عامر رضاخان: مسئلہ یہ ہے کہ نشئی کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا ؟ کیا مجبوریاں ہیں کہ کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ نشئی پر ہاتھ نہیں ڈالتا کون روک رہا ہے ؟ کون سپورٹ کررہا ہے ؟ نشئی کی اصلاح کیسے ممکن ہے ؟ کون کون اپنا کردار ادا کرسکتا ہے ؟ کیا کسی نئی قانون سازی کی ضرورت ہے ؟ یہ ہیں وہ سب سوال جو مجھ جیسے بندہ ناچیز کے علاوہ آپ کے ذہن میں بھی جاگزیں ہوں گے خصوصاً جب آپ لاہور کی نہر پر سے گزرتے ہوں گے تو نشئیوں کے ڈیرے دیکھ کر آپ کا دل بھی خون کے آنسو روتا ہوگا کہ یہ کن کےجوان بچے اور بچیاں ہیں جو اس لعنت کا شکار ہیں انہیں نہ دن کی فکر ہے نا رات کی پروا ہ۔میں تو یہ بھی سوچتا ہوں کہ جب یہ پیدا ہوئے ہوں گے تو والدین نے کتنی خوشی منائی ہوگی کانوں میں اذانیں دی ہوں گی ،محلے میں اورعزیز و اقارب کو مٹھائیاں تقسیم کی ہوں گی لیکن پھر وہ کون ہے؟
جس نے انہیں گمراہی کے رستے پہ ڈال کر جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیل دیا ،یہ سب اب چلتی پھرتی لاشیں ہیں انگریزی فلم کے ذومبیز جیسی لاشیں کسی ڈریکولا کی لاشیں جو اپنی جہالت کو پھیلانے کے لیے کسی ابو جہل کے حکم کی تابع و غلام ہیں جو جس کو کاٹ لیں وہ بھی ان جیسا ہوجاتا ہے ،اس جہالت اور گمراہی کا زہر ہماری نوجوان نسل کی رگوں میں سرائیت کرایا جارہا ہے استاد اور معاون افراد بھی اس کام میں ملوث ہیں ،ہمارے تعلیمی ادارے بھی اگر اس سے محفوظ نہیں تو پھر کیا کہیں یہ سب ملک کے لیے ایک ایسا دکھتا ناسور بن گئے ہیں جس میں سےقوم کا خون رس رہا ہے اور ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے ۔
پولیس کے بڑے آفیسر ڈی آئی جی رینک میرے سامنے بیٹھے تھے ادھر اُدھر کی گفتگو کے بعد یہ سب سوال جو کئی دنوں سے میرے سینے میں پک رہے تھے اچانک عود آئے تو میں نے ان سوالات کے جوابات اُن ڈی آئی جی صاحب (نام نہیں بتاوں گا ) سے پوچھ لیے ، پولیس افسر تھے ٹریننگ بھی ہوگی لیکن پھر بھی اُن کے دانتوں تلے پسینہ آتا محسوس ہوا اُنہوں نے لاکھ چاہا کہ میں اس موضوع پر کوئی بات نہ کروں لیکن میر اندر کا انسان اور پھر اُس انسان کے اندر دھڑکتا دل کہہ رہا تھا "مسٹر غیر جانبدار" یہ پولیس والا تمہارے ہر سوال کا جواب جانتا ہے لیکن ڈرتا ہے ، کچھ دیر میں جب میرا اصرار بڑھا تو وہ یوں گویا ہوئے " نشئی کو پکڑنا مشکل ہی نہیں نا ملکن ہے " اور اس کی بڑی بنیادی وجہ ہمارا معاشرتی ڈھانچہ ہے غربت افلاس معاشرتی ناہمواری ، سیاسی حالات ، ماں باپ کا بے وجہ کا لاڈ ، موبائل ، ٹی وی ڈرامے ، احساس محرومی ، بیروزگاری اور ذمہ داریوں سے پہلو تہی جیسے کام نوجوانوں کو نشے اس نشے میں مبتلا کر رہے ہیں امیر گھرانوں کے بچے بچیاں بھی اسی قسم کے عدم تحفظ اور والدین کی عدم توجیہی کے باعث ، وقتی عشق کے بخار اور ذیادہ دولت کے خمار میں اس جانب چلے جاتے ہیں جہاں صرف اندھیروں کا راج ہے ۔
