بنگلہ دیش میں سوفٹ کودیتا، پارلیمنٹ تحلیل، لیفٹیننٹ جنرل وزیر خارجہ بن گیا

6 Aug, 2024 | 08:30 PM

سٹی42: بنگلہ دیش میں وزیراعظم حسینہ واجد کو استعفیٰ دے کر ملک چھوڑ جانے پر مجبور کر دینے والے انقلاب کی پرتیں اب کھلنے لگی ہیں، حسینہ واجد کے اقتدار سے الگ ہونے کے ایک روز بعد فوج میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی اور صدر نے وہ پارلیمنٹ توڑ دی جس میں وزیراعظم حسینہ واجد کی جماعت عوامی لیگ کو بھاری اکثریت حاصل تھی۔ آج ہی سابق وزیراعظم اور اپوزیشن کی اہم لیڈر خالدہ ضیا کی نظر بندی بھی ختم کر دی گئی۔ 

بنگلہ دیش کے صدر نے منگل کو پارلیمنٹ تحلیل کر دی جس کے بعد پارلیمنٹ میں جمہوری طریقہ سے نئی حکومت کے انتخاب کا امکان  ختم ہو گیا اور فوج کی سرپرستی میں غیر منتخب عبوری حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی۔  ایک دن  پہلے  وزیر اعظم شیخ حسینہ نے بعض سٹوڈنٹ گروپوں کی جانب سے چلائی گئی پرتشدد احتجاجی تحریک کے  سول نافرمانی مرحلہ کے آغاز پر فوج کے دباؤ مین اپنے عہدے سے  استعفیٰ دے دیا تھا اور  ملک چھوڑ کر بھارت چلی گئی تھیں۔

بنگلہ دیش کے صدر  شہاب الدین کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا  کہ حسینہ واجد کی حریف بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی چیئرپرسن بیگم خالدہ ضیا، جو سابق وزیر اعظم ہیں، کو نظر بندی سے رہا کر دیا گیا ہے۔

پرلیمنٹ توڑے جانے کی بظاہر وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ احتجاج کو بغاوت تک لانے والے سٹوڈنٹ لیڈروں نے دھمکی دی تھی کہ اگر پارلیمنٹ تحلیل نہ کی گئی تو مزید مظاہرے ہوں گے۔

بنگلہ دیش کی فوج میں اکھاڑ پچھاڑ

منگل کے روز بنگلہ دیش کی فوج میں بڑے پیمانے پر  برطرفیاں اور تبادلے کردیے گئے۔

انٹرسروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) کی جانب سےبتایا گیا ہے کہ میجر جنرل ضیاء الاحسن کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے۔ میجر جنرل ضیاء الاحسن انٹیلی جنس ایجنسی" نیشنل ٹیلی کمیونیکیشن مانیٹرنگ سینٹر " (این ٹی ایم سی) کے ڈائریکٹر جنرل تھے اور یہ ایجنسی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔

اس ایجنسی کے ذمہ ملک کی صورتحال پر نظر رکھنا، اعدادو شمار جمع کرنا اور کمیونیکیشن مواد کی ریکارڈنگ شامل تھا۔اس ایجنسی کو ای میلز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نگرانی اور فون کالز ریکارڈنگ بھی کرنے کی اجازت ہے۔


بنگلہ دیش کی آئی ایس پی آر کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل سیف العالم کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا ہے، لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمان جی او سی آرمی ٹریننگ اور ڈاکٹرائن کمانڈ ہوں گے۔  میجر جنرل  ضیاء الاحسن کی جگہ میجر جنرل ردوان الرحمان ڈی جی این ٹی ایم سی ہوں گے۔

کل شیخ حسینہ واجد سے استعفیٰ دلوانے کے بعد بنگلہ دیش آرمی کے سربراہ جنرل  زمان نے عبوری حکومت بنانے کا اعلان کیا تھا، اس عبوری حکومت کے خدوخال ابھی سامنے نہین آئے، صدر نے اسمبلی توڑ دی اور آئی ایس پی آر نے نئے وزیر خارجہ کی حیثیت سے ایک لیفٹیننٹ جنرل کے تقرر کا اعلان کر دیا جس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ بنگلہ دیش میں دراصل "سوفٹ کو دیتا " ہو چکا ہے۔

