سٹی42: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں پہلے پول انڈیانا اور کینٹکی کی ریاستوں میں بند ہو چکے ہیں۔
امریکہ کی دیگر ریاستوں مین پولنگ ختم ہونے کا وقت ابھی نہیں ہوا۔
سٹی42: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں پہلے پول انڈیانا اور کینٹکی کی ریاستوں میں بند ہو چکے ہیں۔
امریکہ کی دیگر ریاستوں مین پولنگ ختم ہونے کا وقت ابھی نہیں ہوا۔
وسیم عظمت: صدر جو بائیڈن 5 نومبر کے الیکشن کے نتائج پر کل قوم سے خطاب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کے ان کی میراث پر شدید اثرات مرتب ہوں گے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ صدر جو بائیڈن کا یہ خصوصی خطاب گہرے اثرات کا حامل ہو گا۔ اس کے امریکہ کے پوسٹ الیکشن ٹراما میں مبتلا ڈیموکریٹ ووٹڑز، کارکنوں، لیڈر شپ اور باقی تمام دنیا پر گہرے اثرات ہوں گے۔
اس خطاب کے بعد صدر جو بائیڈن کو 20 جنوری 2025 تک صدر کے دفتر میں کام کرنا ہے اور درحقیقت انہیں ڈھائی ماہ کے دوران بہت سا کام کرنا ہے۔
جو بائیڈن کی وائٹ ہاؤس میں آمد
بائیڈن CoVID-19 وبائی امراض، معاشی بحران اور بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن کے دوران وائٹ ہاؤس کے اوول دفتر میں داخل ہوئے۔ انہوں نے 2024 کے صدارتی انتخابات میں دوسری مدت کے لیے اپنی بولی کم مقبولیت اور اپنی عمر اور صحت سے متعلق خدشات کی وجہ سے واپس لے لی۔ ان کی جگہ 2025 میں ٹرمپ کی طرف سے جانا ہے، جنہوں نے 2024 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔
سینیٹ میں ایک کہنہ مشق رہنما اور ریاستہائے متحدہ کے 47 ویں نائب صدر
پریذیڈنٹ جو بائیڈن جنہیں ان کے بازاری حسِ مزاح کے مالک مخالف نے "Sleepy Joe" (سوتا ہوا جو) جیسا بازاری نام چسپاں کرنے کی کوشش کی، وہ ڈیلاویئر سے 36 سال تک مسلسل سینیٹر منتخب ہوئے اور سینیٹ میں قانون سازی کے پیچیدہ ترین ٹاسک غیر معمولی توجہ اور پرفیکشنسٹ اپروچ کے ساتھ انجام دیتے رہے، وہ مسلسل اپنے ووٹرز کی توقعات پر پورے اترتے رہے اور ہر بار منتخب ہو کر سینیٹ میں واپس آتے رہے۔ بائیڈن امریکہ میں صرف 29 سال کی عمر میں سینیٹر منتخب ہونے والے پہلے سیاستدان تھے، ان کی پہلی مرتبہ سینیٹ آمد سے لے کر آئندہ جنوری میں وائٹ ہاؤس سے واپسی تک پبلک سروس کی طویل تاریخ میں "تھکاوٹ، بدنامی اور ناکامی" کے معمولی ٹریسز بھی تلاش کرنا مشل ہے۔
اس وقت کے سینیٹر بائیڈن نے خواتین کے خلاف تشدد ایکٹ لکھنے سمیت امریکی قوم کے کچھ اہم ترین ملکی اور بین الاقوامی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک اہم کردار ادا کیا۔
نائب صدر جو بائیڈن
نائب صدر کے آفس میں جو بائیڈن نے صدر اوباما کے ساتھ مل کر سستی نگہداشت کے قانون کی منظوری کو محفوظ بنانے، تاریخ کے اس وقت کے سب سے بڑے اقتصادی بحالی کے منصوبے کی نگرانی کرنے، اور عالمی سطح پر امریکی قیادت کو مضبوط بنانے کے لیے کام کیا۔ انہوں نے کبھی خود کو نمایاں کرنے کی کوشش نہیں کی اور کبھی ذمہ داریاں لینے اور پوری کرنے سے منہ نہیں موڑا۔
صدر جو بائیڈن
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار کے دوران غیر محتاط حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں کورونا سے ادھ موا ہو چکے امریکہ کو 2020 میں جو بائیڈن ملے جو جسمانی عمر کے اس حصے میں تھے جہاں لوگ ریٹائرڈ ہو کر اپنے بچوں کی کمائی پر، اپنی بینک سیونگز پر اور سوشل ویلفئیر فنڈز پر انحصار کر کے زندگی سے خوشیاں کشید کرنے کی اپنے اپنے انداز سے کوشش کرتے ہیں۔ عمر رسیدہ بائیڈن نہ صرف خود انرجی سے بھرے تھے بلکہ انہوں نے ادھ موئے امریکہ کی روح کو بحال کرنے اور اس کے ساتھ اس کی جسمانی توانائی یعنی معیشت کو بحال کر کے از سر نو استوار کرنے میں غیر معمولی توانائی کے ساتھ دن رات کام کیا۔
"سلیپی جو" وائٹ ہاؤس پہنچے تو وہ امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی – متوسط طبقے کی تعمیر نو اور ملک کو متحد کرنے کے لیے وائٹ ہاؤس میں کم اور باقی امریکہ اور دنیا کے کیپیٹلز میں زیادہ رہے۔
20 جنوری 2021 کو 46 ویں صدر کے طور پر حلف اٹھانے کے بعد، انہوں نے امریکہ کے ہر شہری کو ویکسین لگوانے کے لیے تیزی سے کارروائی کی اور ایک اقتصادی بحالی کا آغاز کیا، چار سالوں میں کسی بھی دوسرے صدر کے مقابلے میں زیادہ ملازمتیں پیدا کیں۔ صدر کا ایجنڈا تمام امریکیوں میں سرمایہ کاری تھا۔ ان کا دو طرفہ انفراسٹرکچر قانون سڑکوں اور پلوں کو دوبارہ تعمیر کر رہا تھا، پانی کی پائپ لائنوں سے لیڈ پائپوں کو ہٹا رہا تھا، اور تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی کو بڑھا رہا تھا۔ ان کا افراط زر میں کمی کا قانون تاریخ میں موسمیاتی کارروائی میں سب سے بڑی سرمایہ کاری ثابت ہوا۔ اور ان کا چپس اور سائنس ایکٹ امریکہ میں امریکی کارکنوں کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو عملی زندگی میں اپنا رہا تھا۔
اس بظاہر بوڑھے صدر نے جوانوں سے زیادہ جرات دکھائی اور کارپوریٹ اکانومی میں طاقت کے بڑے سرچشمے " بِگ فارما" کو ہرا دیا - جو بائیڈن نے ڈاکٹروں کے لکھے نسخے کی ادویات کی کم قیمتوں پر بات چیت کرتے ہوئے اور بزرگوں کے لیے ماہانہ $35 پر انسولین کی حد بندی کی۔ ان کا ایجنڈا ہیلتھ انشورنس کی لاگت کو کم کرنا، یوٹیلیٹی بلوں کو کم کرنا، اور کارپوریٹ رپ آف کو نتھ ڈالی جیسے فضول فیسیں وصول کرنا۔
صدر ن جو بائیڈن نے سپریم کورٹ میں خدمات انجام دینے والی پہلی سیاہ فام خاتون جسٹس کیتن جی براؤن جیکسن کو نامزد کیا۔
جو بائیڈن نے تقریباً 30 سالوں میں پہلے بامعنی گن سیفٹی بل پر دستخط کیے ہیں۔
عالمی سطح پر صدر بائیڈن نے امریکہ کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ اتحاد کو مضبوط کیا ہے اور امریکی قیادت کو بحال کیا ہے۔ انہوں نے داخلی معیشتی مسائل سے قطع نظر یوکرین میں پوٹن کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے دنیا کو اکٹھا کیا، نیٹو کو بڑھایا جو اب پہلے سے کہیں زیادہ بڑا اور مضبوط ہے، اور انڈو پیسیفک میں امریکہ کے اثر و رسوخ کو بھی بڑھایا ۔
صدر بائیڈن ایک ایسی انتظامیہ بنانے کے لیے پرعزم رہے جو امریکہ کی طرح نظر آئےاور انہوں نے چار سال میں یہی کیا ۔
انہوں نے ملک کے پہلے سیاہ فام صدر کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دیں، اور اب وہ نائب صدر بننے والی ملک کی پہلی سیاہ فام خاتون کے ساتھ صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ صدر بائیڈن موقع کو بڑھانے اور ہر ایک سے امریکہ کے وعدے کو حقیقی بنانے کی عظیم امریکی کہانی کے مرکز میں رہے ہیں۔
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ان کی انتخابی کامیابی پر مبارکباد دی اور اقتدار کی منتقلی پر بات چیت کے لیے وائٹ ہاؤس میں مدعو کرنے کے لیے فون کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے صحافتی آؤٹ لیٹس کے نمائندوں کو بتایاہے کہ صدر بائیڈن کا سٹاف "مستقبل قریب میں" ایک تاریخ کو طے کرے گا۔ صدر
بائیڈن نے نائب صدر ہیرس سے بھی بات کی اور انہیں ان کی شاندار انتخابی مہم پر مبارکباد دی۔
سٹی42: امریکہ کے صدارتی الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر چین اور روس کے سرکاری سطح پر تبصرےسامنے آئے ہیں جن میں ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد رویئے کو دیکھنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
چین کے رسمی تبصرے میں کہا گیا ہے کہ چین امریکہے ساتھ باہمی احترام کی بنیاد پر کام کرتا رہے گا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے بدھ کو بیجنگ میں ایک پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ امریکہ کے بارے میں ہماری پالیسی مستقل ہے اور ہم امریکہ سے تعلقات کو باہمی احترام، پرامن بقائے باہمی اور تعاون کے اصولوں کے مطابق جاری رکھیں گے۔
