فرخ احمد: سینئر صحافی اور معروف تجزیہ کار سلیم بخاری نے بھارت میں ہونیوالے عام انتخابات کے نتائج پر کہا ہے کہ حالیہ انتخابات میں مودی کی ہندوتوا کی پالیسی کی تو بینڈ بج گئی ہے۔کشمیر میں مودی کو اپنے کئے گئے ظلم کا بدلہ عوامی رد عمل کی صورت میں مل گیا اسی طرح ایودھیا میں بھی بی جے پی کا بوریا بستر گول ہو گیااس کا مطلب مودی کی انتہا پسندی اور اقلیتوں کے خلاف ظلم کی پالیسی بری طرح پٹ گئی۔
سلیم بخاری نے کہا، بی جے پی کا دعویٰ تھا کہ وہ چار سو سیٹیں آسانی سے لینے میں کامیاب ہو جائے گی جبکہ یہ دعویٰ صرف دعویٰ ہی رہ گیا اور او ر وہ صرف 293 سیٹیں بمشکل حاصل کر پائی ۔الیکشن نتائج نے مودی کے مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے۔ مودی کو حکومت سازی کیلئے اتحادی کی ضرورت ہے وہ اب تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اب حکومت کو آئین سازی کیلئے جتنی سیٹیں درکار تھیں وہ تو نہ مل سکیں ،اس لیے بی جے پی کاآئین میں ترمیم کا منصوبہ بھی خاک میں مل گیا۔ بی جے پی آئین میں جو خطرناک ترمیم کرنا چاہتی تھی وہ ہندوستان کو سیکولر سے ہندو ریاست بنانا چاہتی تھی۔اس ترمیم کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی کیوں کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ نہرو کی پالیسی ٹھیک نہیں تھی اور گاندھی کی "اہِنسا " کی پالیسی بھی پاگل پن تھی۔اس لیے بی جے پی کی پالیسی تھی اقلیتوں کو دبا کر رکھا جائے۔
سینئر صحافی سلیم بخاری کاکہناتھا کہ جہاں جہاں بی جے پی کی قیادت نے صرف نفرت کے بیج بوئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مودی کو بوچر آف گجرات کا نام دیا گیا۔ہندوستان کا پورا میڈیا مل کر بھی وہ چاند نہ چڑھا سکاجو کہ بی جے پی چاہتی تھی، کیونکہ وہ پہلے ہی نفرت کے بیج بو چکی ہےاور علیحدگی کی تحریکیں زور پکڑ چکی ہیں۔
کیا مودی تیسری بار وزیر اعظم بن پائیں گے؟ سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ بی جے پی صرف بائیس نشستوں سے آگے ہے۔ اتنی کمزور اور اتحادی حکومت سے کیا قانون سازی کر پائے گی، یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
توہین عدالت کیس
توہین عدالت کیس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے معروف تجزیہ کارکا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار ہے کہ چیف جسٹس نے توہین عدالت کا نوٹس لیا ہے،وہ اس لیےجاری کیا گیا ہےکیونکہ اس میں دو ججز کا حوالہ دیا گیا ہےاس کو نوٹس لینے کا مقصد اس کو ایشو کو نمایاں کرنا تھاتاکہ اس معاملے کو روکنا چاہیے ۔ اسی لیے فیصل واوڈا اور مصطفی کمال کو توہین عدالت کے نوٹس پر بلا لیا۔
جسٹس اطہر من اللہ کے اختلافی نوٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ میں جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹ سے اتفاق نہیں کرتا۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ منتخب نمائندوں کی تضحیک اور ہراساں کرنے کیلئے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کا گٹھ جوڑ رہا ہے جس سے میں بالکل بھی اتفاق نہیں کرتا۔
نیٹ میٹرنگ ختم اور سولر صارفین پر فکسڈ چارجز عائد کرنے کا فیصلہ
سلیم بخاری نے بتایا کہ حکومت نے سعودی عرب کے سرمایہ کاروں کے ساتھ 600 میگاواٹ کاسولرپاورپلانٹ لگانے کا فیصلہ کیا ہے جو سعودی عرب کی بغیر بڈنگ بین الحکومتی بنیادوں پر لگایا جائے گا۔وزیراعظم نے ان فیصلوں سے متعلق سمری ارسال کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ پر سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ جو حکومتیں کمزور ہوتی ہیں و ہ عوام کو ریلیف نہیں دے سکتیں۔وہ اس قسم کے شوشے چھوڑتی رہتی ہیں کہ ایسا ہو رہا ہے پھر خود ہی اس کی تردید کر دیتی ہیں۔یہ ان حکومتوں کی کمزوری کی نشانی ہوتی ہیں۔