جنرل وقار الزمان کون ہیں

بنگلہ دیش کا آرمی چیف بننے کے صرف ایک ماہ بعد، جنرل وقارالزمان پیر کے روز  وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفیٰ کا اعلان کرتے ہوئے  دکھائی دیئے۔ ایک روز بعد ان کی فوج کے پبلک ریلیشننگ شعبہ سے ملک کے نئے وزیر خارجہ کے تقرر کا اعلان کیا گیا۔ یہ جنرل وقار الزماں کون ہیں؟ 

58 سالہ زمان نے 23 جون کو تین سال کی مدت کے لیے آرمی چیف کی ذمہ داریاں سنبھالیں جو اس عہدے کے لیے معمول کی مدت تھی۔

وقار الزماں1966 میں ڈھاکہ میں پیدا ہوئے، ان کی شادی جنرل محمد مستفیض الرحمان کی بیٹی سارہناز کمالیکہ زمان سے ہوئی،  ان کے سسر جنرل مستفیض 1997 سے 2000 تک آرمی چیف رہے۔

بنگلہ دیشی فوج کی ویب سائٹ کے مطابق، وقار الزمان نے نیشنل یونیورسٹی آف بنگلہ دیش سے ڈیفنس سٹڈیز میں ماسٹر کی ڈگری اور کنگز کالج، لندن سے ڈیفنس اسٹڈیز میں ماسٹر آف آرٹس کی ڈگری حاصل کی ہے۔

آرمی چیف بننے سے پہلے، انہوں نے چیف آف جنرل اسٹاف کے طور پر چھ ماہ سے کچھ زیادہ عرصے تک خدمات انجام دیں -

ساڑھے تین دہائیوں پر محیط کیرئیر میں، انہوں نے حسینہ واجد کے ساتھ قریبی کام بھی کیا، وزیر اعظم کے دفتر کے تحت آرمڈ فورسز ڈویژن میں پرنسپل اسٹاف آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔وہ  فوج کی جدید کاری سے بھی وابستہ رہے ہیں۔

گزشتہ  مہینے جب مظاہروں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا، تو جنرل وقار الزمان نے فوج کے اہلکاروں  کو سڑکوں پر ہونے والے تشدد سے عملاً الگ رکھا۔ فوج اہم ریاستی تنصیبات کی حفاظت تک محدود رہی۔

ہم اب تک کیا جانتے ہیں

وزیراعظم حسینہ ضیا کے استعفے اور ملک سے باہر چلے جانے کے بعد بنگلہ دیش کی فوج میں اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی اور کئی اہم عہدیداروں کو  کلیدی عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ 

بنگلہ دیش میں پرتشدد احتجاج کی قیادت کرنے والے بعض لوگوں کی یہ فرمائش سامنے آئی ہے کہ  نوبل انعام یافتہ یونس عبوری حکومت کی قیادت کریں۔
سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کو نظر بندی سے رہا کر دیا گیا۔

دنیا کے کئی ممالک نے بنگلہ دیش میں صورتحال پر تشویش ظاہر کی ہے۔ بھارت نے  بھی بنگلہ دیش کی سورتحال پر تشویش ظاہر کی اور حسینہ واجد  کی مدد کرنے کی کھل کر یقین دہانی کروا دی۔  
بنگلہ دیش  کے  بعض ذرائع کے مطابق پیر کو 113 افراد کی ہلاکت کے بعد پر تشدد مظاہروں میں مرنے والوں کی تعداد بڑھ کر 413 ہو گئی۔
حسینہ واجد کا تختہ الٹنے  کا سبب بننے والی تحریک،   بنگلہ دیش کی 1971 کی جنگ آزادی کے سابق فوجیوں کے خاندانوں کے لیے سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف مظاہروں سے شروع ہوئی۔ 