چین میں کسی سرکاری اہلکار کی جانب سے اب تک ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابی نعرے کہ وہ جیت گئے تو امریکہ میں چین کی امپورٹس پر ساٹھ فیصد ڈیوٹی لگا دیں گے، اب تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
مختلف صحافتی ذرائع نے البتہ بتایا ہے کہ چینی سٹریٹیجک ماہرین کو ٹرمپ سے مزید آتش فشاں بیانات کی توقع ہے۔ کچھ نے کہا کہ ٹرمپ کی آئیسولیشنسٹ پالیسی چین کو اپنا عالمی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے جگہ فراہم کر سکتی ہے، چینی سٹریٹیجسٹوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین تجارت، ٹیکنالوجی اور سیکیورٹی کے حوالے سے تلخ دشمنی کے لیے تیار ہے۔
کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی ٹونگ ژاؤ نے کہا کہ چین نے امریکی انتخابات میں سخت مقابلے کی توقع کی تھی اور اگرچہ ٹرمپ کی جیت چین کا ترجیحی نتیجہ نہیں ہے اور خدشات کو بھی جنم دیتا ہے لیکن یہ غیر متوقع بھی نہیں ہے۔
ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد بدھ کو روس نے کہا کہ امریکہ اب بھی ایک دشمن ریاست ہے اور یہ وقت بتائے گا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے بارے میں ٹرمپ کی بیان بازی حقیقت میں بدلتی ہے یا نہیں۔
ماسکو میں روس کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان دمتری پیسکوو نے کہا کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے خواہشمند ہونے کے بارے میں کچھ اہم بیانات دیے تھے لیکن یہ وقت ہی بتائے گا کہ آیا ان باتوں پر کتنا عمل کیا جاتا ہے۔ پیسکوو نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک غیر دوست ملک کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو ہماری ریاست کے خلاف براہ راست اور بالواسطہ طور پر جنگ میں ملوث ہے۔
پیسکوو نے کہا کہ وہ صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے ٹرمپ کو ان کی جیت پر مبارکباد کے کسی منصوبے سے آگاہ نہیں ہیں،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ کے ساتھ روس کے تعلقات ماضی کی نسبت انتہائی پست سطح پر ہیں۔
پیوٹن کی طرف سے روسی حکام نے انتخابات سے پہلے کہا تھا کہ امرکہ کا صدارتی انتخاب جو بھی جیتے اس سے روس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا،روسی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ روس کو ٹرمپ کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہے۔
November 11, 2024
November 11, 2024
ڈیموکریٹ خاتون امیدوار کمیلا ہیریس نے فون کال کر کے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب ہو جانے پر مبارک دی اور اسے کامیاب ہو چکا تسلیم کیا۔
کمیلا ہیریس کے ایک سینئر معاون نے امریکہ کی ایک ممتاز نیوز آؤٹ لیٹ کو بتایا کہ بدھ کے روز کمیلا ہیریس نے ڈونلڈ ٹرمپ کو "2024 کے صدارتی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دینے کے لیے" فون کیا۔
معاون نے مزید کہا کہ کمیلا ہیرس نے پریذیڈنٹ الیکٹ(منتخب صدر )کے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے "اقتدار کی پرامن منتقلی اور " تمام امریکیوں کے لیے صدر ہونے کی اہمیت" پر تبادلہ خیال کیا۔
ممکنہ طور پر عوام آج دوپہر تک کمیلا ہیریس سے پہلے براہ راست کچھ نہیں سنیں گے، آج وہ واشنگٹن ڈی سی کی ہاورڈ یونیورسٹی میں اپنے حامیوں اور قوم سے خطاب کرنے والی ہیں۔ توقع ہے کہ وہ جمہوری اقدار اور بدلتی ہوئی دنیا میں امریکہ کے کردار پر بات کریں گی۔
کمیلا ہیرس ایک بے مثال جمہوری رویہ کی مالک سیاستدان ہیں جنہوں نے انتخابی مہم کے دوران کمال ضبط اور تحمل کے ساتھ ہر طرح کے سوقیانہ جملوں کا مقابلہ کیا اور کبھی اپنے درجہ سے گر کر جواب نہیں دیا۔ ان کی ڈیسنٹ انتخابی مہم کو طویل عرصہ تک یاد رکھا جانے گا۔
سٹی42:ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو دراصل 292 الیکٹورل ووٹ ملے ہیں اور دو مزید ریاستوں کا رزلٹکمپائل ہونے کے بعد ان کے الیکٹورل ووٹس کی تعداد 312 ہو سکتی ہے۔
نیویارک ٹائمز، الجزیرہ اور دیگر آؤٹ لیٹس بتا رہی ہیں کہ اس وقت تک ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹ 2992 ہو چکے ہیں۔ صدر بننے کے لئے 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
جھولتی ریاستیں ٹرمپ کی جھولی میں جا گِریں
سات سوئنگ ریاستوں میں 93 الیکٹورل ووٹ داؤ پر لگے ہوئے تھے۔ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارت حاصل کرنے کے لیے ان ریاستوں سے کم از کم 51 الیکٹورل ووٹ درکار تھے۔ جورجیا، وسکونسن، مشی گن، نارتھ کیرولائینا، پینسلوینیا میں ٹرمپ جیت گئے، اریزونا اور نیواڈا میں ڈاک کے ووٹوں کی گنتی مین زیادہ وقت لگے گا۔ اریزونا سٹیٹ میں زیادہ ووٹرز نے بیلٹ پیپر ڈاک کے زریعہ بھیجے، اس سٹیٹ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ کاؤنٹنگ میں دس سے تیرہ دن تک لگ سکتے ہیں۔
ٹرمپ فیور 312 تک جائے گا؟
نیویارک ٹائمز کے صدارتی الیکشن کے نتائج کو مونیٹر کرنے والے ماہرین کو یقین ہے کہ جب تمام ریاستوں کے ووٹ کاؤنٹ ہو چکیں گے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکٹورل ووٹوں کی تعداد 312 ہو گی۔
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: امریکہ میں ابھی کئی ریاستوں میں پولنگ جاری ہے، بیشتر ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی آدھی یا اس سے کم ہوئی ہے تاہم امریکہ کے صحافتی اداروں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو الیکٹورل ووٹوں کی گنتی میں کمیلا ہیرس پر واضح برتری دکھانا شروع کر دی ہے۔ نیو یارک ٹائمز نے تو ایک پروجیکژن مین ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں پہنچنے کے لئے درکار 270 الیکٹورل ووٹ لیتے بھی دکھا دیا ہے۔ اب تک پروجیکشز کے مطابق 19 ریاستوں میں ٹرمپ اور 12 ریاستوں میں کمیلا ہیرس الیکٹورل ووٹ حاصل کرتے دکھائئی دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کو 195 اور کمیلا ہیرس کو 113 الیکٹورل ووٹ ملنا یقینی ہو چکا ہے
مختلف امریکی خبر رساں ادارے مختلف الیکٹورل ووٹوں کی گنتی دے رہے ہیں کیونکہ وہ اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ کن ریاستوں کو کال کرنا ہے، یہاں تک کہ انتخابی نقشہ بالکل اسی طرح تیار ہوتا ہے جیسا کہ اب تک کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
جب کہ نیویارک ٹائمز اور ایسوسی ایٹڈ پریس نے ڈونالڈ ٹرمپ کو کملا ہیرس کے 71 کے مقابلے میں 101 ووٹ، اے بی سی نیوز اور سی بی ایس نیوز نے ٹرمپ کے 105 کے مقابلے میں محض 27 ووٹ دیئے، اور این بی سی نیوز نے 105 سے 30 ووٹوں کی دوڑ میں شامل کیا۔ فاکس نیوز، اس دوران، ٹرمپ کے حق میں تعداد 111 سے 72 تک پہنچ جاتی ہے۔
نیٹ ورک جارجیا کو ٹرمپ کے لیے کال کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ سابق صدر کو تقریباً 60 فیصد ووٹوں کی گنتی کے ساتھ 11 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔
جورجیا ریاست ان سات میدان جنگ ریاستوں میں سے ایک ہے جو وائٹ ہاؤس جیتنے والے امیدواروں کی کلید ہے۔
نیویارک ٹائمز کا ایک گیج ٹرمپ کو مطلوبہ 270 انتخابی ووٹوں کے لیے قدرے ہموار راستہ فراہم کرتا ہدکھائی دے رہا ہے۔
تخمینے نیٹ ورکس کے اشتراک کردہ ایگزٹ پول کے اعداد و شمار اور حکام کی طرف سے جاری کردہ حقیقی ووٹوں کی تعداد پر مبنی ہیں، حالانکہ ہر آؤٹ لیٹ کے پاس پروجیکشن بنانے کے لیے ریاضی تیار کرنے کا اپنا ماڈل ہوتا ہے۔
سٹی42: ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا کاؤنٹی میامی ڈیڈ جیت لیا۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ماضی کی نیلی سٹیٹ اب رفتہ رفتہ سرخ ہو گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، ڈونلڈ ٹرمپ 1988 میں جارج ایچ ڈبلیو بش کے بعد فلوریڈا کی میامی ڈیڈ کاؤنٹی جیتنے والے پہلے GOP صدارتی امیدوار ہیں۔
