(امانت گشکوری)صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے،بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا؟چیف جسٹس نے نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران سوالات اٹھادئیے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ باہر جاکر بڑے شیر بنتے ہیں سامنے آکر کوئی بات نہیں کرتا۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کا فیصلہ واپس نہ ہوا تو بانی پی ٹی آئی خود متاثر ہوں گے ۔جسٹس مندوخیل نے کہا کیا رسید مانگنا کسی کو بلیک میل کرنے کے مترادف نہیں۔ سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کیخلاف کیس کی سماعت جاری، خواجہ حارث کوآج ہی دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کو کالعدم قرار دینے کیخلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک عدالت میں پیش کیا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دریافت کیا کہ کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کررہا ہے، جسٹس امین الدین،جسٹس جمال مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میں نے اپنی تحریری معروضات تیار کر لی ہیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنی معروضات عدالت میں جمع کروا دیں، کیا آپ فیصلے کو سپورٹ کر رہے ہیں ؟ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میں جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ کو سپورٹ کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ مخدوم علی خان کے دلائل کو اپنا رہے ہیں؟ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ میرا مؤقف وہی ہے لیکن دلائل اپنے ہیں، میں نے تحریری معروضات میں عدالتی فیصلے کے مختلف نکات کی نشاندہی کی ہے، میں نے سپریم کورٹ فیصلے پر اپنے دلائل تحریر کئے ہیں۔
فاروق ایچ نائیک کے بعد عدالتی معاون وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے، خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کردیا، اس موقع پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ بتائیں کونسا بنیادی حق نیب ترامیم سے متاثر ہوا ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مرکزی کیس میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تفصیل سے بتا چکا ہوں، نیب ترامیم آرٹیکل 9،14 ،25 اور 24 کی خلاف ورزی ہیں۔
خیال رہے کہ 30 مئی کو سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ مجھے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے،اس پر گزشتہ سماعت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے تھے کہ اگر آرڈیننس لانے ہیں تو پھر پارلیمان کو بند کر دیں۔
سپریم کورٹ میں نیب ترمیم کیس کی سماعت کے آغاز پر سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیا گیا، عمران خان نے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی، وہ تقریباً ڈھائی گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت میں حاضر رہے،14 مئی کو سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم عمران خان کو بذریعہ وڈیولنک پیش ہونے کی اجازت دی تھی۔
چیف جسٹس پاکستان نےخواجہ حارث سے مکالمہ
چیف جسٹس پاکستان نےخواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا نیب قانون درست ہے،عدالتی معاون خواجہ حارث نے جواب دیا کہ کچھ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا،چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ نیب قانون کب وجود میں آیا کس کی حکومت تھی،وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پرویز مشرف کے دور میں 1999 میں نیب کا ادارہ قائم کیا گیا،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے کہ کیا کرپٹ سیاست دانوں کو باہر کرنے کیلئے نیب قانون بنایا گیا،نیب قانون میں ججز اور جرنیلوں سمیت کچھ لوگوں کو استثنی دیا گیا،کیا صرف سیاست دانوں کی کرپشن ختم کرنا تھی،جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی تو نیب قانون کو کیوں تبدیل نہیں کیا۔
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ مشرف سے پہلے بھی احتساب ایکٹ موجود تھا،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ صرف منتخب پبلک آفس ہولڈرز پر نائب کا اختیار کیوں رکھا گیا،غیر منتخب پبلک آفس ہولڈرز پر کیوں نیب کا اختیار نہیں رکھا گیا؟چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا آپ صرف سیاسی احتساب چاہتے ہیں؟وکیل خواجہ حارث بولے کہ ہم نے نیب آرڈیننس 1999 چیلنج نہیں کیا، ہم نے نیب ترامیم 2022 چیلنج کی تھیں، نیب ترامیم اس لیے کی گئیں کیونکہ مخصوص سیاسی رہنما اس وقت سلاخوں کے پیچھے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ صرف سیاست دانوں کو نیب کے دائرہ اختیار میں کیوں رکھا گیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے،خواجہ حارث نے جواب دیا کہ انٹرا کورٹ اپیلوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا،سپریم کورٹ میں مرکزی درخواست قابل سماعت تھی ، جسٹس اطہر من اللہ کا خواجہ حارث سے استفسار میں کہنا تھا کہ کیا آپ کو نیب پر مکمل اعتماد ہے،وکیل خواجہ حارث بولے کہ میں دلائل دوں گا کہ مرکزی کیس میں اقلیتی رائے درست نہیں تھی،جسٹس اطہر من اللہ نے پھر استفسار کیا کہ کیا آپ 90 دنوں کے نیب ریمانڈ سے مطمئن ہیں،کیا آپ 500 ملین سے کم کرپشن پر بھی نیب کاروائی کے حامی ہیں۔
