ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

  پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میں پہلے سے زیادہ الم ناک شکست

Pakistan VS south Africa, cape town tests math, CITY42
کیپشن: ریان ریکلٹن کو کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میچ کا پلئیر آف دی میچ ایوارڈ ملا ہے۔ پاکستان جکا کوئی بھی بیٹر اپنی دو اننگز کی بیٹنگ میں ریکلٹن کے برابر سکور نہیں کر پایاْ
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  پاکستان کے ہونہار چیمپئینز ٹرافی جیتنے کی مشق کرنے کے لئے ٹیسٹ میچ کو ون ڈے کرکٹ فارمیٹ میں کھیلتے رہے، ساؤتھ افریقہ نے گھر بلا کر وہ دھلائی کی کہ صاحب کو وائٹ واش ہی کر ڈالا۔ دوسرے ٹیسٹ میچ میں پاکستان اننگ کی شکست سے بچ گیا اور دس وکٹوں کی شکست سے دوچار ہو گیا۔ریان ریکلٹسن کو پلئیر آف دی میچ قرار دیا گیا۔  ریان ریکلٹسن نے  پہلی اننگ مین اوپننگ کی تھی اور 132 ویں اوور تک وکٹ پر رہ کر  343 گیندوں سے  259 رنز بنائے تھے۔

کیپ ٹاؤن کی بیٹنگ وکٹ پر پاکستان کے بیٹرز پہلی اننگ میں ون ڈے کرکٹ فارمیٹ کی مشق کرتے ہوئے 55 اوورز میں فارغ ہو گئے تھے۔ پروٹیز نے ہوم گراؤنڈ پر پہلے کھیلتے ہوئے 615نز بنائے تھے۔ پاکستان کی بیٹنگ لائن سر توڑ کوششوں کے باوجود ٹیسٹ میچ کو ٹیسٹ میچ کی طرح کھیلنے نہیں پائی، پہلی وکٹ  پہلے اوور میں گری اور 55 ویں اوور میں آئی سی سی کی رینکنگ میں بہت آگے دکھائی دینے والوں سمیت تمام بیٹر ایک ایک کر کے ڈھیر ہو چکے تھے اور 478 رنز بنا پائے تھے جو فالو آن سے بچنے کے لئے ناکافی تھے۔ 

دوسری اننگ میں پاکستانی بیٹرز نے اننگ کی شکست سے بچنے کے لئے کوشش کی لیکن ٹیسٹ میچ کی بنیادی مبادیات کو فراموش کئے رکھا اور میچ کو ڈرا کی جانب لے جانے پر فوکس ہی نہیں کر پائے۔ پہلی اننگ کی طرح دوسری اننگ میں  بھی شان مسعود کپتان اور بابر اعظم سابق کپتان نے اوپننگ کی، شان مسعود جو پہلی اننگ میں پہلے اوور مین ہی دو رنز کے ساتھ آؤٹ ہوئے تھے، اس اننگ میں سنبھل کر کھیلے اور  251 گیندوں سے  145 رنز تو بنا لئے لیکن ایل بی ڈبلیو ہو گئے۔ ان کے ساتھ آنے والے بابر اعظم 124 گیندوں سے  81 رنز بنا کر  مارکو جیسن کی گیند پر اکیچ آؤٹ ہوئے تھے۔  اوپنرز کی پارٹنر شپ 46 اوورز تک رہی، کیپٹن شان مسعود 83 اوورز تک وکٹ پر رہے لیکن باقی کھلاڑی آٹھ دس اوورز سے زیادہ وقت وکٹ پر نہیں رہ سکے۔

خرم شہزاد 37  گیندوں سے 18، کامران غلام  42  گیندوں سے 28 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ سعود شکیل 51 گیندوں سے  23 رنز اور رضوان 75 گیندوں سے  45 رنز بنا کر بعد ازاں ہونے والی شرم ناک شکست میں اپنا اپنا حصہ ڈال گئے۔ 

سلمان آغا 95 گیندوں سے  48 رنز ، عامر جمال 43 گیندوں سے 34 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ میر حمزہ 20 گیندوں سے  16 رنز بنا کر آؤٹ ہو گئے، وہ  آخری گرین شرٹ بیٹر تھے جن کے آؤٹ ہونے کے وقت پاکستان کا دوسری اننگ کا  مجموعی سکور 478 تھا، سؤتھ افریقہ کے رنز کے پہاڑ کو منہا کرنے کے بعد پاکستان کی دوسری اننگ کی لیڈ 57 رنز تھی اور ساؤتھ افریقہ کے لئے جیتنے کے لئے ٹارگٹ 58 تھا۔  صائم ایوب ایبسنٹ ہرٹ تھے،  محمد عباس تین گیندیں کھیل کر ڈک کے ساتھ ناٹ آؤٹ واپس گئے۔