تجزیہ کار کاؤنٹی پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جس میں میامی شہر بھی شامل ہے اور یہ کبھی ڈیموکریٹک گڑھ تھا۔ ہلیری کلنٹن نے 2016 میں میامی ڈیڈ کو 30 پوائنٹس کے فرق سے جیتا تھا، لیکن اس کے بعد سے یہ علاقہ دائیں طرف چلا گیا ہے کیونکہ فلوریڈا ایک جھولے والی ریاست سے ایک مضبوط سرخ ریاست میں تبدیل ہو گیا ہے۔ شام 8.45 بجے کے قریب 95% ووٹوں کے ساتھ، ٹرمپ نے میامی ڈیڈ کے 55% ووٹ اور ان کے مقابلے میں ہیرس نے 44% ووٹ حاصل کیے تھے۔
جو بائیڈن نے 2020 میں ریاست کی سب سے زیادہ آبادی والی کاؤنٹی میں ٹرمپ کو سات پوائنٹس سے شکست دی۔ کچھ پنڈتوں نے کہا ہے کہ میامی-ڈیڈ کا نتیجہ لاطینی ووٹروں میں ہیریس کی کارکردگی کے لئے ایک گھنٹی ہو سکتا ہے۔
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: امریکہ میں کئی ریاستوں میں پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے اور کچھ ریاستوں میں جیتنے والوں کے متعلق پروجیکشنز آ گئی ہیں جن کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور کمیلا ہیرس تقریباً پہلے سے توقعات کے مطابق ہی کامیاب ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو 154 اور کمیلا ہیرس کو 99 الیکٹورل ووٹ مل رہے ہیں۔
ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو فلوریڈا، اوکلاما، میسوری، الاباما اور ٹینیسی میں جیتنے اور الیکٹورل ووٹس ملنے کا امکان واضح ہو رہا ہے۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کو ڈسٹرکٹ کولمبیا، میری لینڈ اور میساچسٹس اور ورمونٹ میں حتمی جیت اور الیکٹورل ووٹ ملنے کا امکان واضح ہو رہا ہے۔
یہ سب نتائج پہلے سے موجود توقعات کے مطابق ہیں اور ہر ریاست کی ووٹنگ کی تاریخ کے مطابق ہیں یعنی ریڈ ریاستوں میں ٹرمپ اور بلیو ریاستوں میں مس ہیرس جیت رہی ہیں۔
نیویارک ٹائمز کی اب تک کی گنتی کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ 95 اور کمیلا ہیرس 35 الیکٹورل ووٹس لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ بی بی سی ورلڈ نے جو ابتدائی نتایج سے مرتب ہوئے اندازے شئیر کئے ہیں ان کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ 99 اورر کمیلا ہیرس 27 الیکٹورل ووٹ لے رہے ہیں۔
میدانِ جنگ کی چار ریاستوں میں پولنگ کا وقت تمام
زیادہ تر پولنگ کے مقامات جارجیا، نارتھ کیرولینا، پنسلوانیا اور مشی گن میں زیادہ تر پولنگ سٹیشنز پر پولنگ بند ہو چکی ہے۔ دن بھر کے دوران کسی بڑے پیمانے پر ووٹنگ کے مسائل کی اطلاع نہیں دی گئی ہے، حالانکہ بم کی متعدد دھمکیوں نے، جن میں سےکسی کو بھی قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن انہوں نے کچھ علاقوں میں ووٹنگ میں خلل ڈالا۔
سٹی42: مستقبل کی ممکنہ صدر کمیلا ہیرس آج امریکہ میں ووٹنگ کے روز واشنگٹن مین از حد مصروف ہیں، اس مصروفیت کے دوران وہ سہ پہر کے وقت DNC کے ہیڈکوارٹر میں ایک غیر متوقع وزٹ کرنے چلی گئیں جہاں درجنوں رضاکار، ڈیموکریٹک پارٹی کے ووٹروں کو فون کالز کر کے جلد ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ سٹیشن پہنچنے کی درخواستین کر رہے تھے۔
کمیلا ہیرس اپنے رضاکاروں سے ملنے آئین تو ان کے ہاتھ میں ڈوریٹوس کا ایک ڈبہ تھا جو الیکشن کیمپین کی مصروفیات کے دوران ان کا پسندیدہ کھانا ہے۔
کمیلا نے رسمی سلام دعا کے ساتھ ہی ایک فون لے کر کسی ووٹر کو فون کیا اور ان سے کہا ، "میں ٹھیک ہوں،"۔ "کیا آپ نے پہلے ہی ووٹ دے دیا ہے؟ تم نے دے دیا؟ اوہ شکریہ!”
نائب صدر کملا ہیرس الیکشن کے دن، منگل، نومبر کو ڈی این سی ہیڈ کوارٹر میں رضاکاروں کے ساتھ بینکوں کو فون کر رہی ہیں۔ 5، 2024، واشنگٹن میں۔
اس فون کال کے بعد کمیلا نے جلدی سے ایک اور نمبر ملایا لیکن اس مرتبہ کسی بالغ ووٹر کی بچانے فون کسی آٹھ سالہ بچے نے اٹھایا، بچے کے بات کرنے پر کمیلا پریشان نہیں ہوئیں اور اسے کہا، میں کمیلا ہیرس ہوں -مجھے آپ کے مزید 10 سال بڑھنے کا انتظار ہے،" کمیلا نے کہا، "یہ بہت اہم ہے، ہمارے پاس بہت کام ہے۔"
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے بانی عمران خان کو (اڈیالہ جیل سے نکلوا کر) بیرون ملک بھجوانے کی کوشش کر رہی ہے۔
نجی ٹی وی کی ایکنر کے ساتھ منگل کی شب نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ یہ بھی آپشن ٹرائی کی جارہی ہے. پی ٹی آئی والے خود بیرونی طاقتوں کو کہہ رہے ہیں کہ پاکستان پر دباؤ ڈالیں تاکہ عمران خان کو رہا کر کے بیرون ملک بھیجا جائے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ بعض ملک عمران خان کو لینے کو تیار بھی ہیں۔ سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے ملک کا نام بتانے سے گریز کیا۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان ان دنوں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ انہیں کئی مقدمات میں سزا ہو چکی ہے جن کے متعلق اپیلیں عدالتوں مین ہیں اور ان کے خلاف سنگین جرائم کے درجنوں مقدمات ہیں جن میں سے بیشتر زیر التوا ہیں اور نیب کے توشہ خانہ ٹو کیس کی سماعت آخری مرحلہ میں ہے۔
توشہ خانہ ٹو کیس میں استغاثہ کے تمام گواہوں پر جرح مکمل ہو چکی ہے اور آخری گواہ پر جرح کرنے سے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وکیل مسلسل ٹال مٹول کر رہے ہیں۔
سٹی42: مارچ 2023 میں، وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ وہ وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو برطرف کر رہے ہیں، گیلنٹ نے عوامی سطح پر خبردار کیا تھا کہ عدلیہ کو کمزور کرنے کے حکومتی منصوبوں پر اسرائیل میں اندرونی خلفشار اتنا گہرا ہے کہ اسرائیل کے دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے اور قومی سلامتی کے لیے ایک ٹھوس خطرہ ہے۔ دو ہفتے بعد، وسیع عوامی مظاہروں کے درمیان، وزیر اعظم نے اس اقدام کو واپس لے لیا تھا۔
منگل کی رات، نیتن یاہو نے گیلنٹ کو دوسری بار برطرف کیا - اور، پچھلے موقع کے برعکس، اسے برطرفی کا ایک خط دیا، جو 48 گھنٹوں کے بعد باضابطہ طور پر امؤثر ہو جائے گا۔
برطرفی، دوسرے لفظوں میں، اس بار حتمی ہے۔ اور حالات اسرائیل کے لیے کہیں زیادہ تباہ کن ہیں۔
دشمنوں کی ممکنہ حوصلہ افزائی کے بارے میں خدشات کا سامنا کرنے سے الگ، اسرائیل کو اس جنگ میں ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملے اور قتل و غارت سے شروع ہوئی تھی اور متعدد محاذوں تک پھیل چکی ہے – بشمول شمالی سرحد کے پار، جہاں IDF حزب اللہ سے لڑ رہی ہے، اور ایران کے ساتھ براہ راست تصادم، جس کی وسیع پیمانے پر توقع ہے کہ وہ اپریل میں اور اکتوبر میں دوبارہ حملوں کے بعد جلد ہی اسرائیل پر تیسرا حملہ کرے گا۔
اپوزیشن لیڈر یائر لیپڈ نے فوری طور پر نیتن یاہو کے گیلنٹ کی برطرفی کو "پاگل پن کا عمل" قرار دیا۔ اور جب کہ وزیر اعظم کے لیے ذاتی طور پر یہ ایک خوفناک قسم کا احساس رکھتا ہے، پورے اسرائیل کے لیے، یہ بالکل خوفناک ہے۔
نیتن یاہو کے حکومتی اتحاد کا انحصار دو انتہائی آرتھوڈوکس جماعتوں کی حمایت پر ہے، جو اصرار کر رہی ہیں کہ حکومت زیادہ تر الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کو فوجی خدمات سے خارج کرنے کے لیے قانون سازی کرے۔ نیتن یاہو کو اس طرح کی قانون سازی کے لیے اکثریت حاصل کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اور گیلنٹ — اس بات سے آگاہ ہیں کہ کھڑی فوج اور ریزرو فوجی دونوں غیر معمولی دباؤ میں ہیں، اور یہ کہ IDF کو ان تمام بھرتیوں کی ضرورت ہے جو وہ حاصل کر سکتے ہیں — (لازمی بھرتی کا قانون ختم کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاد) اپوزیشن کی قیادت کر رہے تھے۔ نیتن یاہو اب گیلنٹ کی جگہ پر اسرائیل کاٹز کو مقرر کر رہے ہیں جو لیکوڈ کے وفادار ہیں، وہ اس معاملے پر اور دیگر تمام معاملات پر فرض شناسی کے ساتھ وزیر اعظم کی لائن کی پیروی کریں گے۔
