سٹی42: بھارت میں سیکولرزم کی پرچارک کانگرس پارٹی پانچ ریاستوں کے حالیہ انتخابات میں دو ریاستوں میں اپنی حکومتیں کھو بیٹھی، تیسری ریاست میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی نے دو تہائی اکثریت حاصل کر لی لیکن 3 ریاستوں کو ہارنے کے باوجود پانچوں ریاستوں میں کانگریس دراصل بی جے پی سے 11 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
نومبر کے آخری ہفتہ کے دوران پانچ ریاستوں چھتیس گڑھ، راجستھان، مدھیہ پردیش، تلنگانہ اور میزورم میں ریاستی الیکشن کو رائے عامہ کا رجحان جاننے کے لئے اس لئے بہت زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے کہ یہ آئندہ سال مئی میں بھارتی کی لوک سبھا اور مرکزی حکومت کے انتخابات سے پہلے آخری ریاستی الیکشن ہیں۔
ان ریاستی انتخابات میں کانگرس کی راجستھان اور چھتیس گڑھ میں مقامی حکومتوں کی کمزور کارکردگی اور کسی حد تک پارٹی کی مقامی قیادت کی باہمی کھینچا تانی کی وجہ سے حکومتیں ختم ہو گئیں جبکہ مدھیہ پردیش مین بھارتیہ جنتا پارٹی کی کانگرسی ارکان اسمبلی کی ڈیفیکشن سے 2018 میں بننے والی حکومت توقعات سے زیادہ مستحکم ہو گئی لیکن کانگریس نے تلنگانہ کی ریاست میں تاریخ کا رخ موڑ دینے والی کامیابی حاصل کر لی۔
میزو رم میں علاقائی پارٹی زورام پیپلز موومنٹ کو 27 نشستوں پر عظیم الشان کامیابی ملی جبکہ میزو نیشنل فرنٹ صرف 10 نشستیں حاصل کر سکا۔ یہاں کانگرس کو ایک نشست ملی۔ زورام پیپلز موومنٹ میزو نیشنل فرنٹ کے متبادل کی حیثیت سے 2017 میں بنائی گئی تھی اور یہ اس کا پہلا ریاستی چناؤ تھا۔ زورام پیپلز موومنٹ نے ریاستی الیکشن میں میزو نیشنل فرنٹ کی گزشتہ اسمبلی میں 27 نشستوں کو صرف 10 تک محدود کر دیا اور خود 40 ارکان کی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر لی۔
پانچ ریاستوں کے الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو نئی ریاستوں اور مدھیہ کی اہم ریاست میں حکومتیں بنانے کا موقع تو مل گیا لیکن یہ حقیقت کھل گئی کہ بھارت میں ووٹرز کا رجحان بدل چکا ہے اور اب کانگرس انڈیا الائنس کی جماعتوں کے ساتھ مل کر 2024 کا الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔
اگر ہم پانچ ریاستوں میں دو مرکزی پارٹیوں کے تمام حلقوں میں پڑے ووٹوں کو ملا کر دیکھیں تو بی جے پی کے کل ووٹوں کی تعداد 4 کروڑ 81 لاکھ ہوئی جبکہ کانگریس کے کل ووٹ 4 کروڑ 92 لاکھ ہو گئے۔ یوں پانچ ریاستوں میں پاپولر ووٹ کی گنتی میں کانگرس کی برتری 11 لاکھ بنتی ہے۔ یہ برتری آئندہ لوک سبھا الیکشن میں دوسری ہم خیال جماعتوں کے ووٹوں کے ساتھ مل کر یقیناً بھارت کی سیاست کا نقشہ بدل سکتی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یقینا، کانگریس کی برتری بنیادی طور پر تلنگانہ میں اس کے اور بی جے پی کے درمیان بڑے پیمانے پر ووٹوں کے فرق کی وجہ سے ہے۔ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بی جے پی کو کانگریس کے مقابلے میں کافی زیادہ ووٹ ملے۔ تاہم اس صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ راجستھان اور چھتیس گڑھ مین حکومتیں لے کر درحقیقت ایک بڑا چیلنج لیا ہے جو ان دونوں ریاستوں میں اس کا پاپولر ووٹ آئندہ چھ ماہ میں بڑھانے سے زیادہ گھٹانے کا سبب بن سکتا ہے۔ان دونوں ریاستوں مین بھاجپا کو وزارت اعلیٰ کے لئے مناسب شخصیات چننے کے لئے ہی ناکوں چنے چبانا پڑیں گے۔ اس کے بعد عوام کی توقعات پوری کرنے کے لئے صرف چھ ماہ میں کئی کارنامے کرنے کے لئے سازگار حالات ملنا آسان نہیں جبکہ ناکام ہونے کے لئے محض اتنا ہی کافی ہو گا کہ نظام اب تک کی سطح سے کچھ ہی خراب ہو جائے۔