ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

  نیتن یاہو حکومت کو عدلیہ کی آزادی بارہ روز میں سلب کرنے کا چیلنج درپیش، وزرا کی متنازعہ گفتگو سامنے آ گئی

Israeli politics, Communications Minister Shlomo Karhi,Justice Minister Yariv Levin , Justice Isaac, Supreme Court of Israel,
کیپشن: اسرائیل کے وزیر انصاف یاریو لیون (بائیں) اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو، 31 دسمبر 2024 کو کنیسٹ میں ووٹنگ کے دوران تصویر۔ (فوٹو: بذریعہ ٹائمز آف اسرائیل، کریڈٹ چیم گولڈ برگ/فلیش90)۔ اتحادی حکومت  اسرائیل کی عدلیہ کی آزادی کو کنٹرول کرنے کے لئے ججوں کے تقرر کا اختیار حاصل کرنا چاہتی ہے، اس منصوبہ کی عوامی سطح پر سخت مزاحمت کے سبب پارلیمنٹ میں بظاہر اکثریت کے باوجود نیتن یاہو حکومت جوڈیشل لسیکشن کمیٹی کی کمپوزیشن کو اپنے حق میں کرنے کے جس متنازعہ قانون پر کام آگے بڑھانے سے ڈیڑھ سال سے باز ہے، اب اس قانون کے بل یا اس ہی جیسے ایک اور قانون کے بل پر بہر صورت قانون سازی کروانے کے درپے ہے، مصیبت یہ ہے کہ یہ سب کچھ 16 جنوری سے پہلے کرنا ہے کیونکہ اس روز ہائی کورٹ کی ڈیڈ لائن کے مطابق سپریم کورٹ کے صدر کا تقرر بہرحال ہونا ہے۔
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: نیتن یاہو کی کمزور ہوتی ہوئی حکومت سپریم کورٹ میں سربراہ کے عہدہ پر  آزاد اور لبرل جج کے تقرر سے بچنے کے لئے یہ بحث کر رہی ہے کہ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالے یا چیتے کے منہ میں ہاتھ ڈالے۔ نیتن یاہو کی حکومت کے وزیر انصاف یاریو لیون نے عدالتوں میں تقرریوں کو کنٹرول کرنے کے لئے انتہائی متنازعہ قانون کے بل کو جلد  منظور کروانے (بلڈوز کرنے) کا عندیہ ظاہر کیا ہے جبکہ وزیر مواصلات ایک اور انتہائی متنازعہ بل کے ذریعہ  عدلیہ کو کنٹرول کرنے کےمقاصد حاصل کرنے کے حامی ہیں۔

اسرائیل کی سپریم کورٹ کے سربراہ کا تقرر مہینوں سے لٹکا ہوا ہے کیونکہ موجودہ قانون کے تحت جو سینئیر موسٹ جج سپریم کورٹ کے سربراہ بننے کے اہل ہیں، نیتن یاہو کی حکومت انہیں مستقل نہیں کرنا چاہتی، مہینوں سے وہ قائم مقام حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ تل ابیب کی زیریں  ڈسٹرکٹ کورٹ میں وزیر اعظم نیتن یاہو آج کل  بدعنوانی کے  سنگین الزامات کے مقدمات مین گواہی ریکارڈ کروا رہے ہیں، ان پر استغاثہ کی جرح شروع ہونا دِنوں کی بات ہے، سرِ دست یہ مرحلہ نیتن یاہو کے پروسٹیٹ سرجری کے بعد آرام کرنے کی درخواست کے سبب کچھ دنوں کے لئے ٹلا ہوا ہے۔

یہ قانون کا مسودہ پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کے بل پر بھی منظور کروانا آسان نہیں، عدلیہ کی آزادی پر اسرائیل میں رائے عامہ پہلے ہی نیتن یاہو حکومت کی کنٹرول حاصل کرنے کی کوششوں کے سخت خلاف ہے۔