گیلنٹ غزہ میں یرغمالیوں سے جنگ بندی کے معاہدے کو محفوظ بنانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششوں کا سب سے اہم وکیل بھی تھے، جس نے ملک کے سکیورٹی سربراہوں کی حمایت کے ساتھ یہ دلیل دی کہ اسرائیل کو ایک وسیع انتظام پر عمل کرنا چاہیے جس سے شمال میں لڑائی ختم ہو جائے گی۔ حزب اللہ کو بہت زیادہ تنزلی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اگرچہ یقینی طور پر تباہ نہیں ہوا ہے — اور غزہ میں، جہاں حماس اب ایک منظم جنگجو قوت کے طور پر کام نہیں کرتی ہے۔
گیلنٹ نے 7 اکتوبر 2023 سے حماس کے زیر حراست 97 یرغمالیوں کی واپسی کو ترجیح دینے پر زور دیا، یہاں تک کہ جنگ کے خاتمے کی قیمت پر، یہ دلیل دیتے ہوئے کہ اسرائیل مستقبل میں حماس سے مزید نمٹنے کے لیے واپس آ سکتا ہے اور ممکن ہے۔ نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی شراکت دار، تاہم، اس طرح کے کسی بھی انتظام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں، اور بار بار اتحاد کو ختم کرنے کی دھمکی دیتے رہے ہیں کہ اگر وہ اسے "لاپرواہ" معاہدے کے طور پر مسترد کرتے ہیں تو اسے آگے بڑھایا جائے۔
گیلنٹ نے عوامی طور پر حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے قتل عام کے بارے میں انکوائری کے ایک پاور ہاؤس اسٹیٹ کمیشن کے قیام کا بھی مطالبہ کیا ہے - جو ان سیاسی اور فوجی ناکامیوں پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرے گا جنہوں نے غزہ کی دہشت گرد حکومت کو اسے انجام دینے کے قابل بنایا۔ نیتن یاہو نے ثابت قدمی سے ایسی کسی بھی انکوائری کی مزاحمت کی ہے، اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کے نتائج ان کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
گیلنٹ کے راستے سے ہٹ جانے کے بعد، نیتن یاہو سمجھتے ہیں کہ ان کے انتہائی آرتھوڈوکس اور انتہائی دائیں بازو کے شراکت داروں کو جگہ دی جا سکتی ہے، ان کا سب سے پریشان کن نقاد ختم ہو جائے گا، اور اقتدار پر ان کی گرفت مستقبل قریب کے لیے محفوظ رہے گی۔
وزیر اعظم اب سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں گارڈ کی تبدیلی کا حکم دینے کے بارے میں بھی طے کر سکتے ہیں، جس میں چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی اور شن بیٹ کے سربراہ رونن بار فہرست میں سرفہرست ہیں۔ حماس کے قتل عام کے بعد سے وزیر اعظم کے ساتھیوں نے زیادہ سے زیادہ الزام سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر ڈالنے اور نیتن یاہو کی زیر قیادت سیاسی قیادت سے دور رہنے کی کوشش کی ہے۔
نیتن یاہو نے اپنا یہ اقدام ان دنوں کے بعد کیا جب ایک جج نے جزوی طور پر اس تحقیقات کے بارے میں ایک امتناعی حکم کو ہٹا دیا جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ IDF سے خفیہ خفیہ دستاویزات کی "منظم" چوری ہوئی ہے، اور نیتن یاہو کے ترجمان کو کم از کم ایک ایسی دستاویز کی منتقلی، جس نے پھر مبینہ طور پر اس کے کچھ حصے جرمنی کے بِلڈ اخبار کو لیک کر دیے جو وزیر اعظم کے مفادات کو پورا کرتے تھے۔ اور اس نے ایک دوسری تحقیقات کی خبروں کے بریک ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی یہ کام کیا جو جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک وزیر اعظم کے دفتر سے منسلک مبینہ "مجرمانہ واقعات" کے بارے میں مہینوں سے خفیہ طور پر کی جا رہی ہے، بظاہر نیتن یاہو کی طرف سے ڈاکٹروں کی طرف سے کی گئی کوششوں سے متعلق ہے۔ جنگی ملاقاتیں.
امریکی انتخابات کے چھوٹے سے معاملے کے ساتھ ساتھ، یہ وہ دو تحقیقات ہیں، جو نیتن یاہو کے لیے گہری پریشانی کا باعث ہیں، جو منگل کی رات اسرائیل میں سرخیاں بن رہی ہوں گی۔
وزیر اعظم نے اندازہ لگایا ہوگا کہ جدید ریاست کی پوری تاریخ کی واحد بدترین تباہی کے ساتھ شروع ہونے والی جنگ کے ایک سال سے زیادہ عرصے سے تھک چکے اسرائیلی اپنے لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکلنے سے عاجز ہوں گے۔ جیسا کہ انہوں نے مارچ 2023 میں وزیر دفاع کی برطرفی کے خلاف انتھک احتجاج کیا۔تاہم ہم دیکھیں گے ( کہ لوگ اس مرتبہ گیلنٹ کیلئے نکلتے ہیں یا نہیں)۔
نیتن یاہو کی گیلنٹ کی برطرفی اسرائیل کے لیے پچھلی بار کی نسبت اب کی بار کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ وزیر اعظم نے تجربہ کار سابق جنرل کو فوج کی سیاسی سربراہی کا عہدہ دیا تھا، جو اسرائیل کی سلامتی کے لیے وقف ایک آزاد مفکر ہیں جنہوں نے ممکنہ سیاسی قیمت کے باوجود فوج کو مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ جن کی فوجیوں کی طرف سے بہت زیادہ عزت کی جاتی ہے، ان کی بے دخلی، اور ہلکے وزن والے کاٹز کا ان کی جگہ لے جانا، صرف فوجی قابلیت اور حوصلے کو کمزور کر سکتا ہے۔
گیلنٹ نے اپنے امریکی ہم منصب لائیڈ آسٹن کے ساتھ بھی بہت اچھے تعلقات قائم کیے ہیں، جس میں ایک اہم شراکت داری قائم ہوئی ہے کیونکہ واشنگٹن نے ایران کو روکنے کے لیے خطے میں فوجیں تعینات کی ہیں اور ایک علاقائی اتحاد کی قیادت کی ہے جس نے آیت اللہ کے تقریباً تمام ڈرونز اور میزائلوں کو روکنے میں مدد کی۔ اسرائیل پر وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے 5 نومبر 2024 کو وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو برطرف کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک ویڈیو بیان دیا۔ (GPO اسکرین شاٹ)
گیلنٹ کو برطرف کرنے کے فوراً بعد نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان ریکارڈ کیا اور جاری کیا، نیتن یاہو نے وزیر دفاع پر بالواسطہ طور پر اسرائیل کے دشمنوں کی مدد کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ گیلنٹ نے ایسی باتیں کہی اور کیں جو حکومتی فیصلوں سے متصادم ہیں، اور یہ کہ ان کے اختلاف رائے کی وجہ بنی۔ دشمن و بھی علم ہو گیا - ہمارے دشمن اس سے لطف اندوز ہوئے اور اس سے بہت فائدہ اٹھایا۔"
تاہم، حقیقت میں، یہ نیتن یاہو کا ایک دلیر، قابل اور محب وطن وزیر دفاع کو ایک تلخ جنگ کے عروج پر برطرف کرنے کا غیر دانشمندانہ اور لاپرواہ فیصلہ ہے، جس سے اندرونی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا جس پر اسرائیل کی اہم لچک کا انحصار ہے، جو اسرائیل کے دشمنوں کو خوش اور ممکنہ طور پر فائدہ دے گا۔
اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ کو برطرف کرنے کے وزیراعظم نیتن یاہو کے اچانک اعلان کے بعد ایک طرف عوامی احتجاج شروع ہو گیا ہے دوسری طرف ملک کے ممتاز اصحابِ رائے اس فیصلے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کے بانی ایڈیٹر ڈیوڈ ہورووٹز نے یواو گیلنٹ کو برطرف کئے جانے کے کچھ دیر بعد یہ تحریر لکھی ہے جسے تقریباً من و عن ترجمہ کر کے شائع کیا جا رہا ہے۔
ڈیوڈ ہورووٹز ٹائمز آف اسرائیل کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ وہ "سٹل لائف ود بمبارز" (2004) اور "A Little Too Close to God" (2000) کے مصنف اور "Shalom Friend: The Life and Legacy of Yitzhak Rabin" (1996) کے شریک مصنف ہیں۔ اس سے پہلے وہ دی یروشلم پوسٹ (2004-2011) اور دی یروشلم رپورٹ (1998-2004) میں ایڈیٹر رہے ہیں۔
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: امریکہ کی پہلی متوقع خاتون صدر، آج ہو رہے الیکشن میں ڈیموکریٹ امیدوار، تامل ناڈو سے امریکہ جا بسنے والی ماں کی بیٹی کمیلا ہیرس کےلئے تامل ناڈو کا ایک گاؤں، تھولاسندرا پورم، میں خوصی پوجا کی گئی تو یہ کوئی حیران کن خبر نہیں۔ یہ گاؤں کمیلا ہیرس کے نانا کا ہےجو بعد میں چنئی شہر چلے گئے تھے۔
تامل ناڈو کے مندروں میں کمیلا ہیرس کی صدارتی الیکشن میں کامیابی کے لئے پوجا اور پرارتھناؤں کا سلسلہ کئی روز سے چل رہا ہے۔
