک سامنے آنے والے ایگزٹ پولز  میں پیپلز  پلس بھی کانگرس نیشنل کانفرنس اتحاد کو بہتر سیٹیں دے رہا ہے۔ 

پیپلز پلس کے مطابق، INC-NC اتحاد 46-50 سیٹوں کے ساتھ اکثریت کا ہندسہ عبور کرنے والا ہے، جبکہ بی جے پی کو 23-27 سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ پی ڈی پی کو 7-11 سیٹیں ملنے کی امید ہے جبکہ 4-6 سیٹیں دوسروں کو دی گئی ہیں۔

Axis My India J&K  ایگزٹ پول
Axis My India کے ایگزٹ پول  واحد پول ہے جس نے  بی جے پی اور NC-INC اتحاد کے درمیان قریبی لڑائی کی پیش گوئی کی ہے۔ بی جے پی کو 24-34 سیٹیں جیتنے کا امکان ہے، جبکہ INC-NC اتحاد کو 35-45 سیٹیں ملنے کی امید ہے۔ ان کے پول نے پیش گوئی کی ہے کہ پی ڈی پی 4-6 سیٹیں جیتے گی جبکہ دیگر چھوٹی پارٹیوں کو 8-23 سیٹیں  ملیں گی۔

روزنامہ بھاسکر کا پول

روزنامہ بھاسکر کے ایگزٹ پول کے مطابق، جموں اور کشمیر میں، بی جے پی کو 20-25 سیٹیں ملنے کی امید ہے جبکہ نیشنل کانفرنس-کانگریس اتحاد کو 35-40 سیٹیں ملیں گی۔ روزنامہ بھاسکر کے مطابق پی ڈی پی 4-7 سیٹیں جیت لے گی جبکہ دیگر جماعتیں اور آزاد  12-16 سیٹیں جیتیں گے۔

گلستان چینل کا پول

مقامی نیوز چینل گلستان کے ایگزٹ پول کے مطابق بی جے پی جموں و کشمیر میں 28-30 سیٹیں جیت لے گی۔ اس ایگزٹ پول کے مطابق این سی کو 28-30 سیٹیں، کانگریس کو 3-6 سیٹیں جبکہ پی ڈی پی کو 5-7 سیٹیں حاصل ہوں گی۔ دیگر کو 8-16 سیٹیں ملیں گی۔

جموں و کشمیر ایگزٹ پول 2024  کے مطابق سابق حکمران  پی ڈی پی کو -21 سیٹوں کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، محبوبہ مفتی کی پارٹی کو ڈبل ڈیجٹ میں سیٹیں ملنے کا کوئی امکان نہیں۔ بعض پولز اسے چار سے چھ تک نشستیں ملنے کی نشاندہی کر رہے ہیں اور کچھ اس سے دو نشستیں زیادہ۔  اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی کو بھی  جموں میں اس کی توقع سے بہت کم ووٹ مل سکے ہیں اور اس کی نشستیں 27 سے زیادہ ہونا محال دکھائی دیتا ہے۔ 
جموں و کشمیر اسمبلی انتخابات کے ایگزٹ پول کے نتائج  نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد کی جیت کی پیشین گوئی کرتے ہیں۔ 

بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور کانگرس کو حکومت بنانے کے لئے آزادی پسند امیدواروں کو ساتھ ملانا پڑے گا جو یقیناً ہنگ اسمبلی میں اپنا وزن نیشنل کانفرنس کے پلڑے میں ڈالنے کے سوا کچھ سوچنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