دوسری اننگ میں پاکستان کے بیٹر میچ کو ڈریگ کرنے کی سخت ضرورت کے باوجود 121 اوورز ہی وکٹ پر گزار سکے۔ 

پہلی اننگ میں کسی دشواری کے بغیر سوا چھ سو رنز بنانے والے پروٹیز کے لئے ہوم وکٹ پر  58 رنز کا ٹارگٹ  8 اوورز کا کھیل نکلا۔ پروٹیز نے کوئی وکٹ گنوائے بنا سہولت کے ساتھ یہ میچ ختم کر ڈالا۔ 

ریان ریکلٹسن کو پلئیر آف دی میچ قرار دیا گیا۔  ریان ریکلٹسن نے  پہلی اننگ مین اوپننگ کی تھی اور 132 ویں اوور تک وکٹ پر رہ کر  343 گیندوں سے  259 رنز بنائے تھے۔  ریان ریکلسن کی اننگ میں 29 چوکے تھے، 3 چھکے تھے اور ان کا سٹرائیل ریٹ 75.50 تھا۔ 

پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بابر اعظم نے بنائے جن کے پہلی اننگ میں 58 رنز اور دوسری اننگ میں 81 رنز تھے، شان مسعود نے دوسری اننگ میں 145 رنز تو بنائے لیکن  ون ڈے فارمیٹ کے کیپٹن رضوان دونوں اننگز میں 46 اور 41 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے، ان کی بیٹنگ کو ون ڈے فارمیٹ کے پیرامیٹرز سے دیکھین تو سکور کم تھا اور ٹیسٹ میچ کے پیرامیٹرز سے دیکھیں تو ان کا وکٹ پر موجود رہنے میں دو مرتبہ ناکام ہونا ٹیم کی شکست کی وجوہات میں سے ایک نکلا۔

پہلی اننگ میں ساؤتھ افریقہ کے  کیپٹن ٹیمبا  بیووما نے کیپٹنلی اننگ کھیلی تھی اور  106 رنز بنانے کے لئے  179 گیندوں کا سامنا کیا تھا۔ اس اننگ میں ریکلسن  اور بیووما کے ساتھ  وکٹ کیپر کیل ویرینی نے بھی 100 رنز بنائے تھے اور  مارکو جینسن 62 اور کیشوو مہاراج 40 رنز کے ساتھ  مجموعے کو بیف اپ کرنے میں حصہ ڈال کر گئے تھے۔

پہلی اننگ میں پروٹیز کو رنز بنانے میں سہولت کی بڑی وجہ جو سامنے آئی وہ پاکستان کی پلئینگ الیون میں ریگولر سپن باؤلر کی عدم موجودگی تھی۔ سب سے زیادہ وکٹیں سلمان علی آغا اور عباس کو تین تین ملیں لیکن  ان کی اکانومی جو دوسروں کی نسبت کافی بہتر تھی وہ ساڑھے تین اور  پونے چار رہی۔ کم از کم ایک ریگولر سپن باؤلر شامل ہوتا تو پہلی اننگ میں پروٹیز کی اوپننگ پارٹنر شپ کو بہت پہلے توڑنے میں مدد مل سکتی تھی اور اس کے بعد باقی بیٹرز کو اندھا دھند پٹائی کرنے سے روکنا ممکن ہو سکتا تھا۔ اکلوتے لیگ بریکر آغا نے ایک اینڈ سے سکور کسی حد تک روکا لیکن "فاسٹ باؤلرز" مار کھا کر حساب بربر کرتے رہے۔

اس میچ مین شکست کے بعد کپتان نے بتایا کہ کھلاڑیوں کو سیکھنے کا موقع ملا ہے، وہ خود کے پہلی اننگ کے پہلے اوور کی چھٹی گیند پر آؤٹ ہو  جانے سے لے کر کسی ریگولر سپنر کو شامل نہ کرنے سے کیا سیکھ پائے ہیں، اس کا اندازہ تو اب ویسٹ انڈیز کے ساتھ کھیل کر ہی ہو سکے گا۔