وزیراعظم نیتن یاہو کی اتحادی حکومت کے وزیر انصاف یاریو لیون نے ایک انتہائی متنازعہ بل کو تیزی سے قانون میں پاس کرنے کی اپنی خواہش کا اشارہ کیا  ہےجو کہ تقریباً تمام عدالتی تقرریوں پر اتحادیوں کی حکومت  کو کنٹرول دے گا، یہ کہتے ہوئے کہ "وقت آ گیا ہے" کہ کنیسیت میں اس اقدام کی منظوری دی جائے۔

لیون کے تبصرے، جو ریکارڈ ہو گئے اور کان نیوز اور چینل 13 کے ذریعے شائع کیے گئے، اتوار کے روز  دن کے اوائل میں وزارتی کمیٹی برائے قانون سازی کے ایک اجلاس کے دوران کیے گئے۔ 

اس اجلاس میں وزارتی کمیٹی برائے قانون سازی سپریم کورٹ کے صدر کا انتخاب جوڈیشل سلیکشن کمیٹی میں کرنے کی بجائے موجودہ طریقہ کار کا متبادل طریقہ بنانے کے لئے  سپریم کورٹ کے صدر کی سیلیکشن کنیست پلینم (پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں تمام ارکان کے ووٹ کے ذریعہ)  کرنے کی غرض سے قانون کا ایک الگ بَل کنیست (ّپارلیمنٹ) میں لانے کے لیئے غور کر رہی تھی۔

سپریم کورٹ کے صدر کا انتخاب کرنے کے لیے دنیا کے کئی ملکوں کی طرح اسرائیل کی حکومت بھی مداخلت کرنے سے معذور ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے سینئیر موسٹ جج قاعدہ کے مطابق تقریباً یقیناً سپریم کورٹ کے صدر بن جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے موجودہ سینئیر موسٹ جج اور عدالتِ عظمیٰ کے قائم مقام صدر اسحاق  عمیت واضح طور پر عدلیہ کی آزادی اور کرپشن جیسے ایشوز پر نیتن یاہو کی حکومت کے عزائم میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔  عدلیہ کی آزادی کے ایشو پر سپریم کورٹ کے بیشتر جج نیتن یاہو کے پلانز پر سخت تحفظات کا اظہار پہلے کر چکے ہیں۔

وزیرانصاف لیون نے قانون سازی کی کمیٹی کے اجلاس میں اپنے تبصروں میں  کہا کہ وہ  (سپریم کورٹ کے صدر کے پارلیمنٹ کے ذریعہ تقرر کے) اس بل کیے مخالف ہیں، کیونکہ یہ ان کی "منصوبہ بند دور رس قانون سازی"  کے برعکس تجویز ہے- لیون کا منصوبہ  ان کے متنازعہ عدالتی اصلاحات کے ایجنڈے کے مرکز میں ہے، اس منصوبہ کا مدعا یہ ہے کہ حکومت کو جوڈیشل سلیکشن کمیٹی میں اکثریت حاصل ہو، اور اس طرح عدالتی تقرریوں پر کنٹرول حاصل رہے ۔ اس منصوبہ پر عمل ہوا تو   سپریم کورٹ کے صدر کے تقرر کے معاملہ میں بھی کنترول ججوں سے حکومت کو منتقل ہو جائے گا۔

لیون نے وزارتی کمیٹی کے دوران وزیر مواصلات شلومو کارہی کو بتایا کہ "یہ بل [جوڈیشل سلیکشن کمیٹی کی کمپوزیشن  کو تبدیل کرنے کے منصوبہ] سے متصادم ہے، جو پلینم میں اپنی دوسری اور تیسری ریڈنگ کے لیے تیار ہے،  اس بِل کے حوالے سے  یقینی طور پر ممکن ہے کہ ہم  قانون سازی کے اجلاس کے لئے آگے بڑھیں گے،" لیون نے وزارتی کمیٹی کے دوران وزیر مواصلات شلومو کارہی کو بتایا۔

وزیر مواصلات شلومو کارہی نے وزیر انصٓف لیون کے مؤقف کے جواب میں کہا کہ اس سے کہیں زیادہ ڈرامائی بل، جس نے قانون سازی کے عمل کے تمام مراحل کو کنیسیت میں اپنی حتمی ریڈنگ سے پہلے پاس کر لیا ہے، ڈیڑھ سال سے منجمد پڑا ہے، اور  شلومو کارہی نے شک ظاہر کیا کہ اب اس منجمد بِل کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔

"وقت آ گیا ہے کیونکہ، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، آرڈر کی آخری تاریخ قریب ہے،" لیون نے ہائی کورٹ آف جسٹس کی طرف سے لیون کو 16 جنوری تک سپریم کورٹ کے نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ کرانے کے حکم کے حوالے سے جواب دیا۔ 

لیون کے پاس فی الحال کمیٹی میں ووٹوں کی کمی ہے تاکہ عدالت کے صدر کے لیے اپنی پسند کا انتخاب کیا جا سکے، اور کمیٹی میں اس کے موجودہ فارمیٹ میں ایک ووٹ ممکنہ طور پر "لبرل جج" جسٹس اسحاق عمیت کو ہی جائے گا، جس کی لیون مخالفت کرتے ہیں، کہ ان کو عدالت کا سربراہ بنایا جائے گا۔

تیرہ دسمبر کو جسٹس اسحاق عمیت کی سخت تنقید

اسرائیلی سپریم کورٹ کے قائم مقام سربراہ  اسحاق عمیت نے 13 دسمبر کو  نیتن یاہو حکومت پر عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچانے کا الزام  لگاتے ہوئے وزیر انصاف  کی سخت مذمت کی تھی۔

 کیپشن: یروشلم میں سپریم کورٹ  کے قائم مقام سربراہ  جسٹس اسحاق امیت نے نیتن یاہو حکومت کی جانب سے عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے کی سسٹمیٹک  کوششوں کی نشاندہی اور ان کی شدید مذمت کرتے ہوئے غیر معمولی غصیلی تقریر اور  سپریم کورٹ کے ججوں کا  جوڈیشل سیلیکشن کمیٹی کے اجلاس سے واک آؤٹ  ایک ہی روز ہونے والے دو خاص واقعات تھے۔ یہ سب کچھ عین اس وقت ہوا جب نیتن یاہو تل ابیب میں  دسٹرکٹ کورٹ میں خود پر کرپشن، بریچ آف ٹرسٹ اور اختیارات کے غیر قانونی استعمال کے مقدمات میں جرح کا سامنا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہیں 16 جنوری تک سپریم کورٹ کے صدر کا انتخاب بھی درپیش ہے۔ فوٹو بذریعہ ٹائمز آف اسرائیل


 جسٹس اسحاق عمیت نے کہا تھا  کہ  "عدالتی اتھارٹی اپنی ادارہ جاتی لچک کو کمزور کرنے کی کوششوں کے مقابلے میں مضبوط کھڑی رہے گی۔"

اسرائیل کی سپریم کورٹ کے قائم مقام صدر اسحاق عمیت نے 13 دسمبر کو  ایک غیر معمولی تقریر میں نیتن یاہو حکومت اور اس کے  وزیر انصاف یاریو لیون کی اس بات پر تنقید کی کہ انہوں نے اسرائیلی ایسوسی ایشن فار پبلک لاء میں ایک عوامی تقریر میں "عدلیہ کی آزادی" کو مجروح کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں بات کی۔

 وزیر انصاف لیون کے کومنٹس دسمبر کے دوسرے ہفتے  ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد آئے  تھے جس میں لیون کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر سپریم کورٹ کے نئے صدر کے تقرر  کے لیے ووٹ کا انعقاد کرے۔

جوڈیشل سلیکشن کمیٹی کے اجلاس سے ججوں کا واک آؤٹ

تیرہ دسمبر کو ہی سپریم کورٹ کے صدر کے تقرر کے لئے جوڈیشل سلیکشن کمیٹی کا اجلاس غیر معمولی تاخیر کے بعد ہوا تو اس میں وزیر انصاف نیاریو لیون نے بھونڈے انداز سے اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کوشش کی تھی جس کے ردعمل میں کمیٹی کے جج ارکان نے اجلاس سے واک آؤٹ کر دیا تھا۔