مندر کے قریب ایک چھوٹا سا سٹور چلانے والے جی مانی کندن نے کہا، "منگل کی صبح مندر میں ایک خصوصی دعا ہوگی۔ اگر وہ (کمیلا) جیت گئیں تو ہم جشن منائیں گے۔"
مندر میں ایک پتھر پر، کمیلا ہیرس کے نانا کے نام کے ساتھ ہی ان کا نام بھی عطیہ دینے والوں کے طور پر کندہ ہے۔ مندر کے باہر، ایک بڑا بینر لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے ہم الیکشن میں "دھرتی کی بیٹی" کی کامیابی کی دعا کرتے ہیں۔"
کمیلا ہیرس کے نانا پی وی گوپالن ایک صدی سے زیادہ پہلے تھولاسندرا پورم گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ بعد میں وہ چند سو میل دور ساحلی شہر چینئی ہجرت کر گئے، جہاں انہوں نے اپنی ریٹائرمنٹ تک ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے طور پر کام کیا۔
کمیلا ہیرس کی والدہ شیاملا گوپالن چینئی میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے 19 سال کی عمر میں 1958 میں امریکہ ہجرت کرنے سے پہلے دہلی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔
کمیلا کی والدہ شیاملا گوپالن نے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے سے ماسٹرز ڈگری حاصل کی اور چھاتی کے کینسر کی تحقیقات میں نام کمایا۔ شیاملا نے 1963 میں، ڈونلڈ ہیرس سے شادی کی، جو کالج میں ان کے ساتھی تھے اور جمائیکا سے آئے تھے۔
کمیلا اور ان کی چھوٹی بہن مایا امریکہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں پرورش پائی۔ کمیلا اکثر اپنی والدہ کو اپنا آیئڈیل قرار دیتی ہیں۔
کمیلا کی والدہ کا کینسر سے 2009 میں انتقال ہوگیا اور وہ ہندو رسومات کے مطابق اپنی والدہ کی استھیاں (راکھ) سپرد آب کرنے کے لیے چینئی آئی تھیں۔
تھولاسندرا پورم گاؤں کو چار سال قبل اس وقت عالمی توجہ حاصل ہوئی جب کمیلا ہیرس امریکہ کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔
کمیلا ہیرس نے بچپن میں بھارت کے اپنے دوروں کو یاد کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا تھا کہ وہ اپنے نانا کا ہاتھ پکڑ کر دیر تک ساحل سمندر کی سیر کیا کرتی تھیں۔
انہوں نے کہا تھا، "مجھے یاد ہے کہ ان تمام چہل قدمی کے دوران، میرے نانا نے مجھے نہ صرف جمہوریت کا مطلب بتایا تھا بلکہ جمہوریت کو برقرار رکھنے کے بارے میں بھی سبق سکھایا تھا۔ اور مجھے یقین ہے کہ یہ وہ سبق ہیں جو میں نے بہت چھوٹی عمر میں سیکھے تھے جنہوں نے سب سے پہلے عوامی خدمت میں میری دلچسپی کو متاثر کیا۔"
گوکہ کمیلا ہیرس نے اپنی انتخابی تقریروں میں اس گاؤں کا ذکر نہیں کیا لیکن تھولاسندرا پورم کے باشندے ان کی جیت کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔
گاؤں کے ایک 80 سالہ ریٹائرڈ بینک مینیجر، این کرشنامورتی نے کہا، "ان(کمیلا) کی وجہ سے ہی اس گاؤں کو اتنی شہرت ملی ہے۔ کسی اور نے ہمارے لیے اتنا کچھ نہیں کیا۔"
"ہمارا گاؤں ان کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے، اور ہم بار بار ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں، ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور ہماری دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں گی۔"
سٹی42: امریکہ میں صدر کے الیکشن کے لئے پولنگ تمام ریاستوں میں پر امن چل رہی ہے، ان سات ریاستوں میں بھی جنہیں "میدانِ جنگ کی ریاستیں" کہا جاتا ہے پولنگ کے دوران کوئی ٹینشن سامنے نہیں آئی۔ یہ تو اچھی بات ہے لیکن آخر وہ "خبریں" کیا تھیں جو "سوئینگ سٹیٹس" یعنی وہی میدانِ جنگ کی ریاستوں میں پولنگ ڈے پر " کمیلا ہیرس کی انتخابی دھاندلی" کی منصوبہ بندی کے متعلق تھیں۔
اب یہ انکشاف ہوا ہے کہ "سوئنگ ریاستوں میں منصوبہ بند امریکی انتخابی دھاندلی" کی جھوٹی رپورٹوں کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے۔
امریکی حکام کو یہ بھی خطرہ تھا کہ ایران سے منسلک لوگ غلط معلومات پھیلا کر تشدد کو ہوا دینے کی کوشش کریں گے
ایک واچ ڈاگ کا کہنا ہے کہ ایلون مسک کے جھوٹے یا گمراہ کن دعوؤں کو 2 بلین ویوزملے
روس سے منسلک ڈس انفارمیشن آپریشنز نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ میدان جنگ کی ریاستوں میں حکام نے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کو دھوکہ دہی سے متاثر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ امریکی حکام نے منگل کو ووٹنگ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل ان جھوٹی خبروں کے متعلق متنبہ کیا اور مزید کہا کہ انہیں یہ بھی توقع ہے کہ ایران سے منسلک کارروائیاں تشدد پھیلانے کی کوشش کریں گی۔
سات سوئنگ ریاستوں میں کامیابی حریفوں کملا ہیرس اور ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے وائٹ ہاؤس جیتنے کی کلید ہے، اور یہ ریاستیں پہلے انتخابی دھاندلی کے غیر تائید شدہ الزامات کی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔
ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس (ODNI)، ایف بی آئی اور سائبر سیکیورٹی اینڈ انفراسٹرکچر سیکیورٹی ایجنسی نے پیر کو کہا تھا کہ "روس سب سے زیادہ فعال خطرہ ہے،" انہوں نے بتایا تھا، ان کوششوں سے تشدد بھڑکانے کا خطرہ ہے، بشمول انتخابی اہلکاروں کے خلاف،" انہوں نے مزید کہا، یہ کہتے ہوئے کہ انتخابات کے دن اور اگلے ہفتوں میں ان کوششوں میں شدت آنے کی توقع ہے۔
یہ ODNI کی طرف سے غیر ملکی اداکاروں - خاص طور پر روس اور ایران - کے بارے میں انتباہات کے سلسلے میں تازہ ترین انتباہ تھا جو مبینہ طور پر اس الیکشن کے دوران غلط معلومات پھیلا رہے ہیں یا الیکشن کیمپین کو ہیک کر رہے ہیں۔
تہران اور ماسکو دونوں ماضی میں ایسے الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
تازہ ترین ODNI بیان میں ایک حالیہ ویڈیو کی مثال پیش کی گئی ہے جس میں ایریزونا میں انتخابی دھوکہ دہی کا دعوی کرنے والے ایک شخص کے انٹرویو کو جھوٹا دکھایا گیا ہے، جس میں جعلی بیرون ملک بیلٹ بنانا اور ہیریس کے حق میں ووٹر فہرستوں کو تبدیل کرنا شامل ہے۔
ایریزونا کے سکریٹری آف اسٹیٹ ایڈرین فونٹیس نے ویڈیو اور اس کے دعووں کو "مکمل طور پر جھوٹا، جعلی اور دھوکہ دہی پر مبنی" قرار دیا۔
امریکی حکام نے اکتوبر کے آخر میں خبردار کیا تھا کہ ایک وائرل ویڈیو کے پیچھے روس سے منسلک کارروائیوں کا ہاتھ ہے جس میں ٹرمپ کو پنسلوانیا کی سوئنگ سٹیٹ میں تباہ کئے گئے ایک میل ان بیلٹ کو غلط طریقے سے دکھایا گیا ہے۔
ویڈیو، جس نے پلیٹ فارمز پر لاکھوں آراء حاصل کیں جیسے بکس کاؤنٹی بورڈ آف الیکشنز نے ویڈیو کو "جعلی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوٹیج میں دکھائے گئے لفافے اور دیگر مواد "واضح طور پر مستند مواد نہیں" ہیں جو ان سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کے ذریعے تقسیم کیے گئے ہیں۔
آج پوسٹ کی گئی ایک وائرل ویڈیو میں بکس کاؤنٹی، پنسلوانیا میں ایک پول ورکر کو ٹرمپ کے لیے میل ان بیلٹ کھولتے اور تباہ کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
کاؤنٹی کے بورڈ آف الیکشنز اور بکس کاؤنٹی GOP دونوں کا کہنا ہے کہ ویڈیو جعلی ہے، ایسا کوئی پول ورکر موجود نہیں ہے، اور بیلٹ مستند نہیں ہیں۔
سائبرا، ایک فرم جو آن لائن غلط معلومات کا پتہ لگانے کے لیے AI کا استعمال کرتی ہے، نے پیر کو کہا کہ ایک ایکس کے ترجمان نے کہا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے یہ فیک ویڈیو شیئر کرنے والے بہت سے اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی۔
ستمبر میں، مائیکروسافٹ تھریٹ اینالیسس سنٹر نے کہا کہ روسی کارکن سازش سے بھری ویڈیوز پھیلا کر ہیریس کی مہم کو بدنام کرنے کے لیے غلط معلومات پھیلانے کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، غیر منافع بخش گروپ سینٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ نے پیر کو اطلاع دی کہ امریکی انتخابات کے بارے میں ارب پتی ایلون مسک کے جھوٹے یا گمراہ کن دعووں نے اس سال اس کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر 2 بلین آراء اکٹھی کی ہیں۔
