ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سنی لیون کی جسم ،منیشا کی ہیرا منڈی 

سنی لیون کی جسم ،منیشا کی ہیرا منڈی 
کیپشن: File photo
سورس: google
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 تحریر:عامر رضا خان || گزشتہ سے پیوستہ ،گزشتہ بلاگ میں، میں نے دس فلموں کا ذکر شروع کیا تو بات طوالت اختیار کر گئی جسے میں نے آج تک کے لیے موقوف کیا تھا تو جناب اس سلسلے کی چوتھی فلم ہے " آئی ایم کلام " یہ ایک ایسے غریب بچے کی کہانی ہے جو پڑھنا چاہتا ہے لیکن غربت اسے ڈاھبے پر لے آتی ہے اُس کا آئیڈیل صدر ہندوستان اور سپیس سائنسدان ابوبکر زین العابدین عبدالکلام ہوتا ہے غریب مسلم گھرانے تامل ناڈو میں پیدا ہوکر کرسی صدارت تک پہنچنے کی داستان اس فلم کے راجھستانی بچے کو بھاتی ہے تو وہ علم کی کھوج میں لگ جاتا ہے ، فلم کا شروع ہی عبدالکلام کے اس قول سے ہوتا ہے "
 Great dreams of great dreamers are always transcended "کیا خوبصورت کہانی اور فلمائزیشن ہے ، اسی سلسے کی پانچویں  فلم ہے " سوادیس" شاہ رخ خان نے اس میں ناسا کے ایک سائنسدان کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے وطن واپس آتا ہے تو لاکھوں ڈالرز کی نوکری چھوڑ اپنے گاؤں میں علم کی شمع جلاتا ہے، ظاہر ہے اس انجینئر کو سی ایس پی  دولے شاہ کے چوہے جاہل اور پاگل ہی کہیں گے ۔ اس کے بعد جو فلم آپ کو پاگل بنادے گی، وہ ہے ہالی ووڈ کی فلم  " آ بیوٹی فُل مائنڈ " اس فلم کی کہانی ایک حقیقی شخص کی زندگی پر مبنی ہے۔ جان ناش ایک ذہین طالب علم تھے، ریاضی اور معاشیات کے ماہر۔ امریکا کی اعلیٰ درسگاہوں میں پڑھے اور پڑھایا بھی۔ پی ایچ ڈی کی، کئی معاشی نظریات پیش کیے اور کئی اعزازات حاصل کیے لیکن وہ ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے جس میں کچھ خواب اسے حقیقت معلوم ہوتے ہیں یہ بھی تعلیم کے موضوع پر فلم ہے ۔ اس کے بعد اگلی فلم ہے فلم "دی تھیوری آف ایوری تھنگ" دنیا کے عظیم ترین زندہ دماغوں میں سے معروف آسٹروفزسٹ'سٹیفن ہاکنگ 'کی غیر معمولی کہانی ہے،سٹیفن ہاکنگ کیمبرج میں اپنی تعلیم کے دوران ایک آرٹس کی طالبہ جین وائلڈ کے ساتھ شدید محبت کا شکار ہو جاتا ہےسٹیفن جو کبھی ایک صحت مند، چست اور نوجوان آدمی تھا 21 سال کی عمر میں ایک ایسی بیماری کا شکار ہوجاتا ہے جو اس کے جسم کے زیادہ تر حصے کو مفلوج بنا دیتی ہے بیماری کے دوران اس کی محبوبہ اسے ترک کرنے کی بجائے اس کا ساتھ دیتی ہے اور وہ دونوں مل کر میڈیسن اور سائنس کی دنیا میں اپنے تصور سے کہیں زیادہ کامیابیاں حاصل کرتے ہیں ۔

