ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسرائیل کو ہتھیار مت دیں، فرانس کے صدر کا  امریکی  پالیسی کے برعکس  مطالبہ

Israel Hamas and Hezbollah, France, President Makron, Arms Embargo on Israel, Gaza war, Lebanon, city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون نے اپنے نیٹو اتحادی امریکہ کے برعکس پالیسی اپناتے ہوئے اسرائیل کو  ہتھیاروں کی فراہمی روکنے پر زور دیا ہے جو  غزہ میں حماس کے  ساتھ  جنگ میں استعمال ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل ے وزیراعظم نیتن یاہو نے صدر میکرون کے اس بیان پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

فرنچ صدر میکرون نے براڈکاسٹر فرانس انٹر کو بتایا کہ "میرے خیال میں آج ترجیح یہ ہے کہ ہم ایک سیاسی حل کی طرف لوٹیں، اس لئے  ہم غزہ میں لڑنے کے لیے ہتھیاروں کی فراہمی بند کر دیں۔"  

چند روز پہلے ریکارڈ کیے گئے انٹرویو کے دوران اصدر میکرون نے مزید کہا کہ "فرانس کچھ بھی ڈیلیور نہیں کر رہا ہے۔"

ہفتے کی شام میکرون کو جواب دیتے ہوئے نیتن یاہو نے ان کے تبصروں کو "بے عزتی" قرار دیا۔ نیتن یاہو  کا   صدر میرون کے انٹرویو پر ردعمل ایک یڈیو کلپ کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ نیتن یاہو نے  غزہ، لبنان، مغربی کنارے، یمن، شام، عراق اور ایران کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "اسرائیل تہذیب کے دشمنوں کے خلاف سات محاذوں پر اپنا دفاع کر رہا ہے۔" "جب اسرائیل ایران کی قیادت میں بربریت کی قوتوں سے لڑ رہا ہے، تمام مہذب ممالک کو مضبوطی سے اسرائیل کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔" اس کے باوجود صدر میکرون اور دیگر مغربی رہنما اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ "شرم کرو ان پر۔"

نیتن یاہو نے میکرون سے  پوچھا کہ کیا ایران اپنے پراکسیوں پر ہتھیاروں کی پابندی لگا رہا ہے۔ "یقیناً نہیں،" انہوں نے خود اپنے سوال کا جواب دیا ور  کہا۔ "دہشت گردی کا یہ محور ایک ساتھ کھڑا ہے۔" نیتن یاہو نے مزید کہا کہ "لیکن جو ممالک اس دہشت گردی کے محور کی مبینہ طور پر مخالفت کرتے ہیں وہ اسرائیل پر ہتھیاروں کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔" ’’کیسی بے عزتی ہے!‘‘


نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل "ان کی حمایت کے ساتھ یا اس کے بغیر جیت جائے گا۔ لیکن ہمارے جنگ جیتنے کے بعد ان کی شرمندگی برقرار رہے گی۔

واضح رہے کہ امریکہ اسرائیل کو ہر سال تقریباً 3 بلین ڈالر کا اسلحہ فراہم کرتا ہے اور فرانس کے صدر کا درحقیقت مخاطب امریکہ ہی تھا جس کے صدر کے ساتھ چند روز پہلےوہ سرگرمی کے ساتھ کام کر کے اسرائیل حزب اللہ جنگ بندی کا پلان ڈرافٹ کر رہے تھے جس پر عملدرآمد کی نیتن یاہو نے ابتدائی نوعیت کی حامی بھی بھر لی تھی لیکن پھر اس پر عمل کرنے کی بجائے حزب اللہ کے ہیڈکوارٹرز پر حملہ کر کے پہلے حزب اللہ کے سربراہ کو مارا پھر مسلسل حملے کر کے حزب اللہ کی بیشتر اہم قیادت اور تنصیبات کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا۔

اپنی قیادت میں تیار کی گئی جنگ بندی کی تجویز کو مسترد کئے جانے کے بعد فرانس کے صدر میکرون کا  اسرائیل کے متعلق پہلا بیان اس وقت آیا ہے جب ان کی جنگ بندی کی تجویز سامنے آنے کے بعد ایران بھی اسرائیل پر براہ راست د سو کے لگ بھگ میزائلوں کے ساتھ حملہ کر چکا ہے۔

