میر کیا سادہ ہیں

تحریر:نوید چودھری

6 Jun, 2024 | 10:06 PM

  اسٹیبلشمنٹ کچھ بڑا کرنے والی ہے

 پی ٹی آئی نے فوج پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے شیخ مجیب الرحمن اور جنرل یحییٰ خان کا قصہ چھیڑاتو حکومت ایک بار پھر ’’جاگ‘‘ اٹھی ،وزرا نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کا مقصد پاک فوج کے اندر بغاوت کرانا ہے، یادر ہے کہ 9مئی کے واقعات کا ہدف بھی یہی تھا۔ اب آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا موازنہ جنرل یحییٰ خان کے ساتھ کرکے یہ پیغام دیا جارہا ہے، حروف کہ مسئلہ ادارے سے نہیں فرد واحد سے ہے۔

 2022 میں تحریک عدم اعتماد سے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو میر جعفر، میر صادق قرار دیا تھا، ٹارگٹ اس وقت بھی یہی تھا کہ آرمی اپنے چیف سے پیچھا چھڑا لے، ایک ٹی وی چینل کے ساتھ مل کر پوری پلاننگ سے وار بھی کیا گیا، شہباز گل نے بنی گالہ میں بیٹھ کر سکرپٹ پڑھا جس میں کہا گیا تھا کہ فوجی افسر حکام بالا کے احکامات ماننے سے انکار کردیں،فوج نے فوری نوٹس لیا اورشہباز گل کو پکڑ کر رگڑا لگایا گیا لیکن بعد میں عدلیہ کی سہولت کاری کے ذریعے امریکہ بھجوا دیا گیا، دوران تحقیقات شہباز گل سے ایک سیٹلائیٹ فون برآمد ہوا، جس سے پتہ چلا کہ وہ اہم ترین اداروں میں موجود لگ بھگ ساڑھے تین سو عہدیداروں سے رابطے میں تھا، اس سنسنی خیز انکشاف کے بعد ٹھوس کارروائی نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں رہا تھا لیکن ’’تحمل‘‘ کا مظاہرہ کیا گیا، تاثر یہی ملا کہ جنرل باجوہ کی کمان کمزور پڑ چکی ہے لیکن یہ فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جنرل باجوہ مزید توسیع لینے کے لیے سب کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہے تھے۔

 اسی چینل نے عمران حکومت کے خاتمے کے فوری بعد اس طرح کے تجزئیے پیش کیے جن میں آرمی چیف باجوہ کو امریکی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا، فیض حمید کور کمانڈر پشاور بن کر آئی ایس آئی کی سربراہی چھوڑ چکے تھے لیکن یوں لگا کہ اس وقت بھی سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے اور انہوں نے آرمی چیف بننے کے لیے جو بساط بچھا رکھی اسے لپیٹنا مشکل ہورہا ہے، اب باجوہ رہے نہ فیض حمید، عمران خان جیل میں ہیں، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو توسیع کی ضرورت ہے نہ ہی بظاہر ادارے کے اندر سے کسی نے ان کے خلاف کوئی جال بچھا رکھا ہے لیکن وہ چینل آج بھی اکثر سرکاری اور عسکری دفاتر اور ان سے منسلک دیگر عمارتوں میں چل رہا ہوتا ہے، کئی دوسرے بالخصوص نئے چینلوں نے بھی وہی لائن پکڑ لی ہے، اس تمام تماشے میں سب سے زیادہ بدنامی مسلح افواج کی ہورہی ہے۔

 پی ٹی آئی اور اس کے ہینڈلر پوری مہارت اور دیدہ دلیری سے اداروں کے اندر لڑائی کرانے کے منصوبے پر عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، اعلیٰ عدلیہ میں موجود پی ٹی آئی کے طرف دار ججوں کی پھرتیوں نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں، پرانی اسٹیبلشمنٹ کے براہ راست متاثرین اور اسکی پالیسیوں کو نا پسند کرنے والوں کی یہ توقع پوری نہ ہوسکی کہ اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت ڈیمیج کنٹرول کے لیے عملی اقدامات کریگی،خدا جانے ان کے مشیر کون ہیں ؟ کچھ ماہ قبل ایک مشہور اور طاقتور افسر نے میڈیا کے بڑوں کومدعو کرکے کہا کہ آئندہ کسی نے عمران خان کا نام نہیں چلانا ، یقیناً مقصد یہی تھا کہ اس حوالے سے میڈیا پر غیر ضروری شور کو کم کیا جائے لیکن ہوا کیا ؟نام لیے بغیر بھی دن رات ان کو ہی زیر بحث لایا جاتا رہا جنہیں نظر انداز کرنا مقصود تھا، بات مانی نہیں گئی یا درست طور پر سمجھائی نہیں جاسکی یہ تو مقتدر حلقے خود ہی بتا سکتے ہیں۔

