ویب ڈیسک: مغربی ترکی میں واقع شہر پاموکالے کی خاص بات وہاں کے سفید پہاڑی سلسلے اور چٹانیں ہیں جو باقی میدانی علاقوں کو اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ زمین کا نہیں بلکہ کائنات میں کسی دوسرے سیارے کا حیرت انگیز منظر ہے، یہاں موجود چونے کی یہ چٹانیں گذشتہ چار لاکھ برسوں میں قدرتی چشموں کی مدد سے بنی ہیں۔یہ ترکی کے مقبول ترین سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے. یہ مقام اتنا دلکش ہے کہ یونیسکو کی جانب سے اسے ترک زبان میں ’کوٹن کاسل‘ یعنی ’کپاس کا قلعہ‘ خطاب دیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کورونا وبا سے قبل یہاں ہر سال 25 لاکھ افراد ازمیر یا استنبول سے آتے تھے، سیاحتی بسوں میں بھرے، یہ پورے منظر پر ایسے چھائے ہوتے تھے جیسے کیڑیاں چینی پر چھائی ہوتی ہیں۔
ہیراپولس کی رومی سلطنت میں ایک قدرے منفی وجہِ شہرت بھی تھی۔ اس مقام کو ’جہنم کے گیٹ‘ بھی سمجھا جاتا تھا۔ روایت کے مطابق یہاں سے ایک زیرِ زمین تین سروں والی بلا کے گھر کی جانب راستہ جاتا ہے جو مہمانوں کو اپنے مالک پلوٹو خدا کے کہنے پر کھا جاتی تھی۔ پلوٹو کی شان میں ایک مزار پلوٹونیئن اس مقام پر بنایا گیا تھا جہاں آ کر زائرین مذہبی علما کو پیسے دیتے تھے کہ وہ ان کے لیے پلوٹو کو قربانیاں پیش کریں۔اس دور ے مصنفین جن میں پلنی دی ایلڈر اور یونانی فلسفی سترابو شامل ہیں، ان قربانیوں کو ایک خوفناک منظر کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ایک مذہبی شخصیت کسی جانور جیسے کہ بھیڑ یا بھینس کو مزار کے اندر لے کر جاتا ہے اور پھر جیسے کسی خدائی عمل سے وہ جانور وہیں کھڑا کھڑا مر جاتا ہے اور انسان زندہ باہر آ جاتا ہے۔ سترابو لکھتے ہیں کہ ’میں نے اس میں 13 چڑیاں پھینکی اور وہ فوراً مر گئی۔‘ بعد میں اس معاملے کی تحقیق کی گئی اور دن کے مختلف اوقات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کی جانچ کی۔ دن کے وقت جب گرمی زیادہ ہوتی تھی تو کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہو جاتی تھی مگر رات کو ٹھنڈی ہو کر یہ زمین پر ایک تہہ بنا لیتی تھی ۔ جب جانور اندر جاتے تھے تو ان کے ناک زمین کی جانب ہوتے تھے جبکہ انسان جو ساتھ کھڑے ہوتے تھے وہ اونچی سطح پر سانس لے رہے ہوتے تھے۔ اسی لیے انسان زندہ واپس آجاتے تھے۔تو کیا یہ مذہبی علما کی پیسے بٹورنے کی سازش تھی یا وہ اصل میں یہ سمجھتے تھے کہ وہ خداؤں سے بات کر رہے ہیں؟