ویب ڈیسک:برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز نےپاکستان سے متعلق رپورٹ جاری کر دی ہے۔ رواں برس ہونے والے انتخابات زہریلے جھگڑوں کا آغاز ہو گا۔موسمیاتی تبدیلیاں، دہشتگردی اور بیرونی قرضوں کے باعث سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو اپنی جدید تاریخ کے بدترین چیلنجز کا سامنا ہے اور سیاسی نااہلی سے دوچار اس کی معیشت جو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے،ملک کو گزشتہ ہفتے ایک دہشت گردانہ حملے کا سامنا کرنا پڑا جس میں 100 افراد شہیدہوئے۔ عالمی سطح پر چین سمیت مغربی ممالک اس قرض میں دبی جوہری ہتھیار رکھنے والی عدم استحکام ریاست کا زیادہ دیر تک ساتھ نہیں دے سکتا۔
فنانشل ٹائمز کے مطابق ملک کے سیاسی اور عسکری اشرافیہ نے کئی دہائیوں سے بے عملی، بدعنوانی اور مایوس کن طرز حکمرانی کی ہے۔اہم سیاسی جماعتیں وقفے وقفے سے ملک کو نقصان پہنچاتی رہیں۔ پاکستان کی تقدیر سنوارنے کے بجائے اس سال ہونے والے انتخابات کو ممکنہ طور پر زہریلے جھگڑوں کے ایک نئے دور کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اگر اسلام آباد سے باہر جائیں تو بہت کم یقین رکھنے والے لوگ ملیں گے کہ حکمران طبقہ ان کے مصائب کو دور کرنے کے لیے کچھ کر سکتا ہے۔ سیاست دانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی پارٹیوں کا نہیں بلکہ عوام کا بھلا سوچیں۔
سری لنکا کے بعد پاکستان کو ڈیفالٹ کا خطرہ ہے، جہاں خوراک اور ادویات کی کمی ہے۔ لیکن سری لنکا سے دس گنا زیادہ آبادی، جوہری ہتھیار، مداخلت کی تاریخ رکھنے والی فوج اور خونخوار جنون کا مظاہرہ کرنے والے انتہا پسندوں کی موجودگی ایک الگ صورت حال ہے۔ بین الاقوامی قرض دہندگان اور کثیر الجہتی اداروں کو پاکستان کی ایسے حالات میں مدد کرنی چاہیے۔
ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر گزشتہ ماہ کے آخر میں کم ہو کر صرف3 اعشاریہ 7 بلین ڈالر رہ گئے ہیں جو صرف تین ہفتوں کی درآمدات کے برابر ہے۔ جس کا موازنہ 270 بلین ڈالر کے کل عوامی قرض سے ہے جو جی ڈی پی کا تقریباً 79 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کو گزشتہ سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑا جس سے 30 بلین ڈالر کا نقصان ہوا اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔ بین الاقوامی قرض دہندگان نے گزشتہ ماہ 9 بلین ڈالر کے امدادی پیکیج پر اتفاق کیا تھا لیکن اس بارے میں بہت کم وضاحت ہے کہ یہ کس طرح اور کب لوگوں تک پہنچے گا جنہیں اس کی سخت ضرورت ہے۔ اس کا فوری تعین کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
یوکرین اور روس کی جنگ، افراط زر کی کمی،خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافہ اور بدانتظامی سب ے اس مقام تک پہنچنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔IMF کا ایک مشن اس وقت پاکستان میں ہے جو کہ 2019 میں متفقہ 7 بلین ڈالر کے امدادی پیکج کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔جب حکومت نے IMF کی شرائط کو پورا کرنے کی کوشش کی تو روپیہ تاریخ کی کم ترین سطح پر آگیا ہے اور کرنسی کو مصنوعی طور پر سپورٹ کرنے والے ایکسچینج کنٹرول کو ترک کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کے علاوہ پاکستان کا سب سے بڑا قرض دہندہ چین ہے، جو کل قرضوں کا تقریباً 30 بلین ڈالر رکھتا ہے، جس میں بجلی کی خریداری کے لیے خود مختار چینی پاور پروڈیوسرز پر واجب الادا 1 اعشاریہ 1 بلین شامل نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں، چین کو دوسرے بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ برابری کے وسیع اصول کی پاسداری کرنی چاہیے۔چین، آئی ایم ایف اور قرض دہندہ ممالک کو پاکستان کے قرضوں کی تنظیم نو کے لیے مذاکرات میں جلد لانے کی ضرورت ہے۔