فرانس کے صدر کا اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے پر پابندی کا بیان اپنی نوعیت کا پہلا ردعمل نہیں ہے۔ اس سے پہلے انگلینڈ ستمبر میں اسرائیل کو کچھ ہتھیاروں کی ایکسپورٹ بند کر چکا ہے۔ انگلینڈ اور اب فرانس کا ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کے لئے دباؤ اسرائیل کی غزہ میں حماس کے ساتھ جنگ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سامنے آنے کا ردعمل ہے۔

ستمبر میں، برطانیہ نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی کچھ برآمدات معطل کر رہا ہے، ایک "واضح خطرے" کا حوالہ دیتے ہوئے کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی میں استعمال ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل کا غزہ جنگ میں شہریوں کی ہلاکتوں پر مستقل مؤقف ہئے کہ  وہ اپنے حملوں میں شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ حماس غزہ کے شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرتی ہے، گھروں، ہسپتالوں، اسکولوں اور مساجد سمیت شہری علاقوں سے لڑ رہی ہے۔ اب یہی بیان حزب اللہ کے حوالے سے بھی ہے۔ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف میں بھی سنجیدہ نوعیت کا ایکٹوزم چل رہا ہے لیکن اسرائیل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو مسترد کرتا ہے، اور دلیل دیتا ہے کہ اس نے حماس کے خاتمے کے لیے اپنی مہم چلاتے ہوئے "شہریوں کے تحفظ کے لیے بے مثال اقدامات" کیے ہیں۔

f فرانس کی نیوز آؤٹ لیٹ سے انٹرویو میں میکرون نے غزہ کے تنازع پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا جو جنگ بندی کے بار بار مطالبات کے باوجود جاری ہے۔

"مجھے لگتا ہے کہ ہماری بات نہیں سنی جا رہی ہے،" انہوں نے کہا۔ انہوں نے کہا کہ "میرے خیال میں یہ ایک غلطی ہے، بشمول اسرائیل کی سلامتی کے لیے،" انہوں نے مزید کہا کہ تنازعہ "نفرت" کا باعث بن رہا ہے۔میکرون نے یہ بھی کہا کہ لبنان میں کشیدگی سے بچنا ایک "ترجیح" ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ لبنان نیا غزہ نہیں بن سکتا۔

پیر کو اسرائیل 7 اکتوبر کے تباہ کن  قتل عام کی پہلی برسی منا رہا ہے جس نے جنگ کو جنم دیا تھا، جب حماس کے مسلح کارکنوں نے متعدد مقامات سے اسرائیل کے اندر جا کر  اندھا دھند تقریباً 1,200 افراد کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے، اور 251 کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے۔

پچاس ہفتے تک عموماً غزہ اور فلسطین کے بعض دیگر علاقوں تک محدود جنگ نے دو ہفتے پہلے  پڑوسی ملک لبنان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ حزب اللہ نے ایک سال پہلے 8 اکتوبر کو اسرائیل پر حملے شروع کیےتھے، جس سے ایک خطرناک علاقائی بحران پیدا ہو گیا تھا۔ تقریباً ایک سال کے انتباہات کے بعد، اسرائیل نے حالیہ ہفتوں میں حزب اللہ کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کی جس میں اس ہفتے حزب اللہ کے بنیادی ڈھانچے کو صاف کرنے کے لیے زمینی افواج ملک کے جنوب میں داخل ہوئیں۔

 فرانس پہلے بھی اسرائیل پر دباؤ ڈالنے میں شامل رہا لیکن لبنان میں ہوائی حملوں اور اب چند روز سے زمینی مداخلت کے بعد فرانس کا اسرائیل کے متعلق رویہ نمایاں طور پر تبدیل ہوا ہے جس کی ایک وجہ لبنان میں فرانس کی قدیمی دلچسسپی ہے۔

اسی دوران غزہ میں اسرائیل کے وحشیانہ حملوں کے خلاف پیرس میں احتجاجی مارچ بھی کیا گیا ہے۔ مظاہرین غزہ اور لبنان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف احتجاجی مارچ میں  فلسطینی اور  لبنانی پرچم لہراتے ہوئے شریک ہوئے اور  اسرائیلی مظالم رکوانےکا مطالبہ کیا۔