ستمبر میں، مائیکروسافٹ تھریٹ اینالیسس سنٹر نے کہا کہ روسی کارکن سازش سے بھری ویڈیوز پھیلا کر ہیریس کی مہم کو بدنام کرنے کے لیے غلط معلومات پھیلانے کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پہلے ٹویٹر کے نام سے مشہور کمپنی کو سنبھالنے کے بعد سے، مسک نے مواد میں اعتدال کو کم کر دیا ہے اور ہزاروں ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔ مسک نے ٹرمپ کی حمایت کرتے ہوئے صدارتی الیکشن کی کیمپین کے دوران ڈالر بانٹ کر بھی کافی بدنامی کمائی۔
تقریباً 203 ملین فالوورز کے ساتھ مسک کی وسیع رسائی "نیٹ ورک اثرات" کو فعال کرنے میں مدد کرتی ہے جس میں غلط معلومات پر مشتملمواد ہے۔ "X ایک پلیٹ فارم سے دوسرے پلیٹ فارم تک جانے والا نالی ہے،" مائیکرو سافٹ اینالیسس سنٹر نے کہا۔
سنٹر فار کاؤنٹرنگ ڈیجیٹل ہیٹ کی رپورٹ کے مطابق، اس سال مسک کی کم از کم 87 پوسٹس نے امریکی انتخابات کے بارے میں ان دعووں کو فروغ دیا ہے جن کو حقائق کی جانچ کرنے والوں نے غلط یا گمراہ کن قرار دیا ہے، جس سے 2 بلین آراء جمع ہوئیں۔
پولنگ ڈے پر غیر معمولی سکیورٹی انتظامات
2024 کی امریکی صدارتی مہم خاص طور پر اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے، اور منگل کو پولنگ کے دن کے لیے سیکیورٹی کو غیر معمولی سطح تک بڑھایا گیا ہے جس کی وجہ ممکنہ شہری بدامنی، انتخابی گہما گہمی، یا انتخابی کارکنوں کے خلاف تشدد کے خدشات ہیں۔
اوریگون، واشنگٹن اور نیواڈا کی ریاستوں نے نیشنل گارڈ کو فعال کر دیا ہے - اور پینٹاگون کا کہنا ہے کہ کم از کم 17 ریاستوں نے ضرورت پڑنے پر نیشنل گارڈ کے کل 600 دستے اسٹینڈ بائی پر رکھے ہیں۔
ایف بی آئی نے واشنگٹن میں ایک قومی الیکشن کمانڈ پوسٹ قائم کی ہے تاکہ انتخابی ہفتے کے دوران دن میں 24 گھنٹے خطرات کی نگرانی کی جا سکے، اور تقریباً 100,000 امریکی پولنگ سٹیشنوں میں سے کئی پر سکیورٹی کو مضبوط کیا گیا ہے۔
نیشنل کانفرنس آف سٹیٹ لیجسلیچرز کے مطابق، انیس ریاستوں نے 2020 سے الیکشن سیکیورٹی بڑھانے کے قوانین نافذ کیے ہیں۔
سیکیورٹی کی نئی پرتیں 2020 سے انتخابی افراتفری کی پیروی کرتی ہیں، خاص طور پر جب ٹرمپ کے حامیوں نے 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل کی عمارت پر دھاوا بولا، جس کا مقصد انتخابی نتائج کی تصدیق کو روکنا تھا جس نے جو بائیڈن کو فاتح قرار دیا تھا۔
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: امریکہ میں صدر کے الیکشن کے دوران بارشوں کی پیش گوئی ریاست میسوری میں سچ ثابت ہو گئی۔ جنوبی میسوری کے کچھ حصوں میں پیر کو 6 انچ تک بارش ہوئی، جس سے کئی دیہی علاقوں میں سیلاب آ گیا اور ایک جھیل کے قریب آبادی خطرے میں پڑ گئی۔امریکہ میں آج صدارتی الیکشن سے کئی روز پہلے ہی موسم کے ڈیپارٹمنٹ اور پرائیویٹ ویب سائٹس نے نشاندہی کر دی تھی کہ الیکشن ڈے پر تھنڈر سٹارم ان ریاستوں میں ووٹنگ کو متاثر کر سکتے ہیں جن ریاستوں کو الیکشن کے نتائج کے حوالے سے "میدانِ جنگ کی ریاستیں" سمجھا جاتا ہے۔ آج الیکشن ڈے پر بتایا جا رہا ہے کہ میدان جنگ کی اہم ریاستوں میں ٹرن آؤٹ اچانک تھڈر سٹارمز کی وجہ سے متاثر ہو سکتا ہے۔
بدھ کے روز تک ریاست کے بیشتر حصوں میں مزید شدید بارش کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ مضافاتی سینٹ میں نیشنل ویدر سروس کے نے کہا کہ "کچھ جگہوں پر نالیوں اور پلوں کے بند ہونے کی وجہ سے سیلاب مزید خراب ہو سکتا ہے۔" جنوب مشرقی میسوری کی کئی کاؤنٹیز میں سیلاب کی وارننگ جاری تھی۔
زخمیوں یا ہلاکتوں کی فوری طور پر کوئی اطلاع نہیں ہے۔
سینٹ فرانسوا کاؤنٹی ایمرجنسی مینجمنٹ نے پیر کی سہ پہر ایک فیس بک پوسٹ میں کہا کہ آئرن ماؤنٹین جھیل کے قریب ایک لیوی "ناکام ہونے کے خطرے میں ہے" اور آس پاس کے رہائشیوں سے انخلاء کی اپیل کی گئی۔ انخلاء لازمی نہیں تھا۔ بسمارک سینئر سینٹر میں سیلاب سے متاثر شہریوں کے لئے ایک پناہ گاہ کھولی گئی۔
قریبی رینالڈز کاؤنٹی میں، حکام نے خبردار کیا کہ ندی اور نالے تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ بلومسڈیل میں، رضاکار فائر فائٹرز نے سیلاب زدہ سڑک پر پانی کے ذریعے گاڑی چلانے کی کوشش کرنے والے دو افراد کو بچایا۔ یہ علاقہ ان کئی دیہی علاقوں میں شامل تھا جہاں بارش کے پانی سے سیلاب کی سی صورتحال ہے۔
اس وقت تمام امریکی ریاستوں میں پولنگ کا عمل عروج پر ہے۔ پولنگ سٹیشنوں پر ووٹرز کی بڑی تعداد موجود ہے، اور بہت سے ووٹر اپنے کام کاج میں سے وقت نکال کر ووٹ کاسٹ کرنے کے لئے جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
اس سے پہلے بھی شدید موسم نے تاریخی طور پر امریکہ میں صدر کے انتخابات کے نتائج کو متاثر کیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جان ایف کینیڈی کو 1960 میں بادل سے پاک نیلے آسمانوں نے کامیابی کا تحفہ دیا تھا، جبکہ بارش نے 2000 میں فلوریڈا میں جارج ڈبلیو بش کی فتح کو یقینی بنانے میں مدد کی تھی۔
اس سال، مشی گن اور وسکونسن کی اہم ریاستوں میں شدید بارش کی پیشن گوئی ہے جہاں بارش زیادہ دیر برسی تو یہ ٹرن آؤٹ کو متاثر کر سکتی ہے۔
ان پیشین گوئیوں کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے سیاسی پارٹیوں نے یہ کِیا کہ اپنے خاص سپورٹرز کو پولنگ ڈے پر ووٹ کرنے کا انتظار کرنے کی بجائے پہلے ہی ووٹ کاسٹ کرنے دینے پر اکسایا، ان دونوں ریاستوں میں ارلی ووٹنگ کے دوران بہت سے ووٹرز اپنے ووٹ استعمال کر چکے ہیں تاہم ووٹرز کی بڑی تعداد روایتی انداز سے آج قطاروں میں کھڑا ہو کر باری کا انتظار کرنے اور پولنگ سٹیشنوں کے اندر بنے پولنگ بوتھس پر ووٹ کاسٹ کرنے کو ترجیح دے رہی ہے کہ شاید اس سرگرمی کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
دریں اثنا، مونٹانا سے کولوراڈو تک راکیز میں شدید برف باری کی پیش گوئی کی گئی ہے اور ان علاقوں میں موسم سرما کے الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔
کیلیفورنیا میں، تیز ہوائیں اور خشک حالات سان فرانسسکو بے کے علاقے سے لے کر لاس اینجلس تک جنگل کی آگ کے لیے خطرہ پیدا کریں گے جہاں سرخ پرچم کی وارننگ جاری کی گئی ہے۔
ٹیلی گراف نے اپنی ایک رپورٹ میں موسم کے اداروں کی پیشین گوئیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ مونٹانا میں برفانی طوفان کے حالات بڑی حد تک اس سرخ ریاست (روایتاً ری پبلکن پارٹی کو ووٹ کرنے والی ریاست) میں ڈاؤن بیلٹ مقابلے کے لیے اہم نتائج مرتب کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے الیکشنز کیلئے فی الحال ڈیموکریٹس کے حق میں 51 سے 49 جھکاؤ کے ساتھ، ان کے خلاف ہونے والی چند ریسیں GOP (ری پبلکن پارٹی) کے لیے ایوان بالا کو پلٹ سکتی ہیں۔
دن کے آخر میں مشی گن کے زیریں علاقوں میں گرج چمک کے ساتھ چند طوفانوں کی پیش گوئی کی گئی ہے جبکہ ریاست کے بالائی حصے میں بھی بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے۔
امکان ہے کہ وسکونسن آج دن بھر بارش سے گیلا ہوتا رہے گا، خاص طور پر ریاست کے شمالی نصف حصے میں بارش کا زیادہ امکان ہے۔
پیشن گوئی کے مطابق، جارجیا کے جنوب مغربی حصوں اور مغربی شمالی کیرولائنا میں بھی ہلکی بارش ہو سکتی ہے۔
مونٹانا میں طوفانی صورتحال کے علاوہ، ایڈاہو کے کچھ حصوں میں بھی برفباری کی پیش گوئی کی گئی ہے، اس ریاست سے ریپبلکن کو ووٹ ملنے کی توقع ہے، اور مشرقی واشنگٹن اور اوریگون میں بھی آج بارش کا امکان ہے، یہ دونوں ریاستیں ڈیموکریٹ امیدوار کو ووٹ دینے کا امکان رکھتی ہیں۔
سٹی42: دنیا بھر سے اپنے ملک چھوڑ کر روزگار کمانے کے لئے امریکہ جانے والے مسلمانوں کے لئے امریکہ کی سرزمین کو ایک ڈراؤنا خواب بنا دینے والے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن میں غزہ جنگ کے سبب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کمیلا ہیرس سے شکایات رکھنے والے مسلمان امریکیوں سے ووٹ لینے کے لئے "پاگل" ہو گئے۔ آج انہوں نے ڈیموکریٹ امیدوار کمیلا ہیرس پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ صدر بن گئیں تو "مشرق وسطیٰ پر حملہ کر دیں گی"
امریکہ میں آج ووٹنگ کا عمل جاری ہے اور ڈیموکریٹک امیدوار کملا ہیرس اور ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مقابلہ ہے۔ اس مقابلہ میں رائے عامہ کے اب تک کے جائزوں کے مطابق کمیلا ہارس کو معمولی برتری حاصل ہے تاہم ان کے روایتی ووٹر عرب مسلمان ان سے کسی قدر ناراض ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ غالباً یہ چاہتے ہیں کہ کمیلا کے ناراض حامی کسی طرح ان کی طرف آ جائیں حالانکہ خود ان کی صدارت کے دوران ان کی پالیسیوں کو مسلمانوں نے عمومی طور پر ناپسند کیا تھا۔ اب بھی ٹرمپ امیگریشن کی پالیسیوں کو مزید سخت بنانے سے لے کر متعدد ایسے اقدامات کے حامی ہیں جن کا نقصان مسلمانوں کو بھی ہو گا۔ اور خود ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسرائیل کی حماس کے ساتھ جنگ میں تقریباً وہی پوزیشن رکھتے ہیں جو صدر جو بائیڈن کی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلم ووٹرز کو مخاطب کرتے ہوئے سوشل پلیٹ فارم ایکس پر اپنی پوسٹ میں مسلمان عرب امریکیوں کو اکسانے والا ایک دعویٰ کیا ہے کہ "کمیلا ہیرس اور ان کی جنگجو کابینہ" مشرق وسطیٰ پرحملہ کردیں گے۔
ٹرمپ نے اپنی ویری فائی نہ کئے جا سکنے والے الزامات پر مبنی پوسٹ میں کہا، "ٹرمپ کو ووٹ دیں اور امن واپس لائیں۔"
اپنے بیان میں ٹرمپ نے "میدانِ جنگ کی ریاست مشی گن" کے مسلمان عرب ووٹرز کو کہا کہ عرب اور مسلمان امن چاہتے ہیں، کمیلا ہیرس اور ان کی جنگجو کابینہ مشرق وسطیٰ پرحملہ کردیں گے۔
ٹرمپ نے یہ سنگین الزام بھی لگایا کہ کیملا ہیرس اور ان کی جنگجو کابینہ لاکھوں مسلمانوں کو قتل کردیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے بیان میں یہ بھی لکھا کہ کملا ہیرس اور ان کی جنگجو کابینہ تیسری عالمی جنگ شروع کردیں گے۔
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: امریکہ کا صدر بننے میں ایسی کشش کیوں ہے، اس نوکری کی تنخواہ کیا ملتی ہے اور مراعات کیا کچھ ملتی ہیں۔ بیشتر لوگ سمجھتے ہوں گے کہ صدر بنتے ہی دولت برسنے لگتی ہو گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہے، امریکہ کے صدر کو سالانہ چار لاکھ 400,000 ڈالر تنخواہ ملتی ہے جو امریکہ میں کام کرنے والے بہت سے پروفیشنلز کی تنخواہوں کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔
تو پھر صدر کو مراعات غیر معمولی ملتی ہوں گی، دنیا کی ہر نعمت اسے مراعات میں مل جاتی ہو گی؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا بھی نہیں ہے؛ امریکہ کے صدر کو وہی ضروری مراعات ملتی ہیں جو انہیں اچھے انداز سے صدر کی نوکری نبھانے کے لئے درکار ہوتی ہیں۔
پھر بھی کہا جا سکتا ہے کہ مراعات کا حجم امریکی صدر کی تنخواہ سے قدرے زیادہ ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کا دارومدار اس پر بھی ہے کہ کوئی صدر مراعات کو کس قدر استعمال کرتا ہے۔
امریکی صدر کتنا کماتے ہیں؟
امریکہ کے صدر کو سالانہ 400,000 ڈالر تنخواہ ملتی ہے جو کہ تقریباً 3.36 کروڑ روپے بنتی ہے۔ اس بنیادی تنخواہ کے علاوہ، صدر کو سرکاری فرائض کی انجام دہی سے متعلق "خرچوں" کے لیے سالانہ $50,000 مختص کیے جاتے ہیں، یہ اضافی فنڈز تفریح اور مہمان نوازی جیسے مختلف اخراجات کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
مزید برآں، جب کسی نئے صدر کا افتتاح ہوتا ہے، تو انہیں اپنے نئے گھر اور دفتر کی تزئین و آرائش اور فرنشننگ جیسے ابتدائی اخراجات میں مدد کے لیے $100,000 کا یک وقتی الاؤنس ملتا ہے۔ اس رقم کو وائٹ ہاؤس کی تزئین و آرائش اور بہتری کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، جو ان کی سرکاری رہائش گاہ اور کام کی جگہ بنتا ہے۔ ہر صدر اس رقم سے وائٹ ہاؤس مین اپنی سہولت اور عادات کے مطابق معمولی نوعیت کی ہی تندیلیاں اور اضافے کروا سکتا ہے۔
ایک تاریخی تناظر: وقت کے ساتھ امریکی صدر کی تنخواہ کیسے بڑھی
پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن نے سالانہ صرف 2000 ڈالر تنخواہ حاصل کی، یہ تعداد 18ویں صدی میں کافی سمجھی جاتی تھی۔ تاہم، جیسے جیسے سال گزرتے گئے اور قوم کی طاقت اور دولت میں اضافہ ہوا، صدارتی تنخواہ میں متعدد بار اضافہ دیکھا گیا۔ یہاں ایک فوری جائزہ ہے کہ کس طرح تنخواہ میں سالوں میں تبدیلی آئی ہے:
1789: $25,000
1873: $50,000
1909: $75,000
1949: $100,000
1969: $200,000
2001: $400,000 (آخری اضافہ، جارج ڈبلیو بش کے دور صدارت میں) انیس سو انہتر سے دو ہزار ایک تک اکتیس سال کے بعد امریکہ کے صدر کی تنخواہ صرف دو گنا ہوئی جب کہ اس عرصہ کے دوران امریکہ کے اوسط درجہ کے بزنس مین کی آمدن کئی گنا زیادہ بڑھی۔مزے کی بات یہ ہے کہ گزشتہ 23 سالوں میں تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا تاہم یہ تنخواہ اب بھی کسی بھی عالمی رہنما کے لیے سب سے زیادہ ہے۔
امریکی صدر کی سہولیات اور مراعات
ریاستہائے متحدہ کے صدر کو اس عہدے کے ساتھ ملنے والی مراعات کی ایک وسیع فہرست حاصل ہے، ان میں ایک پرتعیش رہائش، سفری مراعات، اور عالمی معیار کی سیکیورٹی وغیرہ سر فہرست ہیں۔
وائٹ ہاؤس: ایک صدارتی محل
صدر کی بنیادی رہائش گاہ اور کام کی جگہ واشنگٹن ڈی سی میں وائٹ ہاؤس ہے۔ یہ مشہور حویلی، 18 ایکڑ اراضی پر واقع ہے، جہاں صدر مفت رہتے ہیں۔ وسیع و عریض اسٹیٹ میں شاہانہ کمرے، باغات اور دفتر کی وسیع جگہیں شامل ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ساتھ، صدر کو کیمپ ڈیوڈ کی دیہی رہاش گاہ تک بھی رسائی حاصل ہے، جو میری لینڈ کے دیہی علاقوں میں ایک ویران علاقہ ہے، جو اکثر آرام یا اہم مہمانوں کی میزبانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تفریح اور عملہ
صدر کے سالانہ بجٹ میں تفریح کے لیے $19,000 شامل ہیں، جس میں معززین کی میزبانی، تقریبات کا انعقاد، کھانا پکانے اور مہمان نوازی کے لیے عملے کو برقرار رکھنے سمیت مختلف سرگرمیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ فنڈز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ صدر اور ان کے مہمانوں کا سرکاری تقریبات یا نجی تقریبات کے دوران اچھی طرح سے خیال رکھا جائے۔
صحت اور طبی دیکھ بھال
امریکی صدر اور ان کے قریبی خاندان کے افراد کو صحت کی دیکھ بھال مفت فراہم کی جاتی ہے۔ اس میں دنیا کے بہترین طبی پیشہ ور افراد اور سہولیات تک رسائی شامل ہے، صدر کی صحت کو یقینی بنانا ہمیشہ ایک ترجیح ہے۔
سفر اور سیکیورٹی: امریکی صدر کا قافلہ اور ایئر فورس ون
سلامتی صدارت کے سب سے اہم پہلوؤں میں سے ایک ہے، اور امریکی صدر کو ممکنہ حد تک اعلیٰ ترین تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر کی سیکیورٹی کی تفصیلات میں سیکرٹ سروس، ایف بی آئی اور میرینز کے ایجنٹ شامل ہیں، جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ امریکی صدر ہمیشہ محفوظ رہے، چاہے وہ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک۔
سفر کے دوران، امریکی صدر خصوصی طیارے ایئر فورس ون کا استعمال کرتے ہیں، یہ ایک جدید ترین طیارہ ہے جو خاص طور پر صدارتی سفر کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ طیارہ تقریباً 4,000 مربع فٹ سپیس رکھتاہے، جس میں دفتری جگہیں، ایک میٹنگ روم، اور ایک بیڈروم بھی ہے۔
یہ طیارہ جدید ترین مواصلاتی نظام اور دفاعی اقدامات سے لیس ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کے محفوظ ترین طیاروں میں سے ایک ہے۔ امریکی صدر کا وفد ان کے ساتھ ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہے اس میں ضرورت کے وقت 100 افراد کے بیٹھ سکتے ہیں۔
امریکی صدر کی حفاظتی تفصیلات میں بلٹ پروف لیموزین اور میرین ہیلی کاپٹروں کا قافلہ شامل ہے، یہ تمام جدید میزائل ڈیفینس سسٹم اور مواصلاتی آلات سے لیس ہیں، جو انتہائی خطرناک حالات میں بھی صدر کی حفاظت کو یقینی بناتے ہیں۔
عالمی موازنہ: امریکی صدر کی تنخواہ کیسے بڑھ جاتی ہے۔
اگرچہ امریکی صدر کی تنخواہ بلاشبہ فراخ ہے، لیکن یہ بعض عالمی رہنماؤں کے مقابلے میں کم ہے۔ مثال کے طور پر، سنگاپور کے وزیر اعظم کی سالانہ تنخواہ $1.61 ملین ہے، جس سے وہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا لیڈر قرار پاتا ہے۔ ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹیو کی طرح دیگر رہنما بھی کافی آمدنی حاصل کرتے ہیں، ان کی تنخواہیں 5.5 کروڑ روپے سالانہ سے زیادہ ہیں۔
اس کے مقابلے میں، ہندوستان کے صدر کو بہت کم تنخواہ ملتی ہے جو 5 لاکھ روپے ماہانہ، یا تقریباً 60 لاکھ روپے سالانہ کماتا ہے –
سٹی42: نیویارک ٹائمز نے رپورٹ کیا ہے کہ آج امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخاب کا نتیجہ ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کمیلا ہیرس کے حق میں آنے کی سورت میں امریکہ میں ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آ سکتی ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے حوالہ سے امریکہ کی صف اول کی نیوز آؤٹ لیٹ سی این این نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ آج کے الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد ہنگامہ آرائی اور افراتفری کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ سی این این کے مطابق رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ 2024 کے انتخابات میں "غیر معمولی مقدار میں غلط معلومات" دیکھی جا رہی ہیں اور ماہرین "انتخابات کے بعد کے ممکنہ تشدد اور افراتفری" کے بارے میں فکر مند ہیں۔
تشدد کے خدشات کے باوجود، پینلسٹ جونا گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ انہیں یقین نہیں ہے کہ 6 جنوری کا "ری پلے" ہو گا، یہ کہتے ہوئے کہ "ڈونلڈ ٹرمپ ریاستہائے متحدہ کے اس وقت صدر نہیں ہیں۔ وہ واقعات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جس طرح اس نے پہلے کیا تھا۔" واضح رہے کہ 2020 کے صدارتی الیکشن میں ہارنے کے بعد ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں بیٹھ کر ہنگامہ آرائی کی پلاننگ اور پروپیگنڈا کی سرپرستی کی تھی۔ انہوں نے 6 جنوری 2021 کو جبکہ امریکہ کی پارلیمنٹ کو صدارتی الیکسن 2020 کے نتیجہ کی انڈورسمنٹ کرنا تھی، اپنے ہزاروں حامیوں کو ملک بھر سے بلوا کر واشنگٹن میں پارلیمنٹ پر حملہ ہی کروا دیا تھا۔
آج امریکہ کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے یہ قیاس آرائیاں کئی روز سے کی جا رہی ہیں کہ بعض بیرونی قوتیں بھی امریکہ میں صدارتی الیکشن کے نتائج سامنے آنے کے بعد اور الیکشن ڈے کے دوران گڑبڑ کرنے والے عناصر کی سرپرستی کر سکتی ہیں۔ اس ضمن میں روس پر شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
November 11, 2024
November 11, 2024
سٹی42: امریکہ میں صدر کے انتخاب کی چابی جس ریاست کے عوام کے پاس ہے وہاں پولنگ ڈے کے آغاز پر ہی پولنگ سٹیشنوں کے باہر ووٹرز کی قطاریں لگ گئی ہیں۔ نارتھ کیرولائینا ان Swimg States میں سرِ فہرست ہے جہاں الیکٹورل ووٹ جیتنے کے لئے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں نے اور کیمپین کارکنوں نے گزشتہ کئی ماہ سے دن رات ایک کر رکھا ہے۔
صدارتی انتخابات میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹ امیدوار کمیلا ہیرس میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے اور کسی بھی امدیدوار کو صدر منتخب ہونے کے لیے 538 الیکٹرورل ووٹ میں سے کم از کم 270 ووٹ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
شمالی کیرولائنا کے ولیمنگٹن میں واقع لائل آرڈر آف دی موس لاج میں واقع علاقے کے باہر ووٹ ڈالنے کے لیے لوگوں کی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں، جو صبح 6:30 بجے کھلا۔ ڈاٹ پر ET۔
جب یہ کھلا تو 30 سے 40 لوگ قطار میں کھڑے تھے، اور اس کے بعد سے بھیڑ بڑھ گئی ہے، زمین پر موجود CNN کی ٹیم نے رپورٹ کیا۔
دوسری جگہوں پر، لارنس ویل، جارجیا میں Gwinnett County Voter Registrations & Elections Office میں، لوگوں کی ایک قطار منگل کی صبح سویرے غیر حاضر بیلٹ کی فراہمی کے لیے انتظار کر رہی تھی۔
یہ وہ علاقہ بھی ہے جہاں پول دیکھنے والے اپنی اسناد حاصل کرنے کے لیے چیک ان کرتے ہیں۔
سٹی42: امریکہ میں نئے صدر کے انتخاب کیلئے پولنگ ڈے کی پولنگ بیشتر ریاستوں مین شروع ہو چکی ہے۔ نیو یارک، مشی گن اور کئی دوسری ریاستوں میں ابھی ابھی پولنگ شروع ہوئی ہے۔ یہ وہ ریاستوں ہیں جہاں سورج سب سے بعد میں طلوع ہوتا ہے۔
امریکی اپنے نئے صدر کے انتخاب میں حصہ ڈالنے کےلیے ووٹ ڈالنے پولنگ سٹیشنوں کی طرف جا رہے ہیں۔ نائب صدر کمیلا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر بننے کے لیے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار ہیں۔ ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پنسلوانیا اور وسکونسن کی "میدان جنگ کی ریاستوں" سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ فتح کے راستے میں اہم ثابت ہوں گی۔
عام تاثر یہ ہے کہ ان ریاستوں کے الیکٹورل ووٹ جس امیدوار کو مل جائیں گے وہ صدر منتخب ہو جائے گا۔ باقی ماندہ بیشتر ریاستوں کے بارے مین تقریباً طے ہے کہ وہاں کوئی اپ سیٹ نہیں ہو گا اور جو ریاست 2020 کے صدارتی الیکشن میں جدھر گئی تھی، آج بھی ادھر ہی جائے گی یعنی ووٹر اپنی فیوریٹ پارٹیوں کو اسی طرح ووٹ کریں گے جیسے گزشتہ الیکشن میں کیا تھا تاہم یہ فرق ضرور ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی جیتی ہوئی ریاستوں میں آج ووٹ کا ٹرن آؤٹ کیا ہو گا اسے دیکھنا باقی ہے۔
ووٹرز ٹرن آؤٹ قدرے زیادہ ہوا تو یہ ڈیموکریٹک امیدوار کمیلا ہیرس کو پاپولر ووٹ کی گنتی میں برتری دلانے میں اہم ہو گا جس کی کوئی ٹیکنیکل اہمیت تو نہیں ہوتی تاہم اسے اخلاقی برتری کا ایک پیرامیٹر بہرحال شمار کیا جاتا ہے۔
ڈیموکریٹ ریاستوں یا بلیو سٹیٹس میں آج ٹرن آؤٹ گزشتہ الیکشن سے کم بھی ہو سکتا ہے کیونکہ ڈیموکریٹ ووٹرز کی بڑی تعداد غزہ جنگ کو لے کر بائیڈن حکومت سے ناراض رہی ہے، اور یہ ٹرن آؤٹ بڑھ بھی سکتا ہے کیونکہ پہلی مرتبہ ایک عورت صدر کا الیکشن جیتنے سے صرف چند قدم ہی دور رہ گئی ہے۔ ""عورت صدر کو وائٹ ہاؤس میں دیکھنا" کروڑوں ڈیموکریٹ ووٹرز کا دیرینہ خواب ہے۔
پولنگ ڈے کا پہلا نتیجہ
ملک بھر میں پولنگ سٹیشن مقامی وقت کے مطابق باری باری کھلنا شروع ہو رہے ہیں۔ کمیلا ہیرس اور ٹرمپ نے ڈکس ول نوچ کی چھوٹی نیو ہیمپشائر کمیونٹی میں تین تین ووٹوں کے ساتھ مقابلہ کیا، جس نے دہائیوں پرانی روایت میں آدھی رات کے ای ٹی کے بعد اپنا پول کھولا اور بند کیا۔
ہیرس پینسلوینیا مین اور ٹرمپ مشی گن میں آخری زور لگا چکے
امیدواروں نے کل رات میدان جنگ والی ریاستوں میں اپنی آخری مہم کی تقریبات کا انعقاد کیا۔ ہیریس نے پنسلوانیا میں اپنی 107 روزہ مہم کا اختتام کیا، جب کہ ٹرمپ نے مشی گن میں آخری خطاب کیا - جہاں انہوں نے اپنی تین صدارتی مہمیں ختم کیں۔
November 11, 2024
7 Nov, 2024
7 Nov, 2024
7 Nov, 2024
7 Nov, 2024
6 Nov, 2024
6 Nov, 2024
6 Nov, 2024
6 Nov, 2024
6 Nov, 2024
6 Nov, 2024
6 Nov, 2024
6 Nov, 2024
5 Nov, 2024
5 Nov, 2024
5 Nov, 2024
5 Nov, 2024
5 Nov, 2024
5 Nov, 2024
5 Nov, 2024