 حالات بگڑ کر اس سطح پر آگئے ہیں کہ رؤف حسن پریس کانفرنس کرکے ملک توڑنے کی بات کریں اور ممکنہ جغرافیہ بھی بتائیں تو وہ چینلوں پر براہ راست نشر ہورہا ہوتا ہے، سسٹم پر ضرب لگانے والے کرداروں کا جائزہ لیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے 99 فیصد وہی ہیں جو پرانی اسٹیبلشمنٹ نے ہائبرڈ رجیم لانے کے لیے خود ایجاد کیے ہیں، ٹھوس شواہد ہیں کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے آج بھی انہی کرداروں کو کہا جارہا ہے اب اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت کے لیے کام کریں، نجانے کیا سوچ کر ایسا کیا جارہا ہے کیونکہ ماضی میں جن کو مفادات، بڑے عہدے اور پرکشش نوکریاں دے کر استعمال کیا جارہا تھا وہ پیسے بنانے اور مقبولیت کے حوالے سے اپنے خالقوں کے محتاج نہیں رہے، صیہونی لابی اور بااثر امریکی ارکان کانگرس مسلسل دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

 بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے برطانیہ کی دلچسپی اتنی زیادہ ہے کہ ان کی خاتون سفیر پہلے سیاستدانوں سمیت مختلف عہدیداروں سے مل کر عمران خان کی حمایت کرنے کا کہتی رہیں پھر عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کے متعلق عدالتی فیصلے پر اپنا غصہ تقریب میں بیان کردیا ،حکومت نے پہلے تو چپ سادھے رکھی جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو رجسٹرار کے ذریعے جواب دینا پڑا، اس کے بعد دفتر خارجہ مجبور ہوکر بولا کہ برطانوی سفیر ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں، جہاں تک ججوں کا معاملہ ہے تو سائفر کیس کے فیصلے کے بعد ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ ملک بھر کی اعلیٰ عدالتوں کا بڑا حصہ پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہے۔ ریاست عدلیہ کے حوالے سے واضح لائحہ عمل تیار نہیں کرسکی چنانچہ سنگین سے سنگین تر کیس بھی مذاق بنا کراڑائے جارہے ہیں۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ پراجیکٹ عمران کے تحت عدلیہ میں کی جانے والی بھرتی کا جائزہ لیا جاسکا اور نہ ہی پچھلی اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ کو خاطر خواہ کم کیا جاسکا ، کئی جج آئین اور قانون سے باہر جاکر فیصلے دے رہے ہیں، خفیہ ایجنسیوں کو بھی للکارا جارہا ہے، کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ملک جیسے ہی معاشی استحکام کی جانب بڑھنے لگتا ہے، عدالتیں کوئی نا کوئی فیصلہ سنا کر پھر سے سیاسی اضطراب اور غیر یقینی پیدا کردیتی ہیں، بزنس کارٹلز کی سرگرمیاں بھی مشکوک ہو چکیں، ایک رائے یہ ہے کہ جج بھی ریاستی امور اور اختیارات میں جرنیلوں کی طرح حصہ چاہتے ہیں، زمینی حقیقت یہ ہے کہ ایسے جج اس وقت تک ہی ’’چودھری‘‘ رہ سکتے ہیں جب تک لکڑی کے ہتھوڑے کو سہارا دینے کے لیے اصلی بندوق ساتھ ہو۔

 بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنے نرم مزاج اور کمزور ہونے کا تاثر ختم کرنے کیلئے کچھ بڑا کرنے والی ہے ، امید کی جانی چاہیے کہ سب کچھ آئینی نظام کے اندر رہ کر ہی کرلیا جائے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ جب بندوبست کرنا لازم ہو جائے تو پھر آئینی قانونی موشگافیوں کی پروا نہیں کی جاتی، بہتر حل تو یہی ہے کہ عدلیہ اور میڈیا میں پراجیکٹ عمران کی باقیات کو اسٹیبلشمنٹ خود ہینڈل کرے، یہ دونوں ادارے کیسے چلانے ہیں اس کی ذمہ داری کلی طور پر آزاد ججوں اور غیر جانبدار پرفیشنل صحافیوں پر چھوڑ دی جائے، عدلیہ اور میڈیا کو نئے یا پرانے ٹائوٹوں کے ذریعے چلانے کی کوشش مزید گڑ بڑ کا موجب بنے گی،
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔

مزیدخبریں