بدامنی کا آغاز گزشتہ ماہ سول سروس کے ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف مظاہروں کی شکل میں ہوا اور پھر حسینہ واجد کے استعفیٰ کے وسیع مطالبات میں بڑھ گیا۔

76 سالہ حسینہ 2009 سے اقتدار میں تھیں لیکن ان پر جنوری میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا گیا اور پھر گزشتہ ماہ لاکھوں لوگوں کو  سرکاری ملازمتوں مین کوٹہ کی پالیسی پر احتجاج کے نام پر سڑکوں پر نکلتے ہوئے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے دیکھا۔

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران بنگلہ دیش کے کئی شہروں مین پر تشدد احتجاج کے دوران  دو سو سے زائد افراد مارے گئے۔

سسپریم کورٹ نے ملازمتوں میں کوٹہ کا قانون کالعدم کر دیا تب بھ یتشدد جاری رہا اور اس نے زیادہ پیچیدہ شکل اس وقت اختیار کر لی جب تشدد مین ملوث سٹوڈنٹس کے لیدروں نے سول نافرمانی اور ڈھاکہ میں مارچ کا اعلان کر دیا۔ نام نہاد سول نافرمانی کے اعلان کے بعد دو دن مین مزید درجنوں  ہلاکتیں ہوئیں اور صورتحال کو سنبھالنے میں ناکام رہنے والی وزیراعظم حسینہ واجد کو اچانک فوج کی جانب سے عہدہ چھوڑ دینے کے لئے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ حسینہ بالآخر پیر کو ہیلی کاپٹر پر سوار بنگلہ دیش سے فرار ہو گئیں کیونکہ فوج ان کے خلاف ہو گئی تھی۔

منگل کے روز جاری ہونے والے صدارتی بیان میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ دفاعی افواج کے سربراہان، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، طلبہ رہنماؤں اور سول سوسائٹی کے کچھ نمائندوں سے ملاقاتوں کے بعد کیا گیا۔

صدر شہاب الدین نے پہلے کہا تھا کہ عبوری حکومت اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد انتخابات کرائے گی۔اس دوران یہ خبریں بھی آئیں کہ  آرمی چیف جنرل وقار الزمان حکومت سازی پر تبادلہ خیال کے لیے طلبہ رہنماؤں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ 

حسینہ  واجد کے خلاف تحریک کے اہم منتظمین میں سے ایک ناہید اسلام نے دو دیگر طلبہ رہنماؤں کے ساتھ فیس بک پر ایک ویڈیو میں الٹی میٹم دیتے ہوئے  کہا کہ پارلیمنٹ کو منگل کو سہ پہر 3 بجے (صبح 9 بجے) تک تحلیل کر دی جائے، اور اگر ایسا  نہ ہوا تو  ناہید اسلام نے "انقلابی طلبہ کو تیار رہنے" کو کہا 

حسینہ واجد کی بھارت روانگی سے 170 ملین لوگوں کے ملک میں اقتدار میں ان کے 15 سالہ دوسرے دور کا خاتمہ تو ہو گیا لیکن عوامی پارٹی اور اس کی پارلیمنٹ مین اکثریت ایک زمینی حقیقت ہے۔ 

1990 کی دہائی کے اوائل سے ہی حسینہ نے اپنی حریف ضیا کے ساتھ کشمکش میں پھنس گئی تھی۔ خالدہ ضیا نے  اپنی سیاسی تحریک اپنے شوہر  سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الرحمن سے وراثت میں حاصل کی تھی۔

منگل کو دارالحکومت ڈھاکہ کی سڑکیں ایک بار پھر پرسکون ہو چکی ہیں۔ آج سڑکوں پر  ٹریفک معمول سے کم تھی اور بہت سے اسکول اور کاروبار جو بدامنی کے دوران بند تھے، وہ  اب بھی بند ہیں۔

 گارمنٹس مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے کہا کہ گارمنٹ فیکٹریاں، جو دنیا کے کچھ اعلیٰ برانڈز کو ملبوسات فراہم کرتی ہیں اور معیشت کی ایک اہم بنیاد ہیں، وہ فی الحال بند ہیں۔ 

مزیدخبریں