یہ فلم جین ہاکنگ کی یاداشتوں "ٹریولنگ ٹو انفنٹی : مائی لائف وِد سٹیفن" نامی تصنیف پر ماخوذ ہے ۔ اس کے بعد  فلم ہے " پرسیوٹ آف ہیپی نیس " ول سمتھ اور اس کے بیٹے کی یادگار فلم ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جو مشکل حالات میں بھی ہمت نہیں ہارتا اور اس کی لگن اسے کامیاب بناتی ہے  ، اس کے بعد نمبر ہے فلم " گڈ ول ہنٹنگ " کہانی بوسٹن میں رہنے والے ایک 20 سالہ لڑکے ول ہنٹنگ (میٹ ڈیمن) کی ہے۔ جو ایک لاابالی مگر جینئس ہے، وہ نہایت معمولی کام کرتا ہے اور اپنا زیادہ وقت اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ گزارتا ہے۔وہ کون ہے اکیلا کیوں ہے؟ کوئی نہیں جانتا۔ ول ہنٹنگ ایسا لڑکا ہے جسے دنیا کی کوئی چیز یا علم متاثر نہیں کرپاتا۔ اس کا ماننا ہے کہ علم کالج یونیورسٹیوں سے نہیں ملتا،اس کے لئے تو آپ بس لائبریرز میں موجود اچھی کتابیں بھی پڑھ لیں تو کافی ہے۔ اس کا مظاہرہ ایک "بار” میں ہاروڈ کے گریجوایٹ برٹش سٹوڈنٹ کے ساتھ ایک چھوٹی سی بحث میں یوں کرتا ہے کہ وہ اس سے سوال پوچھتا ہے تو ول اسے اس کے نصاب میں موجود کتب کا حوالہ دے کر جواب دیتا ہے۔۔اور ساتھ میں بتاتا ہے کہ یہ جواب غلط ہے۔۔کیونکہ ایک اور پروفیسر نے اپنی کتاب میں اسے کچھ اور طرح لکھا ہےاور پھر بتاتا ہے کہ جب تم اگلی کلاس میں جاؤگے اور فلاں کتاب پڑھو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ دوسرا جواب بھی غلط ہے۔ اسی طرح زندگی میں ایک دن تمہیں یہ احساس ہوگا کہ تم نے لاکھوں ڈالر اڑائے اس رٹی رٹائی اور کتابوں سے نقل شدہ پڑھائی کے لئے جو تمہیں پبلک لائبریری سے بھی مل سکتی تھی لڑکا اسے کہتا ہے۔۔۔لیکن میرے پاس ڈگری ہوگی۔۔میں کسی ریستوران کا مالک ہوں گا جہاں تم ویٹر کی نوکری کروگے۔۔ ول یہ سن کر ہنس کر کہتا ہے ۔ہوسکتا ہے ایسا بھی لیکن۔۔کم سے کم میں "اوریجنل” تو رہوں گا، فلم ہمیں یہ بتاتی ہے کہ بہت سارا کتابی علم ہی زندگی کے لئے کافی نہیں بلکہ زندگی میں اس علم کوپرکھنا بھی ہوگااور بہت ساری ذہانت بے فائدہ ہے اگر اسے صحیح راستہ نہ ملے یا اسکے مقصد کا تعین نہ ہوسکے۔ 

اس کے علاوہ فلم "اپ" ، "وال ای" ، "فورسٹ گمپ" ، "سپرٹ " ، "گریٹ ڈیبیٹرز" ، " لاریکس" ، " گڈ ڈائنو سار" جیسی فلمیں شامل ہیں یہ ساری فلمیں آپ کو پاگل بنا سکتی ہیں یہ آپ کو ارد گرد ایسی دیوار کو وضع کریں گی جو آپ کو تعلیم اور علم میں فرق بتائیں گی جو آپ کو جینے کا ہنر سکھائیں گی، اور آپ سوچنے لگیں گے بہتر معاشرے ، سماج ،ملک کا اور ان سی ایس پی دولے شاہ کے چوہوں کے نزدیک پاگل ہوجائیں گے ، آپ ان فلموں کے نزدیک ہرگز ناجائیے گا ، آپ نے فلم دیکھنی ہے تو  دیکھیں ، ہیرا منڈی ، جسم ، کھل نائیک ، دی لیجنڈ آف مولا جٹ ، چل میرے پُت وغیرہ وغیرہ تاکہ آپ کسی دولے شاہ کے چوہے کو للکار نا سکیں، ڈرتے رہیں، اس نظام سے اور اس نظام کے بنانے والوں سے ، ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے اُس نظام کو للکارا ہے جس میں کیبل ٹی وی کو تو بیڈ روم تک جانے کی اجازت ہے کتاب اور علم والی فلم کو نہیں ، جناب صاحب بہادر اسے (ایجو کیشن آفیسر ) کوسخت سزا دیں کہ یہ گستاخ ذہانت کو افضل اور رٹے بازی کو کمتر سمجھتا ہے بیوقوف کہیں کا ، پورے کپڑے پہنے اندھی ،بہری گونگی لڑکی کی کہانی سناتا ہے سنی لیون کا دیدار نہیں کراتا ، ڈی سی صاحب بہادر اس ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرعبدالکریم کو علم پھیلانے اور جہالت مٹانے کی ایسی سخت سزا دیں کہ اس کی آنے والی نسلیں بھی آپ صاحب بہادر کے سامنے سر نا اٹھا سکیں ۔*

 ضروری نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر