ویب ڈیسک: امریکہ میں صدارتی انتخاب ہو رہے ہیں کچھ ریاستوں کے نتائج آنا بھی شروع ہوچکے ہیں، ڈیموکریٹ اُمیدوار کملا ہیرس اور رپبلکن اُمیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان کانٹے کا مقابلہ دیکھنے میں آرہا ہے، انتخاب کا انتظار صرف امریکی عوام ہی نہیں کر رہی بلکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ آخر وائٹ ہاؤس کا اگلا مکین کون ہوگا؟
تفصیلات کے مطابق پاکستانی رہنماؤں کی نگاہیں امریکی الیکشن پر جمی ہوئی ہیں اور خصوصاً سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اس میں گہری دلچسپی لیتی ہوئی نظر آ رہی ہے، عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم وائٹ ہاؤس کا دورہ سنہ 2019 میں کیا تھا اور اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے،کیمروں کے سامنے دونوں رہنماؤں کی ملاقات انتہائی خوشگوار رہی تھی،اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں کے سامنے عمران خان کو ’میرے اچھے دوست‘ کہہ کر بھی مخاطب کیا تھا۔
سنہ2022 میں عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزیرِ اعظم ہاؤس چھوڑنا پڑا اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ ان کی حکومت گِرانے کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا،سابق وزیرِاعظم گذشتہ برس اگست سے متعدد مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور تاحال راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
عمران خان کی جماعت کے چند رہنماؤں کا خیال ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر امریکہ کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے ’اچھے دوست‘ عمران خان کو رہائی دلوا دیں گے۔
پی ٹی آئی کے رُکن قومی اسمبلی لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ’100 فیصد، مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے،وہ پاکستان میں بھی یہی چاہیں گے کہ جمہور کی آواز سُنی جائے اور کیونکہ جمہور ہی سے وہ (ڈونلڈ ٹرمپ) اُمید رکھتے ہیں۔‘
حال ہی میں اکتوبر کے آخری ہفتے میں ڈیموکریٹک پارٹی 60 سے زائد اراکین نے موجودہ صدر جو بائیڈن کو خط لکھ کر کہا تھا کہ ’امریکہ پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے سیاسی قیدیوں بشمول عمران خان کو رہائی دلوائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رُکوائے۔‘اس خط میں صدر بائیڈن کی انتظامیہ پر پاکستان میں عمران خان کی حکومت کو گرانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
پاکستانی امریکن پبلک افیئرز کمیٹی نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ان کہ خیال میں رپبلکن امیدوار ’پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو بہتر بنائیں گے اور پاکستان میں غلط طریقے سے قید کیے گئے سیاسی قیدیوں کو رہا کروائیں گے۔‘
پاکستان اور امریکہ کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدارتی انتخاب کا نتیجہ جو بھی ہو پاکستان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کے تمام دعوؤں کے باوجود بھی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اگر ٹرمپ جیت بھی جائیں تب بھی یہ مشکل نظر آتا ہے کہ عمران خان کی حمایت کریں۔
تاہم سابق امریکی سفارتکار کے مطابق اگر ڈونلڈ ٹرمپ ایک بار پھر صدر منتخب ہوتے ہیں تو پاکستان کے حوالے سے ’ان کی توجہ ماحولیاتی معاملات کے حوالے سے تعاون پر کم ہوگی اور اس میں اُتار چڑھاؤ کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ چین اور ایران کے حوالے سے امریکی پالیسی کتنی سخت گیر ہے۔‘