منتخب نمائندے کے پاس پبلک فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار کہاں ہوتا ہے کوئی ایک مثال بتائیں،جسٹس اطہرمن اللہ
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ عوامی نمائندوں کے احتساب سے مراد صرف منتخب نمائندوں کا احتساب نہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ اگر کسی محکمے میں کرپشن ہوتی ہے تو ذمہ دار پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوتا ہے، منتخب نمائندے کے پاس پبلک فنڈز تقسیم کرنے کا اختیار کہاں ہوتا ہے کوئی ایک مثال بتائیں، جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ کوئی منتخب نمائندہ یا وزیر متعلقہ سیکرٹری کی سمری کے بغیر کوئی منظوری نہیں دیتا۔
وکیل خواجہ حارث میں کوئی ایسا بیان تو نہیں دینا چاہتا کہ سیاستدان کرپٹ ہوتا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کیا کوئی سیکرٹری سمری میں لکھ دے کے یہ چیز رولز کے خلاف ہے تو وزیر منظوری دے سکتا ہے؟وکیل خواجہ حارث نے کہا ہے کہ نہیں مگر اس کے باوجود کرپشن ہوتی ہے،دبئی لیکس اور جعلی اکاؤنٹس ہمارے سامنے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ کیا ہم زخم ٹھیک کریں مگر وجہ نہ دیکھیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آپ جو دلائل دینا چاہتے ہیں وہ دیں باقی نوٹ کروا دیں ہم پڑھ لیں گے،آپ بتائیں آپ کو کتنا وقت درکار ہوگا؟
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں دلائل میں تین گھنٹے سے زیادہ وقت لوں گا،میں بتاؤں گا نیب ترامیم کا معاملہ بنیادی حقوق سے کیسے جڑا ہے،بینظیر کیس میں طے ہوا تھا درخواستگزار کی مرضی ہے وہ مفاد عامہ پر ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ سے رجوع کرے،دونوں فورمز پر ایک ساتھ درخواست دائر کرنے پر پابندی ہے،بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر ہائیکورٹ کے بجائے سپریم کورٹ آنے پر اعتراض نہیں بنتا تھا،جیف جسٹس پاکستان بولے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست پھر کس نے دائر کی تھی۔
وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست ہائیکورٹ بار نے دائر کی تھی،چیف جسٹس پاکستان نے پھر پوچھا کہ ہمارے پاس ہائیکورٹ کا ریکارڈ آگیا ہے درخواست گزار پی ٹی آئی کے لوگ تھے،شعیب شاہین صاحب نے حامد خان کے ذریعے درخواست دائر کر رکھی ہے،وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ حامد خان کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں تھا،چیف جسٹس نے پھر پوچھا کہ شعیب شاہین صاحب نے ہائیکورٹ سے یہ کہہ کر التوا لیا تھا کہ ہمارا کیس اب سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ میں ہم درخواست جون 2022 میں دائر کر چکے تھے ہائیکورٹ میں درخواست جولائی میں دائر ہوئی،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ میں کیس لگنے سے پہلے ہائیکورٹ معاملہ پر اٹارنی جنرل کو نوٹس کر چکی تھی،آپ سپریم کورٹ میں پہلی سماعت پر کہہ سکتے تھے کہ اب ہائیکورٹ میں کیس شروع ہو چکا ہے،ہائیکورٹ بار کے صدر سپریم کورٹ کو آکر کہہ سکتے تھے کیس ہائیکورٹ میں چلنے دیں یا درخواست بھی یہاں منگوا لیں،شعیب شاہین اور بانی پی ٹی آئی کا آپس میں تعلق نہ ہو تو ہم کہتے چلو دونوں کو ایک دوسرے کی درخواست کا علم نہیں تھا،ٹی وی پر ججز کیخلاف بہت باتیں کی جاتی ہیں،شعیب شاہین سپریم کورٹ ٹہلتے ہوئے کیوں نہیں آئے کہ ہائیکورٹ میں کیس زیر التوا ہے،ہم ججز ٹی وی پر تنقید کا جواب نہیں دے سکتے، شعیب شاہین صاحب ٹی وی پر تو بات کرتے ہیں یہاں آکر ہمیں بھی جواب دیں ناں،مرکزی کیس میں سپریم کورٹ نے 53 سماعتیں کیں مگر شعیب شاہین ایک دن نہیں آئے،ٹی وی کیمرہ یہاں لگا دیں تو لمبی لمبی تنقید کریں گے۔
’باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں‘
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ خواجہ صاحب چلیں آپ میرٹ پر دلائل دے دیں،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے بعد نیب ترامیم پر بنچ کیسے بنا وجہ بتائیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں یہ نقطہ طے ہو چکا اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا بنچ اس فیصلے کا حصہ بن چکا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کو کیوں نہیں چلایا گیا نیب ترامیم کیس چلتا رہا،ہائیکورٹ میں زیر التوا درخواست کو واپس لگانے کی کوشش کیوں نہیں ہوئی؟باہر کیمرے پر جا کر گالیاں دیں گے یہاں آکر ہمارے سامنے تنقید کریں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ ہائیکورٹ سے نوٹس اٹارنی جنرل کو بھی ہوا تھا اٹارنی جنرل نے کیوں وہاں کوشش نہیں کی کہ کیس دوبارہ لگے، اٹارنی جنرل بولے کہ اس وقت گرمی کی چھٹیاں شروع ہو چکی تھیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ خواجہ صاحب انصاف ہو تو ہوتا نظر بھی آنا چاہیے،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ معطل کرنے کے بعد اس ایکٹ کا کیس کیوں نہ سنا گیا؟ نیب ترامیم والا کیس چلانے میں ہی جلدی کیوں کی گئی؟ شاید انہی حربوں کی وجہ سے ہماری عدلیہ کی رینکنگ نیچے ہے؟پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو تو معطل کر دیا تھا میری رائے میں قانون معطل نہیں ہو سکتا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس میں وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دوبارہ دلائل کا آغاز کر دیا۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے دریافت کیا کہ خواجہ صاحب اور کتنا وقت چاہیے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ مجھے دو گھنٹے چاہیے۔
جسٹس جمال مندو خیل نے دریافت کیا کہ کیا ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا اختیار نہیں تھا؟ وکیل نے بتایا کہ اسفند یارولی کیس میں سپریم کورٹ نیب کی تمام شقوں کا جائزہ لے چکی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر پی سی او نہ ہوتا تو شاید تب پورا نیب قوانین اڑا دیا جاتا، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے ایک لسٹ جمع کرائی تھی، لسٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2019 میں اس وقت کی حکومت نے نیب ترامیم کی تھیں، مخدوم علی خان کے مطابق وہ ترمیم کریں تو غلط اگر پی ٹی آئی کرے تو ٹھیک۔
اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 2019 کی ترامیم پر بعد میں بات کروں گا، جسٹس جمال مندو خیل نے مزید دریافت کیا کہ جو مقدمات نیب سے نکلیں گے وہ کہاں جائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ نیب ہمیں ایک فہرست دے کہ کون سے مقدمات کس کس عدالت کو منتقل ہوں گے؟ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کون کون سے جرائم ہیں جن کو ترامیم میں ختم ہی کر دیا گیا ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایقا کہ ملک میں ایف بی آر پہلے ہی موجود ہے وہاں ایف بی آر کے معاملے پر آپ ایمنسٹی دے دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نے اثاثوں کے الگ گوشوارے بنا رکھے ہیں، انکم ٹیکس کی تفصیل کیوں نہیں مانگی جاتی اس طرف کیوں نہیں جاتے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کو آئین سے بتانا ہوگا ترامیم سے حقوق کیسے متاثر ہوئے؟ ترامیم سے تو نیب سے ڈریکونین اختیارات واپس لیے گئے۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آپ نے گولڈ رولیکس پہنی ہو تفیشی آپ سے پوچھے کہاں سے لی تو سارا بوجھ آپ پر آجائے گا، تفتیشی کا کام تو آسان ہو گیا، ایمنسٹی اسکیم دینا کیا نیب قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ آپ کیوں چاہتے ہیں کارروائی ہر معاملے پر نیب ہی کرے نیب پر اتنا اعتبار کیوں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ہمیں دکھانا ہوگا ترامیم میں غیر آیئنی کیا تھا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے رہمارکس دیے کہ پارلیمنٹ نے اثاثوں کے سیکشن کو صرف اسٹرکچر کیا، چاہتی تو اسے حذف بھی کر دیتی۔
پس منظر
واضح رہے کہ گزشتہ سال 15 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کئی شقیں کالعدم قرار دے دے دی تھیں،سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں عوامی عہدوں پر فائز شخصیات کے خلاف کرپشن کیسز بحال کردیے جب کہ نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم مالیت کے کرپشن کیسز کی تحقیقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔
فیصلے کے مطابق صرف کیسز نہیں، انکوائریز اور انویسٹی گیشنز بھی بحال کردی گئی تھیں، فیصلے میں نیب عدالتوں سے ترمیم کے بعد کالعدم قرار دیے گئے کیسز بھی بحال کردیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کرپشن کے ختم کیے گئے تمام مقدمات کو احتساب عدالتوں میں ایک ہفتے کے اندر دوبارہ لگایا جائے،فیصلے میں کہا گیا تھا کہ کالعدم قرار دی شقوں کے تحت نیب قانون کے تحت کارروائی کرے، آمدن سے زیادہ اثاثہ جات والی ترامیم سرکاری افسران کی حد تک برقرار رہیں گی، پلی بارگین کے حوالے سے کی گئی نیب ترمیم کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔
فیصلے میں احتساب عدالتوں کے نیب ترامیم کی روشنی میں دیے گئے احکامات کالعدم قرار دیے گئے تھے،بعد ازاں 17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) کو غیر قانونی قرار دینے والی نیب ترامیم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے 15 ستمبر کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