کچھ دیر خاموشی رہی جس کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوئے کہ ہم ، ہماری حکومتیں ، ادارے اور عوام سب اس سے تنگ ضرور ہیں بہت نعرے اور دعوے لگائے بھی جاتے ہیں،کیے بھی جاتے ہیں لیکن عملاً کچھ نہیں کیا جاتا ،جناب غیر جانبدار صاحب یہ وہ معاملہ تھا کہ جس میں ہمیں جانبدار ہونا تھا اپنی نسلوں کے لیے آنے والے مستقبل کے لیے اور سب سے بڑھ کر ملک کے لیے لیکن ہم نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی،نہر کنارے جو نشئیوں کے ڈیرے ہیں وہ نہیں ہونے چاہیے تھے لیکن یہ ڈیرے صرف نہر پر ہی تو نہیں ہیں لاہور کی تمام گرین بیلٹس ،گندے نالے ،گٹر پائپ لائنز میں یہ دنیا و مافیا سے آزاد ہوکر نشہ کرتے نظر آتے ہیں اور یہ نشہ انہیں باآسانی مل بھی جاتا ہے، تعلیمی اداروں کے افراد بھی اس مکروہ کاروبار میں ملوث ہیں ہم نے کتنی سرکاری علاج گاہیں بنوائیں ہیں کہ ان کو پکڑا جاسکے اور ان کا علاج کرایا جاسکے ،معاشرتی ناہمواری کو ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں ؟،ہم جب بھی ان کو گرفتار کرتے ہیں تو یہ خود کو زخمی کرتے ہیں یا نشے کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں پولیس والے انہیں حوالات تک لاسکتے ہیں نشہ فراہم نہیں کرسکتے ڈرگ پیڈلر حرام کمائی سے اتنے طاقتور ہوگئے ہیں کہ اُن کا پیسہ ہر جگہ سے اپنے ایجنٹوں اور گاہکوں کو نکال لے جاتا ہے ۔
نشے سے انکار اور زندگی سے پیار درست سلوگن ہے مگر کیسے ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا حکومت ہر بیماری کے لیے ہسپتال اور کلینک بنواتی ہے نشئیوں کے لیے کوئی ہسپتال اور کلینک کیوں نہیں بنوایا جاتا ؟تمہارے سوال تفصیل طلب ہیں لیکن تم نے غلط دروازہ کھٹکھٹایا ہے، اسمبلیوں میں قانون سازی ہونی چاہیے، تمام عدالتوں سے نشہ فروخت کرنے والوں کو سزائیں ہونی چاہیے نشہ کے خلاف قومی مہم شروع کی جانی چاہیے تمام اداروں کے لوگوں سے قرآن پر حلف لینے چاہیے کہ وہ اس لعنت کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے، ماں باپ بچوں کی بہتر نگہداشت کا اہتمام کریں اور درسگاہوں میں موجود انتظامی عہدیدار اپنے دفتروں میں نہ بیٹھیں ارگرد نظر رکھیں، دس سال کے لیے نشہ مخالف پالیسی بنائی جائے۔ ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں نشہ بیچنے والوں کو اور استعمال کرنے والوں کا عبرت ناک انجام دکھایا جائے تعلیمی نصاب میں مضامین شامل کیے جائیں تو کچھ بہتری کی گنجائش ہے لیکن اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر آج آپ کل کوئی اور یہی سوال لیے کسی اور شخص سے جواب تلاش کر رہا ہوگا ۔