سٹی 42:ہمارے معاشرے کی عورتیں امریکا اور مرد پاکستان۔مرد جتنا مرضی کما لائے۔بیوی کہتی ہے”ڈو مور“ ۔مرد اس ڈو مور کے چکر میں ہر غیرقانونی کام کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے،حلال کمائی کو حرام کرتا ہے،بیوی کے نخرے اٹھانے کیلئے کرپشن کرتا ہے،دل رکھنے کیلئے جھوٹ بولتا ہے،اس ”ڈو مور “کے چکر میں کچھ تو اپنی جانیں تک گنوا دیتے ہیں۔مرد ہارٹ اٹیک سے کیوں مرتے ہیں؟کوئی عورت کیوں اس بیماری سے نہیں مرتی ؟اس کے پیچھے بھی بڑا ہاتھ ایک عورت کا ہی ہے۔
ہمارے معاشرے میں کئی مرد موجود ہیں جو اپنی بیویوں کے ستائے ہوئے ہیں۔ جو روز زخم کھاتے ہیں اور اپنا درد بھی کسی سے شیئر نہیں کرسکتے۔ کچھ الفاظ اور لہجے ایسے ہوتے ہیں کہ سینہ چیر دیتے ہیں۔ تیر اور تلوار کے زخم تو وقت کے ساتھ مندمل جاتے ہیں، لیکن زبان کے لگے زخم اپنا درد جتاتے رہتے ہیں۔ ایک ٹی وی شو سے شروع ہونے والا ہنگامہ پاکستانیوں کےلیے زندگی و موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ چوک چوراہوں سے لے کر ایوانوں تک دو شخص ہی زیر بحث ہیں۔ ایک ڈرامہ نگار تو دوسری سماجی کارکن۔ ایک خلیل الرحمان قمر تو دوسری ماروی سرمد۔ ایک نے نعرہ بلند کیا ’میرا جسم میری مرضی‘ تو دوسرے نے جواب دیا ’تیرے جسم میں ہے کیا؟ کوئی تھوکے بھی نا‘۔ ایک نے کہا ’شٹ اپ‘ تو دوسرے نے جواب دیا ’بے حیا عورت، الو کی پٹھی‘ وغیرہ۔
کل تک جو کسی عورت مارچ کو جانتے تک نہیں تھے، آج بچے بچے کی زبان پر اس کا تذکرہ ہے۔ لبرل خواتین 8 مارچ کو اپنے ایجنڈے اور نعروں کے ساتھ سڑکوں پر آرہی ہیں تو جماعت اسلامی کی نقاب پوش خواتین ان کے مقابلے میں حقوق نسواں مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کون صحیح ہے اور کون غلط؟ یہ بحث لاحاصل ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں مظلوم ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ مرد روتا نہیں، عورت کو رونے کے سوا کچھ آتا نہیں۔
عورت اتنی مظلوم ہے کہ مان جائے تو دیوی نہ مانے تو چھنال۔ سارا سماج بچپن سے بڑھاپے تک اسی گھٹی پر پلتا ہے۔ اور پھر یہی سماج ریاست، پنچایت، پولیس، کچہری میں بدل جاتا ہے۔ کہیں ’’کالی‘‘ قرار دے کر عورت قتل ہورہی ہے تو کہیں ’’ونی‘‘ کے نام پر رسوا ہورہی ہے۔ بھرے جرگے میں عورت کی زندگی و موت، غلامی و آزادی کا فیصلہ کرنے والے کسی کھوسے، لغاری، مزاری، بلوچ، پٹھان، سردار، مہر کو سزا نہیں ہوئی۔ جن کو قانون نے گرفت میں لیا بھی تو ’’چمک‘‘ کے کمال سے چھوٹ گیا۔ ہر سال شہری حقوق کی زنانہ و مردانہ تنظیمیں جانے کیوں اعداد و شمار جمع کرتی رہتی ہیں کہ اس سال ڈیڑھ ہزار عورتیں غیرت کے نام پر قتل ہوگئیں۔ پچھلے سال ایک ہزار ہوگئی تھیں۔ اور اس سے پچھلے سال۔ کیا ان تنظیموں کو اس کے سوا کوئی کام نہیں۔ کسی کی بہن، بیٹی کے احساس کےلیے نہیں، یہ سب پیسے کا چکر اور کھیل ہے۔ ہمدرد ہوتیں تو صرف سیمینارز تک محدود نہ رہتیں۔ خواتین، معاشرے کے ہر فرد کو تعلیم دیتیں۔ سیمینارز میں کیا ہوتا ہے؟ انہی وڈیروں کو مہمان بنایا جاتا ہے جو معصوموں کے گلے گھونٹنے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ انہی تقریبات، سیمینارز میں ماروی سرمد جیسی سماجی رہنما میزبان ہوتی ہیں، خلیل الرحمان قمر جیسے میزبان۔
اب یہ نیا ڈرامہ، نیا ایجنڈا۔ ’میرا جسم میری مرضی‘، ’میں بدچلن آوارہ‘، ’اپنی روٹی خود پکاؤ‘ ایسے نعرے اصل مقصد کو فوت کررہے ہیں۔ تم نعرہ لگاتی ہو ’میرا جسم، میری مرضی‘۔ مرد کہتے ہیں ’تم فاحشہ نہیں‘۔ تم نعرہ لگاتی ہو ’میں بدچلن آوارہ‘۔ مذہب کہتا ہے ’مرد تمھارا محافظ ہے، تم اپنے شوہر کی کھیتی ہو‘۔ تم کہتی ہو ’کھانا خود گرم کرلو‘۔ مرد کہتے ہیں ’ساتھ ساتھ چلیں تو اچھا ہے‘۔ تم کہتی ہو ’طلاق میں خوش ہوں‘۔ مذہب کہتا ہے ’تم شوہر کی ذمے داری ہو‘۔ یہ کیسی آزادی ہے؟
تحقیر کرو تم عورت کی، پھر ناچ کے بولو آزادی
چادر کو تم پامال کرو، دیوار پہ لکھو آزادی
تم عزت، عصمت، غیرت کا، مفہوم بدل دو شہرت سے
سڑکوں پر جاکر راج کرو، اور زور سے چیخو آزادی
کوئی پاکستانی کہے کہ میری آزادی، میری مرضی، اور واہگہ بارڈر کراس کرجائے تو کیا ہوگا؟ بھارتی فوجی گولی مار دیں گے۔ یا پھر مرد کہے کہ میں بچے کو جنم دوں گا۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ ایسی ہی کچھ حدود و قیود ہیں، ضوابط ہیں، جن پر معاشرہ قائم ہے۔ معاشرے امن سے بنتے ہیں، فساد سے نہیں۔ اگر ہر ایک بے لگام ہوجائے تو معاشرے میں فساد پھیل جائے گا۔ جو اپنے جسم اور اپنی مرضی پر اتراتے پھر تے ہیں، ان کا جسم ہے کیا؟ مٹی کا پتلا۔ جو خاک ہے اور خاک ہوجائے گا۔
نوٹ:رائٹر کی یہ اپنی رائے ہوسکتی ہے،ادارے کا اس سےمتفق ہونا ضروری نہیں۔